مقالہ جات

مشرقی وسطی کی تقسیم اور پانچ ملکی خفیہ معاہدہ

ان دنوں عالمی اور مشرق وسطی کے میڈیا میںترکی کے اس سفیر کا انٹریوگردش ہے جو فرانس اور لیبیا میں اپنی خدمات انجام دے چکا ہے
گرچہ روسی نیوز Seputnikکو دیے گئے ایک انٹریومیں کسی قسم کے کوئی ایسے انکشافات نہیں کہ جس کے بارے میں پہلے کبھی میڈیا میں نہ آیا ہو لیکن اس انٹریوکی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسے ملک کے سفارتکارکی جانب سے سامنے آئی ہے کہ جو خود اس خفیہ پلان کا حصہ رہا ہے۔
ہر گذرتا دن ہے کہ شام کا بحران مزید پیچیدہ ہوتا جارہا ہے اور اس بحران کے سفارتی حل کے امکانات ختم ہوتے جارہے ہیں ۔
شائد یہی وجہ ہے کہ ترکی کے سفیر کے انکشافات کے مطابق پانچ ممالک ایک نئے پلان پر متفق ہوچکے ہیں ۔
ترک سفیر کے مطابق واشنگٹن میں ہونے والے ایک خفیہ اجلاس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، اردن اور سعودی عرب کے نمایندوں نے اس نئے پلان کے مطابق شام کی تقسیم کا فیصلہ کرلیا ہے
عرب میڈیا(الوطن اخبار) کے مطابق سب سے پہلے اس خفیہ اجلاس کے بارے میں ایک برطانوی سفارتکار نے کچھ لیکس کیں تھیں کہ جسےفرانسیسی صحافیوں کے ایک گروپ نے Syrie Leaksکے نام سے نشر کیا تھا
روسنی نیوز ایجنسی Seputnikکو دیے گئے ترک سفیر Avlvch Avzavlkکے انٹریو ،فرانسوی صحافیوں کے گروپ کے زریعے برطانوی سفارتکار کےSyrie Leaksاور عرب زرائع ابلاغ میں نشر ہونے والے انکشافات کو یکجا کر کرکے دیکھا جائے تو اس کی تفصیلات کچھ یوں سامنے آتی ہیں ۔
الف:اس سال 11جنوری کو واشنگٹن میں پانچ ملکوں کے اہم نمایندوں کا ایک خفیہ اجلاس ہوتا ہے جس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، اردن اور سعودی عرب تھے۔
ب:اس خفیہ اجلاس کا موضوع گرچہ شام تھا لیکن اس کا اصل مقصد ایک بار پھرنئےمشرق وسطی کے خطوط کھینچنے کی کوشش ہے ۔
ج:اس کا آغاز وہ شام سے ہی کرنا چاہتے ہیں کہ جہاں بحران ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا اور ان میں سے بہت سے ممالک اپنابہت کچھ شام میں کھوچکے ہیں ۔
لیک شدہ معلومات کے مطابق اس خفیہ اجلاس میں مصر، جرمنی اور ترکی کو شامل کرنے کےامکانات پر بھی غور ہوا لیکن یہ بات واضح تھی کہ مصر کو دعوت نہیں دی گئی تھی جبکہ جرمنی نے کسی قسم کا جواب نہیں دیا تھا اور ترکی کو شامل کرنے کے بارے میں ان کے سامنے کردوں کا معاملہ آڑے آرہا تھا ۔
اس جلاس میں امریکی نمایندے اس بات پر زور دے رہے تھے کہ شام کے شمالی حصے میں بحیرہ روم Mediterranean seaتک ان کی رسائی انتہائی ضروری ہے ۔
اہداف تک رسائی کے لئے ترتیب دیے گئے مرحلوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ایک قسم کا Assassination Corridorہے ۔
الف:شام کے شمالی اور مشرقی حصوں میں الگ حکومت کا قیام جو یقینا کردوں کے زریعے ہی ممکن ہے
واضح رہے کہ ڈیوڈ سٹیٹر فیلڈ امریکی نائب سیکریٹری خارجہ اس سے پہلے امریکہ سے وابستہ شام کی اپوزیشن سے ایک گفتگو میں شام کی تقسیم کے بارے میں کہہ چکے ہیں ۔
واضح رہے کہ اس نشست میں سٹیٹرفیلڈ نے شام میں امریکن افواج کی موجودگی کوخطے میں ایران کی جغرافیائی و سیاسی مضبوط پوزیشن کوروکنا بتایاتھا۔
امریکی سیکرٹری خارجہ ٹیلرسن نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ ایران اور لبنان کو شام سے نکلنا چاہیے انہوں نے لبنانی جماعت حزب اللہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ شام سے نکلے اور صرف اپنی سیاسی شناخت کو لیکر چلے تو ان کے ساتھ چلا جاسکتا ہے کیونکہ ان کے بقول وہ لبنان میں موجود ایک قوت ہے ۔
ٹیلرسن کے اس بیان کاجواب ایک عرب اخبار نے کچھ یوں دیا تھا کہ’’ وہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر لبنان کی یہ جماعت اپنی ایکٹی ویٹیز امریکی مرضی اور پسند و ناپسند کے مطابق انجام دے تو پھر وہ دہشتگرد نہیں کہلائے گی۔
شام میں شامی قانونی حکومت کی دعوت پر موجود ایران روس اور دوسروں کو نکالنے سے پہلے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ،شام ،افغانستان ،خلیج،افریقہ ،یمن ،مشرقی ایشیا،جنوبی امریکہ اور یورپ سےاپنے فوجیوں کو نکالنا چاہیے‘‘ ۔
ب:اقوام متحدہ کے زریعے اس حکومت کو قانونی شکل دیکر بین الاقوامی طور پر منوانا ۔
ج:ترکی پر دباو کہ وہ اس بدلتی صورتحال کو قبول کرلے ۔
خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ شام میں کردوں کیخلاف داخل ہونے والی فورسز اور کردوں کی لڑائی میں مزید شدت آسکتی ہے ۔
ترکی اب تک روس کے ساتھ شام کے ایشو میں ہم آہنگی کرتا آرہا ہے لیکن شائد نئی صورتحال ترکی کو سخت مخمصے میں ڈال دے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے ۔
واضح رہے کہ مشرق وسطی کے مسئلے کو لیکر ترکی شروع سے ہی شدید کنفیوژن کا شکار چلا آرہا ہے ۔
اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ آستانہ اور سوچی میںہونے والے مذاکرات کے بجائے جینوا مذاکرات کو ہی آگے بڑھایا جائے ۔
ان کاکہنا تھا کہ روسی ترکی اور ایرانی قیادت میں ہونے والے آستانہ اور سوچی مذاکرات کی کامیابی اس منصوبے کے لئے ایک بڑی روکاوٹ بن سکتی ہے ۔
اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے کہ مشرق وسطی میں جھڑپوں کا جغرافیہ اور دائرہ بڑھنے جارہا ہے جیساکہ ترک سفارتکار کا بھی کہنا ہے ۔
امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نئے مشرق وسطی کی کوششوں میں ایک اندازے کے مطابق کھربوں ڈالر خرچ کرچکے ہیں کہ جس میں سے سات کھرب ڈالر کے اخراجات کے بارے میں ٹرمپ نے اپنی
سالانہ تقریر میں انکشاف کیا تھا ۔
ترک سفارتکار کی یہ بات بھی بہت حدتک صحیح ہے کہ آنے والے وقتوں میں بحران شام سے نکل کر پورے مشرق وسطی کو اس طرح لپیٹ میں لے سکتا ہے کہ جسے اس وقت شام اور یمن میں دیکھائی دیتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button