مقالہ جات

عدن شہر میں اتحادیوں کی لڑائی مفادات کی جنگ

شیعت نیوز مانیٹرنگ ڈیسک ؛ اس وقت یمن برطرف شدہ صدرکے عبوری دارالحکومت عدن میں اتحادی گروہوں کے درمیان ہونے والے خونین معرکے میں سو سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں ۔
جھڑپیں سعودی اتحاد کے حمایت یافتہ صدر منصور ہادی اور ان کے اتحادی گروپ جنوبی انتقالی کونسل
کے درمیان ہورہی ہیں۔
یمن کی نوبل انعام یافتہ خاتون توکل ایمان نے عدن کی صورتحال بیان کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کو اس کا قصور وار ٹہرایا اور انہوں نے کہا کہ’’ متحدہ عرب امارات ایک سامراج کی طرح ہمارے ساتھ برتاو کررہا ہے اسے یمن سے بے دخل کرنا ضروری ہوچکا ہے ‘‘۔
عرب زرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ جو کچھ اس وقت یمن اور خاص کر عدن میں ہو رہا ہے اس میں ایک نیا عنصر نمایاں ہوتاجارہا ہے اور وہ اس جنگ میں شریک اتحادی ممالک کی قیادت کرنے والے دو اہم ملک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی آپسی چپقلش ہے جو اب پراکسی وار کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے ۔
اربوں ڈالر کا خرچہ کرنے کے باوجود نہ ختم ہونے والی یمن کی جنگ میں اب طرفین زیادہ سے زیادہ مفادات کے حصول کی دوڑ میں دیکھائی دیتے ہیں ۔
واضح رہے کہ تین سال پہلے کہ جس وقت سعودی عرب کی قیادت میں بارہ ممالک کی افواج نے یمن میں قانونی حکومت کی بحالی کے نام سے فوج کشی کی تھی تو اس وقت بھی خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس فوج کشی کے پچھے مفادات کی جنگ پوشیدہ ہے ۔
تازہ ترین صورتحال کےمطابق عدن شہر میں اس وقت جہاں متحدہ عرب امارات جنوبی انتقالی کونسل نامی گروہ کی سرپرستی کررہا ہے تو وہیں پر سعودی دارالحکومت میں مقیم صدر منصورہادی کو سعودی عرب کی سرپرستی حاصل ہے جبکہ بظاہر یہ دونوں گروہ ان جھڑپوں سے پہلے تک ایک ہی پیج پر دیکھائی دیتے تھے۔
عدن شہر سے آنے والی خبروں کے مطابق اماراتی حمایت یافتہ جنگجووں(سیکورٹی بیلٹ) نے عدن پورٹ پر واقع عارضی حکومتی سیکرٹریٹ پر قبضہ کرلیا ہے کہ جہاں سے وزیر اعظم احمد بن دغر آپریٹ کیا کرتے تھے ۔
عدن شہر اور اس کے پورٹ پر قائم کیا گیا صدر منصوری ہادی کےاس سیکریٹریٹ کو بین الاقوامی طور پر یمن کے دارالحکومت کی پوزیشن حاصل ہے ۔
ادھر عدن کے وزیراعظم احمد بن دعر نے سعودی اتحاد سے اپیل کی ہے کہ وہ فورا اس سلسلے میں اقدام کرے ۔
دلچسب بات یہ ہے کہ یمن کی اس جنگ میں شریک اتحاد میںسعودیہ اور امارات ہی وہ دو ممالک جو قائدانہ کردار رکھتے ہیں ۔
متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں یمن جنگ کو لیکر پیداہونے والے اختلافات اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے
اس پہلے مختلف علاقوں اور گروہوں پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول سمیت یمنی اخوان المسلمون کے ساتھ اتحاد بنانے یا نہ بنانے کو لیکر اختلافات واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔
ان جھڑپوں سے چند روز پہلے اماراتی حمایت یافتہ گروہ جنوبی انتقالی کونسل کے سربراہ جرنیل عیدوروس الزبیدی نے صدر منصور ہادی کو ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ احمد بن دعر کی ناہل حکومت کو برطرف کرکے عدن میں ایمرجنسی کا اعلان کردے ۔
جنوبی انتقالی کونسل کون ہے اور ان کے مطالبات کیا ہیں ؟
جنوبی انتقالی کونسل نامی اس گروہ کی تشکیل متعدد دوسرے چھوٹے چھوٹے گروہوں کو شامل کرکے دی گئی ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی سن 2011میںتشکیل ہوئی ہے اور اس کی تشکیل میں بنیادی کردار متحدہ عرب امارات کا ہے جو چاہتا تھا کہ یمن میں صرف اس کے کنٹرول میں ایسے مسلح گروہ موجود ہوں جو اس کے مفادات کی پاسداری کرے ۔
واضح رہے کہ جنوبی یمن کے متعدد علاقوں میں القاعدہ کے اثر ورسوخ کو ختم کرنے میں جنوبی انتقالی کونسل کو متحدہ عرب امارات کا تعاون بھی حاصل رہا ہے ۔
جنوبی انتقالی کونسل جنوبی اور شمالی یمن کی پرانی تقسیم کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتا ہے اور اس گروہ میں یمن کے جنوبی علاقوں سے تعلق رکھنے والی سابقہ اہم سیاسی و سرکاری شخصیات بھی موجود ہیں ۔
عدن میں حالیہ جھڑپوں سے پہلے جنوبی انتقالی کونسل نامی اس گروہ کی مسلسل شکایات رہی ہیں کہ صدر منصورہادی کی حکومت ایک ناہل حکومت ہے جو اپنے کنٹرول کے علاقوں میں سرویسز مہیا کرنے میں ناکام رہی ہے ۔
مسلح تصادم سے پہلے جنوبی انتقالی کونسل اور اس کے حمایتی عدن میں منصوہادی کی حکومت کیخلاف احتجاج کررہے تھے جو بعد میں مسلح جھڑپوں میں بدل گئے ۔
سعودی عرب کے حمایت یافتہ گروہ جنوبی انتقالی کونسل کو ایک علحیدگی پسند تحریک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی سرگرمیوں کو غیر قانونی قراردیتے ہیں ۔
ادھر عدن کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے سعودی سابق جرنیل اور موجودہ اسٹراٹیجکل مطالعاتی مرکز کے سربراہ انور عشقی کاکہنا ہے عدن میں جنوبی انتقالی کونسل جو کچھ کررہی ہے اس کا تعلق یمنی بحران کے حل کی تلاش کے لئے مسقط میں ہونے والے مذاکرات کی نشست سے ہے ۔
دوسرے الفاظ میں سعودی سابق جرنیل متحدہ عرب امارات پر الزام لگارہا ہے کہ وہ ان مذاکرات سے پہلے گرونڈ میں اپنی پوزیشن مضبوط کررہا ہے تاکہ مذاکراتی میز پر اس کا پلڑہ بھاری رہے یا وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ وہ مسقط میں ہونے والے مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button