مقالہ جات

” جعدہ کا امام حسن علیہ الصلوات والسلام کو زہر دینا "

مدینہ منور میں امام حسن مجتبیٰ علیہ الصلوات والسلام ایام حیات گزاررہے تھے کہ ”ایسونیہ“ دلالہ نے پھر باشارئہ مروان جعدہ سے سلسلہ جنبائی شروع کردی اورزہر ہلاہل اسے دے کر امام حسن کا کام تمام کرنے کی خواہش کی، امام حسن چونکہ اس سے بدگمان ہو چکے تھے اس لےے اس کی آمدورفت بند تھی اس نے ہرچندکوشش کی لیکن موقع نہ پاسکی بالآخر، شب بست و ہشتم صفر ۵۰ کو وہ اس جگہ جا پہنچی جس مقام پرامام حسن سو رہے تھے آپ کے قریب حضرت زینب و ام کلثوم سورہی تھیں اورآپ کی پائیتی کنیزیں محو خواب تھیں، جعدہ اس پانی میں زہر ہلاہل ملا کر خاموشی سے واپس آئی جو امام حسن کے سرہانے رکھا ہوا تھا اس کی واپسی کے تھوڑی دیربعد ہی امام حسن کی آنکھ کھلی آپ نے جناب زینب کو آواز دی اور کہا:

اے بہن :
میں نے ابھی ابھی اپنے نانا اپنے پدر بزرگوار اور اپنی مادرگرامی کوخواب میں دیکھاہے وہ فرماتے تھے کہ اے حسن تم کل رات ہمارے پاس ہوگے، اس کے بعدآپ نے وضو کے لیے پانی مانگا اور خود اپنا ہاتھ بڑھا کر سرہانے سے پانی لیا اورپی کر فرمایا کہ :

اے بہن زینب ” این چہ آپ بود کہ از سرحلقم تابنا قم پارہ پارہ شد “ ہائے یہ کیسا پانی ہے جس نے میرے حلق سے ناف تک ٹکڑے ٹکڑے کردیاہے اس کے بعدامام حسین کواطلاع دی گئی وہ آئے دونوں بھائی بغل گیرہو کرمحو گریہ ہوگئے، اس کے بعد امام حسین نے چاہا کہ ایک کوزہ پانی خودپی کرامام حسن کے ساتھ ناناکے پاس پہنچیں، امام حسن نے پانی کے برتن کوزمین پرپٹک دیاوہ چور چور ہو گیا راوی کا بیان ہے کہ :

” جس زمین پر پانی گرا تھا وہ ابلنے لگی تھی "

الغرض تھوڑی دیر کے بعد امام حسن کو خون کی قے آنے لگی آپ کے جگرکے ستر ٹکڑے طشت میں آگئے آپ زمین پرتڑپنے لگے، جب دن چڑھا توآپ نے امام حسین سے پوچھا کہ میرے چہرے کارنگ کیسا ہے ”سبز“ ہے آپ نے فرمایا کہ حدیث معراج کایہی مقتضی ہے، لوگوں نے پوچھا کہ :

مولا حدیث معراج کیا ہے !

فرمایا کہ :
شب معراج میرے نانا نے آسمان پر دو قصر ایک زمردکا، ایک یاقوت سرخ کادیکھاتو پوچھا کہ :

ائے جبرئیل ! یہ دونوں قصر کس کے لیے ہیں، انہوں نے عرض کی ایک حسن کے لیے اوردوسرا حسین کے لیے پوچھا دونوں کے رنگ میں فرق کیوں ہے؟

کہاحسن زہر سے شہید ہوں گے اورحسین تلوار سے شہادت پائیں گے یہ کہہ کر آپ سے لپٹ گئے اور دونوں بھائی رونے لگے اورآپ کے ساتھ درودیوار بھی رونے لگے۔

اس کے بعدآپ نے جعدہ سے کہا :
افسوس تو نے بڑی بے وفائی کی، لیکن یادرکھ کہ تو نے جس مقصد کے لیے ایسا کیا ہے اس میں کامیاب نہ ہو گی اس کے بعد آپ نے امام حسین اور بہنوں سے کچھ وصیتیں کیں اور آنکھیں بند فرما لیں پھر تھوڑی دیر کے بعد آنکھ کھول کر فرمایا :

ائے حسین ! میرے بال بچے تمہارے سپرد ہیں پھر بند فرما کر نانا کی خدمت میں پہنچ گئے-

” انــا للہ وانــاالیــــہ راجعــــون “

متعلقہ مضامین

Back to top button