مقالہ جات

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اور حق کی تلاش

اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے کہ روح ملت ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ہی ایسی شخصیت تھے، جن کا کردار و عمل ایسا تھا، جس کے باعث انہیں پاکستان کے انقلابی فکر کے نوجوانوں کی عقیدت و محبت میسر آئی اور انہوں نے ناصرف اپنی زندگی میں نوجوانوں کو متاثر کیا بلکہ آج جب ان کی تیئیسویں برسی منائی جا رہی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان سے محبت کا اظہار کرنے والی وہ نسل ہے، جنہوں نے کبھی انہیں دیکھا تک نہیں، ان کی باتیں نہیں سنیں، ان سے ربط نہیں تھا اور نہ ان میں سے کسی کیساتھ شہید نے کوئی احسان کیا، یا کسی کی مشکل و پریشانی میں اس کیساتھ کاندھا ملا کر کھڑے نظر آئے، لیکن اس کے باوجود ہم لوگوں کو دیوانہ وار عقیدت و محبت کا اظہار کرتے دیکھتے ہیں۔ شائد اس کی وجہ کوئی یہ کہے کہ ہم نے ان کے بعد کسی کو اتنے بڑے مقام و مرتبہ پر نہیں دیکھا، کردار و عمل کی بلندی کے اس معیار کو جہاں ڈاکٹر شہید چھوڑ گئے ہیں، کوئی اور پہنچتا نہیں دیکھا گیا، لہذا آج کی نسل کیلئے بھی وہی متاثر کن شخصیت ہیں۔ اس حوالے سے بھی ہمارے بزرگان و ذمہ داران پر بات آئی ہے کہ وہ اتنے عرصہ میں کوئی ایسی شخصیت پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں اور جو خداوند کریم و مہربان نے نعمت کی شکل میں عطا کی تھی، اس کی حفاظت نہیں کرسکے، اب ہاتھ پائوں مارنے اور لکیر پیٹنے کے سوا کیا بچتا ہے، سو یہی کچھ کیا جا رہا ہے۔

میں نے شہید کی زبانی اسلام آباد میں ایک انٹرنیشنل کشمیر و فلسطین کانفرنس میں خطاب سنا تھا، جو بہت ہی اثر انگیز اور متاثر کن ہے، شہید ڈاکٹر میں جہاں دیگر بہت ساری بلکہ ان گنت خوبیاں تھیں، وہاں دوستان اس بات کی بھی گواہی دینگے کہ انہیں گفتگو کا ملکہ حاصل تھا، وہ اگرچہ انگلش میڈیم کے طالبعم تھے، مگر اردو میں تقاریر کرتے ہوئے ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے الفاظ اس قدر اثر ڈالتے کہ سننے والا اس انتہائی مختصر گفتگو کو پلے باندھ کر عمل کے میدان میں وارد ہوتا دیکھا جاتا۔ آج لوگ تین تین گھنٹے کا خطاب کرتے ہیں، پھر بھی انہیں شکوہ ہوتا ہے کہ اصل بات پہنچانے کیلئے مزید وقت کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر شہید اس کے برعکس تھے۔ جس کشمیر و فلسطین کانفرنس کا ذکر کیا، اس میں شہید کے خطاب کا مکمل متن پیش کر رہا ہوں، امید ہے کہ نوجوانوں کیلئے شہید کے خلوص سے بھرپور یہ گفتگو رہنمائی کا ذریعہ ثابت ہوگی اور وہ اس اسلام ناب محمدی کے اصل پیرو کی شخصیت سے مزید محبت کرنے لگیں گے۔ حق کی تلاش کے اس سفر میں انہیں اندازہ ہوگا کہ انہیں کن مراحل سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔ پیش ہے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا 1992ء میں کشمیر و فلسطین انٹرنیشنل کانفرنس سے تاریخی خطاب۔۔۔!

بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزیز دوستو! دو مختصر سی باتیں آپ تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں، انتہائی خوشی ہے کہ جوانوں کی ایک ایسی محفل ہے، جس میں کوئی بھی پیغام ہم لے بھی سکتے ہیں اور دے بھی سکتے ہیں۔ پہلا عنوان میرا یہ ہے، "حقیقت کی تلاش In Search Of Truth”انسان کب یہ جان سکتا ہے کہ وہ سچائی کو پا چکا ہے۔ انسان کب اپنے سفر کو روک دے، کب اپنی سوچ کو بند کر دے کہ میں حقیقت کو پاچکا ہوں۔ کیا وہ لوگ جنہوں نے حضرت آدم کا پیغام تو قبول کیا، لیکن حضرت نوح کا ساتھ نہ دے سکے اور کیا وہ لوگ جنہوں نے حضرت نوح کا پیغام تو قبول کیا، لیکن حضرت ابراہیم کا وہ ساتھ نہ دے سکے۔ اس کو فوراً آگے بڑھاتے ہیں، کچھ لوگ ہیں جو کچھ پیغام تو سنتے ہیں، اس کو لیتے ہیں، وصول کرتے ہیں، لیکن اس کی تحقیق کے لئے آمادہ نہیں ہوتے، کہیں نہ کہیں آکر رک جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید یہی حقیقت ہے، جس کے اوپر آچکے ہیں، اسی کے متلاشی تھے۔ لیکن زمانے نے واضح طور پر بتایا کہ انسان کو ہمیشہ ہمیشہ حقیقت کی جستجو میں رہنا چاہیےIn Search Of Truth۔

اے عزیز دوستو! میں نوجوانوں کے ایک ایسے قافلے کو دیکھ رہا ہوں کہ جس نے اس سرزمین اور اس خطہء ارضی پر جب انقلاب اسلامی کی آواز اور بعد کی Waves محسوس کیں، تو یہ وہ سرزمین ہے کہ جس پرنوجوانوں کا ایک لشکر موجو د ہے کہ جنہوں نے بغیر کسی جھجک کے، مجھے یہ لفظ کہنے دیجئیے بغیر کسی منافقت کے انقلاب کے پیغام کو اسی طریقے سے جذب کیا کہ آج وہی جذبہ کام آرہا ہے کہ ان Waves کو Obserbe کرنے کے بعد ان Waves کو منتقل کرنا چاہتے ہیں، کشمیر بھی اور اس سے پار بھی۔ ہم صرف کشمیر کی آزادی نہیں چاہتے بلکہ ان شاء اللہ چین کے اندر جو مسلمان ریاستیں اور مسلم آبادیاں اس وقت موجود ہیں اور خود ہندوستان کے اندر موجود ہیں، ان کی بھی آزادی چاہتے ہیں۔ یہ ایک پاکستان کافی نہیں بلکہ کئی پاکستان بننا ضروری ہیں۔
اے میرے عزیز دوستو! دوسری بات اور دوسرا پیغام
جستجو کی دنیا یہ کہتی ہے کہ آپ اس Realty کو مان لیں۔ یہ ایک حقیقت ہے (معزز علماء و معززین جو موجود ہیں۔) ان کے توسط سے اور اپنے لئے جو ایک درد رکھتا ہوں اور دوستوں کے لئے ایک پیغام۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ ان REALITIES کو قبول کریں، یعنی جو کچھ ہوچکا ہے، اس کو قبول کریں۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس جس زمانے میں جس کسی نے جس بھی طریقے سے جو بھی غلطیاں کی ہیں، جو بھی اس کے ذہن نے سوچا، اس کے مطابق جو کچھ کر دیا۔ آیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنے والی نسلیں تمام کی تمام ان غلطیوں کو قبول کرتی رہیں، اگر یہی REALITIES ہمارے لئے ہوتیں تو Russia کبھی تقسیم نہ ہوتا۔ خود امریکہ کو یہ حق نہ پہنچتا کہ اپنے تسلط کے ذریعے سے یا کسی اور کے ذریعے سے وہاں کی مقامی آبادیوں پر اپنا قبضہ جما ئے رکھے۔

عزیزان! کوئی بھی ایسی Realities نہیں ہیں، کوئی ایسی حقیقتیں نہیں ہیں کہ جن کو ہم اپنے اوپر مسلط کر لیں، ان کے اندر تبدیلی حق کی تلاش کے بعد، معززین (موجود) ہیں۔ حق کی تلاش کے بعد ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا اور اس کو اسلام کہنا یا اس کو صبر کہنا، میں سمجھتا ہوں کہ سراسر کمزور افراد کی پہچان ہے، Realities جو ہوتی ہیں، ان کو انسان بناتا ہے اور آپ کے سامنے پوری دنیا نے دیکھا کہ ایک مملکت جو اپنے آپ کو ایک عجیب سی Realty بنا کر سپر پاور بنا کر بیٹھا ہوا تھا، وہ کس انداز میں پاش پاش ہوا۔ بس اس نکتے کو ذہن میں رکھیے گا۔ جو چیز باہر سے نظر آتی ہے، وہ ضروری نہیں ہے کہ Realty ہو اور اس فریب کو توڑنا اشد ضروری ہے اور یہی جدوجہد کا پیغام ہے۔ ایک پیغام اس کانفرنس میں دیگر تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو دیکھتے ہوئے، ایک تنظیم کی تھوڑی بہت ترجمانی کرتے ہوئے، آپ حضرات کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ دل کی گہرائی کے ساتھ! اے بزرگواران! اے اسلام کے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد! آیئے دل کی گہرائیوں کے ساتھ اس نکتے کو تسلیم کریں۔ اسلام کے جتنے بھی مکاتب فکر ہیں، اس کے لئے جو پیش قدمی ہماری طرف سے ممکن ہوسکی، ہم نے گذشتہ بیس سالوں میں اس سرزمین پاکستان پر تقریباً پاکستان کے ہر تعلیمی ادارے میں اپنے عمل سے ثابت کیا، میں متوجہ کر رہا ہوں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی اس ایک کارکردگی کی طرف کہ جو گذشتہ اوقات میں خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمیں توفیق حاصل ہوئی کہ ہم نے کراچی سے لے کر خیبر تک ISO کے نام پر کہ جس کے نام میں ایک تعصب ضرور محسوس ہوتا ہوگا، لیکن ہمارا عمل شاہد ہے کہ ہم نے ہر مرحلے پر اسلام کی خاطر، اتحاد بین المسلمین کی خاطر، قدم آگے ہی بڑھائے ہیں، ہماری یہ خواہش ہے کہ اس قسم کے قدم دوسری طرف سے بھی بڑھنے چاہیں، اس سے نہ صرف نفرت کم ہوگی بلکہ مسائل کے حل کے لئے اور اہداف کے حصول کے لئے پیش قدمی میں اضافہ ہوگا۔

عزیز دوستو! آخری بات یاد رکھیے، خود امام خمینی رضوان اللہ تعالٰی علیہ نے اس پر تاکید کی تھی کہ صف اول کا جہاد ہر جہاد سے افضل ہے، یہ مت سوچیئے! کہ ہماری چند ایک کانفرنسیں ہمارے مطالبات و اشتہارات مسائل کا حل ہیں۔ مسائل کے حل کے لئے پیش رفت ہوسکتی ہے۔ خراج تحسین کے مستحق اور لائق وہ لوگ ہیں، جو صف اول کا جہاد کر رہے ہیں۔ آپ کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے شاید یہ پیغام آپ تک پہلے بھی پہنچا ہو اور ایک پوسٹر آپ نے شاید انقلاب کے زمانے سے پہلے دیکھا ہو کہ ایک ننھا بچہ جس کے دونوں بازو کٹے ہوئے ہیں (زخموں سے) خون رس رہا ہے۔ اشعار ہیں، جو وہ کہہ رہا ہے اور اس کا جواب بھی خود ہی دے رہا ہے۔ کہہ رہا ہے کہ:
اے دشمن! تم نے میرے دونوں بازو کاٹ دیئے ہیں۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ میں انقلاب کے لئے کام نہیں کر سکوں گا؟
نہیں نہیں! میرے پائوں سلامت ہیں، میں چل کر خدمت کروں گا۔ پھر کہتا ہے:
اے دشمن! تو چاہے گا کہ میر ے دونوں پائوں بھی کاٹ دیئے جائیں اور پھر سوچے گا کہ شاید میں انقلاب کے لئے کام نہ کر سکوں۔
نہیں نہیں! میرے منہ میں جب تک زبان ہے، میں اپنی زبان کے ذریعے انقلاب کا پیغام دوںگا۔
پھر کہتا ہے:
اے دشمن! عین ممکن ہے تو چاہے گا زبان بھی کاٹ دے تو شاید انقلاب کا پیغام رک جائے۔
نہیں نہیں! میں اپنی آنکھوں کے اشاروں سے یہ پیغام دیتا رہوں گا۔

پھر کہتا ہے:
اے دشمن! عین ممکن ہے تجھے یہ بھی گوارا نہ ہو اور پھر تو میری آنکھیں نکال دے گا اور سوچے گا کہ میرا پیغام رک جائے۔
نہیں نہیں! میرا ہر سانس جو اندر آئے گا اور جو باہر جائے گا، وہ میرا پیغام دے گا اور
اے دشمن یاد رکھو، مجھے یقین ہے کہ تجھے یہ سانس بھی گوارا نہیں ہوگا اور تو چاہے گا کہ میرا خون بہا دے، میرا خون جہاں بہے گا، اس زمین سے جو فصل اگے گی، وہ جو لوگ کھائیں گے، ان تک میرا یہ پیغام پہنچے گا۔
یاد رکھئے اے عزیز دوستو! یہ اپنا جذبہ ہے اور ہم تک یہ چیز منتقل ہوئی ہے، اگر آپ اپنے جذبات کو دل کی گہرائیوں میں اتار سکیں تو یہ پیغام آپ تک آج بھی پہنچ رہا ہے۔ میں ایک تنظیم کے توسط سے اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آپ کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں، اپنے آپ کو اور آپ تمام لوگوں کو کہ اے عزیز دوستو! آپ نوجوانوں تک جو پیغام پہنچا ہے اسلام کا، اسلام حقیقی کا، حریت کا، آزادی کا، استقلال کا، یہ پیغام آپ تک نہ اشتہارات کے ذریعے سے پہنچا ہے، نہ گفتگو کے ذریعے سے، لیکن قسم کھا کر کہتا ہوں، آپ تک یہ پیغام ان لاکھوں نوجوانوں کے خون اس زمین پر رسنے کے بعد اور آپ کا اور ہمارا اس فضا میں سانس لینا۔ اس کے ذریعے یہ پیغام ہمارے اندر منتقل ہوا ہے۔ لہٰذا میں یہ کہتا ہوں کہ غازی یا شہادت ہماری تقدیر ہونی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button