پاکستان

طالبان اور داعش پاکستان کے لئے اہم خطرہ ہیں، انسٹی ٹیوٹ آف پیش اسٹڈیز

شیعیت نیوز: پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز نے سالانہ سکیورٹی رپورٹ 2017 جاری کر دی ۔ تحریک طالبان پاکستان اور قوم پرست عسکریت پسند اب بھی ایک مہلک خطرہ ہیں، سب سے اہم خطرہ داعش ہے ،تنظیم اورحامیوں کے 6 مہلک حملوں میں 153 ہلاکتیں،مستونگ میں ڈپٹی چیئرمین سینٹ عبدالغفور حیدری کے قافلے کو نشانہ بنایا، ٹی ٹی پی ، جماعت الاحرار ، دیگر گروہوں نے 58 فیصد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ، نسلی، فرقہ وارانہ ،مذہبی دہشتگردی کے 370 واقعات میں 815 افرادہلاک ہوئے، داعش کی موجودگی کے وا ضح شواہد ، 6 مہلک حملوں میں 153 کی ہلاکت، دہشتگردی کے واقعات میں گزشتہ سال کی نسبت 16 فیصد کمی کے ساتھ پاکستان میں کل 370 دہشتگردانہ حملوں کی تفصیلات جاری کی گئیں جس میں 815 افراد ہلاک اور 1736 افراد زخمی ہوئے، بلوچستان اور فاٹا خاص طور پر کرم ایجنسی 2017 میں بالترتیب 288 اور 253 ہلاکتوں کے سبب حساس ترین علاقے شمار ہوئے، ٹی ٹی پی ، جماعت الاحرار اور ان جیسے مقاصد رکھنے والے گروہوں نے 58 فیصد حملوں کی ذمہ داری قبول کی جبکہ 37فیصدحملے قوم پرستوں اور 5 فیصد حملے فرقہ وارانہ دہشتگردوں نے کئے،حکومتی سطح پر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں ابہام باقی رہا، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی سالانہ رپورٹ کے مطابق نیشنل سیکورٹی پالیسی کا اعلان متوقع ہے جس میں بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی پس منظر کو مدنظر رکھا جائے گا ،قومی سطح پر داخلی سیکورٹی پالیسی 2018 پر نظرثانی کی جائے گی۔ عسکریت پسندوں کو مرکزی دھارے میں لانے کی کوئی بھی حکمت عملی پارلیمنٹ کی مرضی سے طے کی جائے گی اگرچہ 2017 میں دہشتگردی کے واقعات میں گزشتہ سال کی نسبت 16 فیصد کمی آئی تاہم تحریک طالبان پاکستان اور اس سے وابستہ گروہ ، قوم پرست عسکریت پسندوں خاص طور پر بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ اب بھی ایک مہلک خطرہ ہیں۔ خطرے کی بڑی علامت داعش کی بلوچستان اور شمالی سندھ میں موجودگی ہے جس نے بڑے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔ یہ حقائق اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ ایک اجتماعی کوشش کرتے ہوئے دہشتگردی کے خلاف جنگ کی حکومتی حکمت عملی نیشنل ایکشن پلان پر نظرثانی کی جائے جس کے متعلق تاحال ابہام موجود ہے کہ اس پر عملدرآمد کس کی ذمہ داری ہے۔ یہ بہت بہتر ہوگا کہ اگر پارلیمنٹ نہ صرف نئی حقیقتوں کےسبب نیشنل ایکشن پلان کا ازسرنو جائزہ لے بلکہ عسکریت پسندوں کو مرکزی دھارے میں واپس لانے کا کوئی معیار بھی مقرر کرے جس پر بحث کا آغاز2017 میں شروع ہوا ۔ رپورٹ کے اعداد وشمار کے مطابق 2017 میں پاکستان کے 64 اضلاع میں نسلی، فرقہ وارانہ اور مذہبی دہشتگردی کے 370 واقعات ہوئے ۔ جن میں 24 خودکش و فائرنگ خودکش حملے شامل تھے جن کے نتیجے میں 815 ہلاکتیں ہوئیں اور 1736 افراد زخمی ہوئے۔دہشتگردی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ سال 10 فیصد کم رہی ۔دہشتگردی کے ان حملوں میں سے 213 حملے یا کل حملوں کا 58فیصد تحریک طالبان یا اس سے علیحدہ ہونے والے گروہوں جماعت الاحرار اور اس جیسے اور گروہوں مقامی طالبان وغیرہ نے انجام دیئے اور ان حملوں میں 186 افراد ہلاک ہوئے ۔ جبکہ قوم پرست دہشتگردوں کے حملوں میں 140 افراد ہلاک ہوئے ۔ ان حملوں کی تعداد 138 تھی اور یہ ملک بھر میں ہوئے ،حملوں کی کل تعداد کا 37 فیصد تھا ان میں سےبیشتر بلوچستان میں جبکہ کچھ سندھ میں کئے گئے ۔ ملک میں فرقہ وارانہ دہشتگردی کے کل 19 واقعات ہوئے ، ان میں 71 افراد ہلاک جبکہ 97 زخمی ہوئے۔اس دوران کچھ نئے چیلنجز بھی ابھر کر سامنے آئے۔ان میں ذاتی انفرادی حیثیت میں افراد کا دہشتگردی میں ملوث ہونا ، چھوٹے چھوٹے سیلز بنا کر دہشتگرد ی کرنااور تعلیمی اداروں میں انتہاء پسندعناصر کا زور پکڑنا شامل ہیں۔ سب سے اہم خطرہ داعش ہے جس نے ملک میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے اور اس نے پاک افغان سرحد کے قریب افغان علاقوں میں عسکری کارروائیاں کی ہیں۔ پاکستان میں داعش اور اس کے حامیوں نے 6 مہلک حملے کئے ہیں جن کے نتیجے میں 153 افراد ہلاک ہوئے ۔ بلوچستان میں اس گروہ نے کوئٹہ سے چینی شہریوں کو اغواء اور بعد ازاں قتل کے علاوہ مستونگ میں ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے کو نشانہ بنایا ۔ سندھ میں ہلاکتوں کے لحاظ سے سب سے بڑا حملہ سیہون شریف میں ہوا ، اس کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی ۔رپورٹ میں شامل قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کے انٹرویو کے مطابق نیشنل سیکورٹی پالیسی کی تشکیل مکمل ہوچکی ہے اور اور اسے حکومتی اراکین کے درمیان داخلی طور پر تقسیم کیاجا چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button