پاکستان

امام کعبہ کا تکفیری ملاوں کو جوا ب : کافریامرتدقراردیناصرف اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے

پاکستان کے دورہ پر آئے امام کعبہ سے ایک پروگرام میں پاکستانی صحافی سلیم صافی نے سوال کیا شیخ پاکستانیوں کو آپ کی رہنمائی کی بہت ضرورت ہے،یہاں بات بات پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں لوگوں کو مرتد اور واجب القتل قرار دیا جاتا ہے،اس پر رہنمائی کیجئے کہ شرعی لحاظ سے ایک مسلمان کس وقت مرتد یا کافر قرار پاتا ہے اور کسی مسلمان کو کافر ، مرتد یا واجب القتل قرار دینے کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے یا افراد کو بھی وہ حق دیا جاسکتا ہے یا علماء کو بھی؟

جواب میں امام کعبہ نے کہا کہ یہ معاملہ تو فقہاء او ر علماء کے نزدیک بڑا واضح ہے اور امت اسلامیہ اس معاملہ کو بڑی گہرائی کے ساتھ بیان بھی کرچکی ہے، ارتداد اور کفر سے متعلق جتنے بھی معاملات ہیں یہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی فرد اٹھے اور کسی کو بھی کافر اور مرتد قرار دیدے اور وہ کافر اور مرتد اور واجب القتل سمجھاجائے گا، جس پر بھی اس قسم کا کوئی الزام لگے گا وہ معاملہ عدالت میں جائے گا، جو حکومتی ذمہ داران ہیں، جو قاضی ہے، جو جج ہے وہ اس معاملہ کے متعلق ثبوت اور گواہیاں اکٹھی کرے گا، استفسار کرے گا، پھر جس شخص پر الزام لگا ہے اس سے گہرے سوالات کیے جائیں گے کہ آیا وہ اپنے اوپر جس قسم کا الزام لگایا گیا ہے اس کو تسلیم کرتا ہے یا اس کا انکار کرتا ہے، اپنا کوئی بھی موقف جو وہ بیان کرتا ہے اس کے لئے کوئی تاویل بیان کرتا ہے یا وضاحت کے ساتھ ارتداد کا ارتکاب کرتا ہے اور ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص کچھ باتیں تو کررہا ہو لیکن ذہنی طور پر ٹھیک نہ ہو، مجنون ہو یا اس کی ذہنی حالت ایسی نہ ہو جس میں اس کو اپنی گفتگو کی سنجیدگی کا اندازہ ہو، اس حوالے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چاہے کفر کا معاملہ ہو، چاہے کسی کو مرتد قرار دینے کا اور قتل کرنے کا معاملہ ہو یہ صرف اور صرف اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے، اللہ تعالیٰ نے تو قرآن مجید میں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ جس نے ایک جان کو بھی ناحق قتل کیا اس نے تمام انسانیت کو قتل کیا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں ہر گلی محلے میں تکفیری دہشتگردوں نے مدارس میں کافر قرار دینے کی فیکٹریاں کھولی ہوئی ہیں، جسکا جب دل چاہتا ہے وہ دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیکر واجب القتل ٹہرا دیتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button