عراق

حزب اللہ کے بعد حشد الشعبی میدان جنگ اور میدان سیاست میں فعال

مغربی ایشیا یا مشرق وسطی میں لبنان اور عراق کے پارلیمانی انتخابات علاقائی اور عالمی سطح پر انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان دونوں ملکوں میں بننے والی حکومتوں کا خطے میں جاری حالات سے براہ راست گہرا تعلق بنتا ہے ۔
دونوں ملکوں کے انتخابات میں اسی لئے علاقائی اور عالمی قوتوں کی درپردہ کوششیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ،ہرقوت کی کوشش دیکھائی دیتی ہے کہ وہ ان دو ملکوں میں سیاسی بساط کو اپنے حق میں کرے ۔
لبنان کے پارلیمانی انتخابات میں حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کی کامیابی کے اثرات صرف لبنان کی سرحد کے اندر کے اثرات نہیں رکھتے بلکہ یہ کامیابی علاقائی اور عالمی سطح پر قائم دو اہم بلاکوں یعنی مزاحمتی بلا اور اتحادی تو دوسری جانب امریکی اسرائیلی ،سعودی بلاک اور اتحادیوں کی پالیسیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گی ۔
عراق کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں سیاسی تنوع اور کثیر الجہتی پائی جاتی ہے ،موجودہ انتخابات میں بہت سی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اور بہت سے ایسے سیاسی اتحاد یا الائنس دیکھائی دیتے ہیں جو مختلف الخیال سیاسی و سماجی مذہبی گروہوں سے تشکیل پائے ہیں ۔
سرکاری اعلان کے مطابق حالیہ انتخابات میں 320 کے قریب سیاسی جماعتوں، الائنس اور حامی امیدواروں کی لسٹیں کے درمیان مقابلہ ہوگا کہ امیدواروں کی مجموعی تعداد 7367بنتی ہے ۔
جس طرح لبنان میں مزاحمتی بلاک اور اس کے اتحادیوں کو سیاسی منظرنامے میں کمزور کرنے کی سرتوڑ کوشش کی گئ بالکل اسی طرح عراق میں بھی اس بلاک سے وابستہ سیاسی جماعتوں اور گروہوں کو سیاسی منظر نامے میں کمزور کرنے کی کوشش دیکھائی دیتی ہے ۔
چند نکات کی جانب توجہ ضروری ہے
الف:حشد الشعبی یا عوامی رضاکار ۔
یہ بات واضح ہے کہ عراق میں داعش کیخلاف تیزرفتار اور غیر معمولی انداز سے کیے جانے والے آپریشن کا مرکزی کردار حشد الشعبی یا عوامی رضاکارہیں۔
بظاہر حشد الشعبی کی تشکیل کرتے وقت اس بات کا پورا خیال رکھا گیا تھا کہ یہ صرف ایک عسکری قوت کے طور پر تشکیل نہ پائے بلکہ اس قوت میں یہ صلاحیت ہو جو عراق کے مستقبل کو سیاسی اور سماجی اعتبار سے بھی سنبھالنے کی صلاحیت رکھے ۔
اس سلسلے میں ایک مشہور عرب اخبار لکھتا ہے کہ ’’جو افراد چند روز قبل تک فوجی وردی میں داعش کیخلاف آپریشن کرتے دیکھائی دیتے تھے آج یونیفارم بدلے سیاسی معرکے میں فعال دیکھائی دیتے ہیں ‘‘
اخبار مزید لکھتا ہے کہ ’’جس وقت سن 2014میںآیت اللہ سیستانی نے جس وقت داعش کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا تھا تو ان شخصیات کو عراقی شہروں میں فعال طور پر دیکھا جاسکتا تھا ،یہ لوگ اس وقت سویلین سے فوج میں بدل گئے تھے اور آج وہ میدان سیاست میں سیاسی شناخت کے ساتھ کھڑے ہیں ‘‘
عراق کے حالیہ انتخابات میں سیاسی اور عسکری طور پر فعال ان شخصیات کو’’تجمع رجال العراق‘‘ Gathering of the men of Iraqیا الفتح الائنس میں ملاحضہ کیا جاسکتا ہے ۔
بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 12مئی کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اس سیاسی دھڑے کو واضح اور موثر تعداد میں پارلیمان میں دیکھا جاسکتا ہے ۔
اس کے علاوہ مزاحمتی سیاسی پارٹیوں کو النصر اور صلاح جیسے الائنس میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جس کی قیادت موجودہ وزیر اعظم العبادی کررہے ہیں ۔
ب:گرچہ عراق میں شیعہ مجتہد آیت اللہ سیستانی نے اپنے ایک پیغام میں واضح طور پر کہا ہے کہ وہ کسی بھی خاص پارٹی یا الائنس کی حمایت نہیں کرتے لیکن’’ عراقیوں کو چاہیے کہ وہ مسلکی ،قومی علاقائی بنیادوں اور تقسیموں سے ہٹ کر میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر امیدواروں کا انتخاب کریں ‘‘
آیت اللہ سیستانی جانتے ہیں کہ عراقی سیاسی نظام کی ایک سب سے بڑی آفت اور مشکل ’’ کوٹہ نظام‘‘
ہے جو مسلکی ،قومی لسانی بنیادوں پر عراق کو تقسیم کرنا چاہتا ہے ۔
عراقی وزیر اعظم ابراہیم جعفری کا کہنا تھا کہ عراق میں مسلکی ،قومی اور لسانی بنیادوں پر سیاسی تقسیم اور کوٹہ نظام ایک کینسر سے کم نہیں ۔
آیت اللہ سیستانی بخوبی جانتے ہیں کہ عراق میں سیاسی گروہ مجتہد کی حمایت کے لیبل سے اپنے لئے ہرقسم کے راستے کھولنے کی کوشش کرینگے جیسا کہ ماضی کے تجربے نے بھی ثابت کردیا ہے لہذا وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی حمایت یا عدم حمایت نہیں کرنا چاہتے۔
آیت اللہ سیستانی نے عوام سے زیادہ سے زیادہ انتخابات میں شرکت کرنے کی اپیل کی تاکہ غیر شائستہ اور نااہل افراد پارلیمان میں نہ جاسکیں ۔
عراقی انتخابات پر مزید تجزیہ اور تبصرے کا سلسلہ جاری رہے گا ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button