مقالہ جات

حضرت امام محمد باقر (ع) نے مسلمانوں کی علمی ، فکری اور ثقافتی بنیادوں کومضبوط کیا

حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام بتاریخ یکم رجب المرجب ۵۷ھ یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیداہوئے (1) ۔ علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں شب ولادت ایک نورساطع ہوا،ولادت کے بعدقبلہ رو ہوکرآسمان کی طرفرخ فرمایا،اور حضرت آدم کی مانند تین بارچھینکنے کے بعدحمد خدا بجالائے،ایک شبانہ روزدست مبارک سے نورساطع رہا، آپ مختون ،ناف بریدہ، تمام آلائشوں سے پاک اورصاف متولدہوئے۔ (2)

آپ کااسم گرامی ” لوح محفوظ” کے مطابق اورسرورکائنات کی تعیین کے موافق ”محمد“تھا آپ کی کنیت ”ابوجعفر“تھی، اورآپ کے القاب کثیرتھے، جن میں باقر،شاکر،ہادی زیادہ مشہورہیں (3)

حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کو باقر کےلقب سے اس لیے ملقب کیاگیاتھا کہ آپ نے علوم ومعارف کونمایاں فرمایااورحقائق احکام وحکمت ولطائف کے وہ سربستہ خزانے ظاہرفرمادئیے جولوگوں پرظاہروہویدانہ تھے(4)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو مسلمانوں کی فکری اور ثقافتی بنیادوں کومضبوط اور مستحکم کرنے کا موقع ملا ۔ آپ (ع) اور آپ کے فرزند حضرت امام جعفر صادق (ع) کے دور میں بہت سے علوم کو ترقی ملی ۔حضرت امام محمد باقر (ع) اعلیٰ اخلاق کا نمونہ تھے ۔آپ ہمیشہ نیکی، سخاوت، غربا کی امداد اور بیمار افراد کی عیادت کے سلسلے میں تاکید فرماتے تھے ۔ آپ (ع) کے عظیم فرامین اور اخلاقی پند و نصیحت آپ کی عملی زندگي میں جلوہ گر تھے ۔ آپ جو بات دوسروں سے کہتے سب سے پہلے خود اس پر عمل کرتے تھے.

امام محمدباقرعلیہ السلام فرماتے ہیں انسان کوجتنی عقل دی گئی ہے اسی کے مطابق اس سے قیامت میں حساب وکتاب ہوگا۔

ایک نفع پہنچانے والاعالم سترہزارعابدوں سے بہترہے ،عالم کی صحبت میں تھوڑی دیربیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بہترہے خداان علماء پررحم وکرم فرمائے جواحیاء علم کرتے اورتقوی کوفروغ دیتے ہیں ۔

علم کی زکاۃ یہ ہے کہ مخلوق خداکوتعلیم دی جائے ۔ قرآن مجید کے بارے میں تم جتناجانتے ہواتناہی بیان کرو۔

بندوں پرخداکاحق یہ ہے کہ جوجانتاہواسے بتائے اورجونہ جانتاہواس کے جواب میں خاموش ہوجائے ۔ علم حاصل کرنے کے بعداسے پھیلاؤ،اس لیے کہ علم کوبند رکھنے سے شیطان کاغلبہ ہوتاہے ۔

معلم اورمتعلم کاثواب برابرہے ۔ جس کی تعلیم کی غرض یہ ہوکہ وہ … علماء سے بحث کرے ،جہلاپررعب جمائے اورلوگوں کواپنی طرف مائل کرے وہ جہنمی ہے ،دینی راستہ دکھلانے والااورراستہ پانے والادونوں ثواب کی میزان کے لحاظ سے برابرہیں۔ جودینی راستہ دکھلانے والااورراستہ پانے والادونوں ثواب کی میزان کے لحاظ سے برابرہیں ۔

جودینیات میں غلط کہتاہواسے صحیح بنادو، ذات الہی وہ ہے، جوعقل انسانی میں نہ سماسکے اورحدودمیں محدودنہ ہوسکے ۔

اس کی ذات فہم وادراک سے بالاترہے خداہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا، خداکی ذات کے بارے میں بحث نہ کرو،ورنہ حیران ہوجاؤگے ۔ اجل کی دوقسمین ہیں ایک اجل محتوم،دوسرے اجل موقوف، دوسری سے خداکے سواکوئی واقف نہیں، زمین حجت خداکے سواکوئی واقف نہیں ،زمین حجت خداکے بغیرباقی نہیں رہ سکتی۔

امت بے امام کی مثال بھیڑکے اس گلے کی ہے،جس کاکوئی بھی نگران نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)(اعلام الوری ص ۱۵۵،جلاء العیون ص ۲۶۰،جنات الخلود ص ۲۵) ۔

(2)(جلاء العیون ص ۲۵۹)

(3)(مطالب السؤل ص ۳۶۹،شواہدالنبوت ص ۱۸۱) ۔

(4)(صواعق محرقہ،ص ۱۲۰،مطالب السؤل ص ۶۶۹،شواہدالنبوت صذ ۱۸۱) ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button