مقالہ جات

ایران کا ممکنہ جوابی حملہ اسرائیلی خوف ہے یا پھر خواہش ۔۔؟

شام کے ٹی فور ائرپورٹ پر جب سےسات ایرانی آفیسرز اسرائیلی طیارے کے زریعے سے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں تب سے لیکر اب اسرائیل مسلسل ہائے الرٹ کی شکل میں ہے ۔
علاقائی اور عالمی میڈیا نےمسلسل ٹی وی ٹاک شو ز سے لیکر اخبارات میں روزانہ درجن بھر مضامین کے زریعے ممکنہ ایرانی جواب اور اس کی تفصیلات کو موضوع گفتگو بنایا ہوا ہے ۔
دوسری جانب اس حملے کے بعد ایرانی اہم سرکاری عسکری شخصیات نے اس کا دندان شکن جواب دینے کی بھی کھلے لفظوں بات کی ہے ۔
اس تمام تر صورتحال میں اس وقت پہلے سے کشیدہ ماحول کا شکار مشرق وسطی مزید کشیدہ صورتحال کا سامنا کرہا ہے ۔
لیکن چند سوالات اور چند اہم نکات کی جانب توجہ دنیا انتہائی ضروری ہے
سوال یہ ہے ایران کا ممکنہ جوابی حملہ اسرائیلی خوف ہے یا پھر خواہش ۔۔؟
الف:اسرائیل نے اس حملے کے زریعے سے ایران کو یہ پیغام دینا چاہا ہے کہ وہ روز روز اس کی فضا میں پرواز کرنے والے ایرانی ڈرون طیاروں سے تنگ آچکا ہے اور اس سلسلے کو رکنا چاہیے
ب:غوطہ کے کامیاب آپریشن میں اسرائیلی منصوبوں کی ناکامی کے بعد کی صورتحال کے پیش نظر وہ مزاحمتی بلاک کے دوسرے حصوں یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ ابھی طاقت کے توازن میں برابری رکھتا ہے ۔
ج:اسرائیل میں نیتن یاہو اور فیملی کیخلاف کرپشن کی تحقیقات اور شور اس حملے کے بعدپیدا ہونے والی ایمرجنسی کیفیت کے سبب قدرے تھم گیا ۔
گذشتہ چند سالوں میں اگر ایرانی نرم اور ملائم پالیسی کو دیکھاجائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ایران کسی بھی قسم کا کوئی جذباتی ردعمل بالکل بھی نہیں دیکھائے گا ۔
ایران پہلے سے ہی کئی محاذوں پر اسرائیل کے ساتھ برسر پیکار ہے کہ جس میں فلسطین میں غزہ کا محاذ اور شام و لبنان کے محاذ ہے ۔
د:خطے میں امریکہ سمیت مزاحمتی بلاک مخالف ممالک کا فوجی بجٹ ایک کھرب ڈالر کو چھوتا ہے کہ جس میں سے ایک بڑا حصہ مزاحمتی بلاک خاص کر عسکری اورپروپگنڈہ میدانوں میں ایران کیخلاف استعمال ہورہا ہے ۔
لیکن دوسری جانب بعض تجزیہ کار شام میں اپنے زرائع سے کچھ معلومات کو پیش کرتے ہوئے ایک تجزیہ پیش کررہے ہیں کہ جس کے اہم نکات کچھ یوں ہیں
الف:شام میں روس بالکل بھی نہیں چاہتا ہے کہ ایران اس حملے کا جواب دے اور اس سلسلے میں کسی قسم کے تعاون کے لئے تیار دیکھائی نہیں دیتا ،اس نے شام پر بھی دباو ڈالا ہے کہ وہ ایران کو اس سلسلے میں ہر قسم کے اقدام سے روکے ۔
ب:لبنان میں لبنانی بھی چاہتے ہیں کہ انتخابات سے پہلے کسی بھی قسم کی ایسی صورتحال پیدا نہ ہوجس سے انتخابات خطرے میں پڑ جائیں ۔
ج:ایران ٹی فور حملے کو شام میں اپنی ینٹیلیجنس کارکردگی میں ایک بڑی رخنہ اندازی سمجھتے ہیں اور اس موضوع کو لیکر چھان بین میں لگے ہوئے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ٹی فور ائرپورٹ پر حملے کے بارے وہ مطلع نہ ہوئے یا معلومات کیسے لیک ہوئیں ۔
لیکن ہمیں اس بات کاخیال رکھنا ہوگا کہ شام ایران کے لئے اسٹرٹجک گہرائی Strategic depth کی حثیت رکھتا ہے جہاں وہ بالادستی کی پوزیشن رکھتا ہے لہذا
الف:ایران جانتا ہے کہ کوئی بھی ایسا قدام جس سے شام میں جاری عمل اور شدت پسندی کیخلاف آپریشن کو نقصان پہنچے اس سے بچنا ضروری ہے تاکہ ایک طویل عرصے کی مشکلات سے بچا جاسکے ۔
ب:ایران چاہے گا کہ خطے میں وہ مزاحمتی بلاک کی مرتب کردہ پالیسی کے مطابق ہی آگے چلتا رہے نہ کہ اسرائیلی منصوبوں کے مطابق چلے لہذا اسے اس وقت کوئی بھی قدم اٹھاتے وقت اس بات کو مد نظر رکھنا ہوگا ۔
ج:اسرائیل اس حملے کے بعد مکمل الرٹ کی حالت میں ہے اور ایک قسم کی فوجی ایمرجنسی سے گذررہا ہے لہذا ایران اگر چاہے بھی تو اس قسم کا کوئی اقدام اس وقت نہ کرے گا کہ جس میں کسی قسم کی سپرائزنگ کا عنصر شامل نہ ہو ۔
عسکری ماہرین کے مطابق بھی موجودہ صورتحال اسے کسی اقدام کے لئے مناسب نہیں کیونکہ اسرائیلی پہلے سے الرٹ ہیں اور اس کی خواہش ہے کہ ایران ایسا کوئی اقدام کرے ۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایرانی جواب اچانک اور کاری ضرب کی شکل میں ہوگا کہ جس کے بعد اسرائیل اس بات کو لیکر پشیمان ہو کہ اسے ٹی فور پر حملہ نہیں کرنا چاہیے تھا ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button