مقالہ جات

سعودی عرب میں انسداد بد عنوانی کے نام پر حالیہ گرفتاریوں کے پس پردہ عوامل

تحریر : مزمل حسین سی

اقتدار پر قبضہ کے لئے باپ شہزادوں کے باہم دست و گریبان ہونے اور ایک دوسرے کوبے دریغ قتل کرنے کے واقعات سے پوری تاریخ بھری پڑی ہے ۔ اور ایک بار پھر اس کی گونج سعودی عرب کے شہزادوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کے باعث باہمی چپقلش کی صورت میں اس وقت سامنے آ ئی جب سعودی عرب کے اقتدار کو آل سعود خاندان سے نکال کر آل سلمان خاندان میں منتقل کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔

سعودی عرب پر انسداد ہشتگردی کے عنوان سے شہزادوں اور وزیروں کی گرفتاریوں پر ایک طرف شاہی احکامات پر ستائش کے مسلسل؛ قصید پڑھے جا رہے ہیں ۔ بلکہ اس شاہی اقدام پر ہمنواوں یعنی ہم نوالہ و ہم پیالہ افراد کی جانب سے سعودی حکمرانوں کی بد عنوانی کے خاتمے کی کوششوں پرتعریفوں کے قلابے بھی آسمان سے ملائے جا رہے ہیں۔

غیر جانبدار مبصرین کے مطابق ان حالیہ اعلیٰ سطحی گرفتاریوں اور معزولیوں کو صاحبان اقتدار کی اپنے مخالف رائے رکھنے والے شہزادوں کے خلاف انتقامی کاروائی سے تعبیر کرتے ہوئے اس کو کھلم کھلا آل سعود خاندان کی اقتدار کی رسہ کشی اور خاندانی جنگ قرار دے رہے ہیں ۔

بعض موصولہ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب میں خاندانی لڑائی میں شاہ فھد کا چھوٹا بیٹا قتل ہو گیا ہے، خاندانی دشمنی اور سیاسی محاذ آرائی میں شدت، سول وار شروع ہوسکتی ہے۔

انڈین میڈیا کے مطابق سعودی عرب میں گزشتہ24 گھنٹوں میں دوسرا شہزادہ جاں بحق ہوا ہے،سعودی عرب میں شہزادہ منصور بن مقرن کے جاں بحق ہونے کے بعد ایک اور شہزادے کی موت کی اطلاعات ہیں۔سعودی عرب میں 24 گھنٹوں کے دورران دوسرا شہزادہ جان کی بازی ہار گیا، شاہ فہد کے بیٹے شہزادہ عبدالعزیز گرفتاری میں مزاحمت کے دوران مارے گئے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق 44 سالہ شہزادہ عبدالعزیز سعودی عرب کے مرحوم بادشاہ شاہ فہد کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے ۔

بھارتی اخبارات اور دیگر ذرائع کے مطابق انہیں گرفتاری میں مزاحمت کے دوران گولی لگی ہے، گزشتہ روز سابق ولی عہد شہزادہ مقرن کے بیٹے منصور سمیت 8 افراد ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے ۔

دو روز قبل سعودی عرب کی اینٹی کرپشن کمیٹی نے 11 شہزادوں، 4 موجودہ وزرا سمیت 38 سے زائد افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ریاض کا فائیواسٹار ہوٹل سب جیل میں تبدیل کر کے سعودی عرب میں کرپشن کے الزام میں گرفتار شہزادے اور دیگر اہم شخصیات ریاض کے فائیو اسٹار ہوٹل میں قید کیا گیا ہے۔

برطانوی اخبار نے سعودی حکومت کے اندر موجود ذرائع کے حوالے سے دعوی کیا ہے کہ تصاویر میں ہوٹل کے ہال کے گدوں پر سوئے والے سعودی شہزادے ہیں ،جنہیں کرپشن کے الزام میں گزشتہ دنوں گرفتار کیا گیا تھا ۔

سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف حالیہ کریک ڈاون میں گرفتارشہزادوں،وزرا اور تاجروں کے لیے ریاض کا فائیو اسٹار ہوٹل سب جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

برطانوی اخبار کے مطابق ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل کو مہمانوں سے خالی کرالیا گیا ہے ،ڈیلی میل نے ایک تصویر بھی جاری کی ہے ، جس میں گرفتار افراد کو اس ہوٹل کے کانفرنس ہال میں گدوں پر سوتے دیکھا جاسکتا ہے ۔برطانوی اخبار کا دعوی ہے کہ سعودی حکومت کے اندر موجود ایک ذریعے نے انہیں یہ تصویر بھیجی ہے،تاہم یہ واضح نہیں کہ فرش پر سوئے ان افراد میں ارب پتی شہزادہ الولید بن طلال موجود ہیں یا نہیں ۔

لیکن گزشتہ ماہ شہزادہ الولید بن طلال اور دیگر گرفتار افراد نے اسی کانفرنس ہال میں فیوچر انویسٹمنٹ کانفرنس کے شرکا سے خطاب کیا تھا ۔غیرملکی میڈیا کے مطابق حالیہ کریک ڈاون میں اب تک 11 شہزادوں، 4 وزرا، دسیوں سابق وزیروں سمیت 48 اہم شخصیات کو گرفتار کیا گیا ہے ،مجموعی تعداد چار سو سے اوپر بتائی جارہی ہے ۔

جبکہ لبنانی ویب سائٹ النبا کی ایک خبر کے مطابق درجنوں شہزادوں اور دوسرے اعلی عہدیداروں کی گرفتاری کا مقصد انکی دولت کوہتھیانا ہے۔سعود ی فرمانروا شاہ سلمان کے فرزند اور ولی عہد محمد بن سلمان نے گرفتار شدہ سعودی عہدیداروں اور شہزادوں سے دو ٹریلین سعودی ریال کی رقم ہتھیائی ہے ۔

آل سعود خاندان کے خفیہ رازوں کاسوشل میڈیا پر پردہ فاش کرنیوالے مجتہد نامی مبصر نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ہے۔مجتہدکے مطابق ان شہزادوں کی جانب سے دی جانے والی وہ دھمکی اس بات کا باعث بنی ہے جو ارب پتی سعودی شہزادے ولید بن طلال نے شاہی خاندان کی ایک میٹنگ میں دھمکی دی تھی کہ اگر سابق ولی عہد محمد بن نائف کو رہا نہ کیا گیا تو وہ اپنی دولت سعودی عرب سے باہر منتقل کردیں گے۔اس دھمکی کے ردعمل میں سعودی عرب کی شاہی حکومت نے درجنوں شہزادوں اور سابق وزیروں کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔ ان گرفتار ہونیو الوں میں ایم بی سی چینل کے بانی ولید الابراھیم، اور ارب پتی سعودی تاجر صالح کامل بھی شامل ہیں۔

مذکورہ گرفتاریاں شاہ سلمان کی جانب سے نئے وزرا اور عہدیداروں کے تعین کے محض چند گھنٹے کے بعد عمل میں لائی گئی ہیں۔شاہ سلمان نے وزیر خزانہ عادل فقیہ کو برطرف کرکے محمد التویجری کو یہ عہدہ سونپ دیا ہے۔ سابق شاہ عبداللہ کے بیٹے متعب کی جگہ خالد بن عیاف کو نیشنل گارڈ کا وزیر بنادیا گیا ہے ۔ میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونے والوں میں متعب بن عبداللہ بھی شامل ہے۔ ایک اجلاس میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا حکم دیتے ہی جدہ سے تمام نجی پروازوں کو روک دیا گیا ہے جس کا مقصد کسی بھی شہزادے یا سابق عہدیدار کے بیرون ملک جانے کا امکان ختم کرنا ہے۔

مذکورہ گرفتاریاں اور معزولیاں شاہ سلمان کے اس فیصلے کے محض چند ماہ بعد ہوئی ہیں جس کے تحت انہوں نے ولی عہد محمد بن نائف کو ان کے عہدے سے برطرف اور اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کیا تھا۔اقتصادی مبصرین کا کہنا ہے کہ شہزادہ ولید بن طلال کی گرفتاری دنیا بھر کی بڑی کاروباری شخصیات کے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں کیونکہ کھرب پتی سعودی شہزادے نے دنیا کے نامور ترین مالیاتی اداروں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

سعودی بادشاہ کے شاہی حکم سے تشکیل کردہ اینٹی کرپشن کمیٹی کے ہاتھوں مبینہ طور پر گرفتار ہونے والے کھرب پتی شہزادے الولید بن طلال کی بین الاقوامی کمپنیوں میں خفیہ سرمایہ کاری کی کچھ تفصیلات سامنے آئیں۔

شہزادے محمد بن سلمان کی ہدایت پر بننے والی اینٹی کرپشن کمیٹی نے الولید کو صحرا میں تفریح کے لیے لگائے جانے والے خیمے سے گرفتار کیا مگر سعودی حکام نے ابھی تک ان کی گرفتاری کی تصدیق نہیں کی۔

بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق کرپشن کے الزام میں گرفتار ہونے والے سعودی شہزادے کا شمار دنیا کی ابتدائی 50 امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے ان کے کل اثاثہ جات کی مالیت 19 کھرب ڈالر ہے۔

بلوم برگ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اثاثوں کی تفصیل میں الولید کی مختلف کمپنیوں کی لین دن اور سرمایہ کاری کے ساتھ بینفشری تفصیلات بھی موجود ہیں۔رپورٹ کے مطابق شہزادے نے نامور کمپنیز جیسے ایپل، سٹی گروپ وغیرہ میں سرمایہ کاری کررکھی ہے۔

ان کے اثاثہ جات کی مالیت کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ 2007 میں اپنا ذاتی طیارہ اے 380 خریدنے اور پرائیوٹ ہوائی اڈہ بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔فوربس میگزین کی فہرست میں نام صحیح جگہ نہ آنے پر سعودی شہزادے نے انتظامیہ کے خلاف قانونی مقدمہ بھی دائر کیا تھا جو دو سال بعد 2015 میں حل ہوا۔

واضح ہے کہ الولید بن طلال نے صدارتی انتخابات کے دوران ٹرمپ پر شدید تنقید کرتے ہوئے امریکا میں موجود اپنے اثاثہ جات کو فروخت کردیا تھا۔سعودی اٹارنی جنرل شیخ سعود المجیب نے حالیہ گرفتاریوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ قانون اور انصاف کے لیے امیر اور طاقت ور شخص کی تمیز نہیں کی جائے گی بلکہ کرپشن کرنے والوں کو کڑی سزا دی جائے گی۔

حراست میں لیے جانے والے سعودی شہزادے نے مملکت کی 95 فیصد گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے علاوہ حصص مارکیٹ میں بھی 35 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کررکھی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی گرفتاری کے بعد اسٹاک ایکسچینج کا انڈیکس تیزی سے نیچے آیا۔

الولید بن طلال کی کمپنی کے ترجمان نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ شہزادے کے اثاثہ جات کی تفصیلات پہلے ہی حکومت کے پاس موجود ہیں انہوں نے بینکوں اور دیگر نجی کمپنیز میں سرمایہ کاری کررکھی ہے، جو حکومت کو سالانہ ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتی ہیں۔

بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق سٹی گروپ کا قیام 1991 میں عمل میں آیا اور اسے 2009-2008 کے درمیان مالی خسارے کے دوران بڑی پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا جس کے بعد کمپنی کو بند کرنا پڑا تاہم سعودی شہزادے نے سٹی گروپ کی سربراہی سنبھالی اور رواں برس اس نے دوبارہ کاروبار کا آغاز کیا۔اسی طرح شیخ الولید بن طلال نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر 2011 میں 30 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی تاہم ان کے ٹوئٹر میں موجودہ حصص 4.9 فیصد ہیں۔

سعودی شہزادے کے پاس موبائل فون کی معروف کمپنی ایپل کے 6 ارب 23 کروڑ حصص موجود ہیں، انہوں نے 1997 میں 11 کروڑ 54 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی بعد ازاں انہوں نے لیفٹ نامی کمپنی میں سرمایہ کاری کی اور 247 ارب 7 کروڑ ڈالر کے حصص خریدے جس میں سے کچھ حصہ فروخت کیا جاچکا ہے۔

ٹیکس گوشواروں کے مطابق شیخ الولید نے میڈیا انڈسٹری میں بھی سرمایہ کاری کی انہوں نے 2015 میں روپرٹ مرچڈوچ سے 3 کروڑ 97 لاکھ ڈالر کے حصص خریدے۔الولید نے بڑھتے ہوئی آن لائن شاپنگ کے رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے ای کامرس انڈسٹری میں بھی خوب سرمایہ کاری کی، انہوں نے چینی کمپنی جے ڈی ڈاٹ کام کے ساتھ 2013 میں معاہدہ کیا اور 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، جسے بعد ازاں بڑھا کر 700 ارب ڈالر تک لے جایا گیا۔

بلوم برگ کی شائع رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی شہزادے نے ہوٹل انڈسٹری میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی، ان کے امریکا، یورپ اور سعودیہ عرب میں لگژری ہوٹلز اور پلازہ موجود ہیں۔

شیخ الولید نے رئیل اسٹیٹ اور پیٹروکیمیکل انڈسٹری میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررکھی ہے، وہ عرب ممالک کے پانچویں بڑے بینک کے سب سے زیادہ حصص لینے والی شخصیت بھی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق انہوں نے حال ہی میں جدہ میں تعمیرات کے لیے قائم کی جانے والی کمپنی جدہ اکنامکس میں سرمایہ کاری کی جس نے حال ہی میں دنیا کا طویل ترین ہوٹل تیار کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button