پاکستان

پنجاب میں شیعہ لاپتہ افراد کے خاندان کی اہم پریس کانفرنس

شیعیت نیوز: ترجمان مسنگ پرسنز ملت جعفریہ پنجاب ساجد حسین خان نے لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سائل کے بیٹے راغب عباس ثاقب کو ایک سال پہلے 22/21ستمبر 2016ءکی درمیانی شب کو چادراو رچاردیواری کا تقدس پائمال کرتے ہوئے گھر سے اغوا کیا گیا تھا ۔ اغوا کرنے والے دو چار نہیں بلکہ یہ مسلح لوگ دس بارہ گاڑیوں پر آئے تھے ، انہوں نے محلے کے دو تین لڑکوں کو مارا پیٹا بھی ہے ۔ زیر حراست بھی رکھا اور جاتے ہوئے چھوڑ گئے ۔ ان میں سے ایک سفید رنگ کی گاڑی بھی تھی جو ان تمام کو گائیڈ کر رہی تھی ۔ اسی طرح میرے ساتھ بیٹھی یہ فیملیز بھی اپنے
پیاروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ جس ملک کا سالار اعلیٰ ملک میں قانون کی بالادستی پر ناصرف یقین رکھتا ہو بلکہ اسے عملی طور پر نافذ کرنے کی جدو جہد میں مصروف ہو ، ایسے میں اس قسم کے واقعات کا ہونا ان کی ان کوششوں کو ناکام بنانے کی سازش ہے جو ملک و قوم کے لئے نہایت نقصان دہ ہے ( بحوالہ یو م دفاع چھ دسمبر کا خطاب)

انہوں بتایا کہ اس ملک کا وزیر داخلہ کا بیان ہے کہ آرٹیکل 10/Aہر پاکستانی کو فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے(پریس کانفرنس16ستمبر 2017ئ)

جناب عالی ! کیا یہ لاپتہ افراد کسی غیر ملک سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جن پر اس ملک خدا داد کا قانون نافذ نہیں ہوتا ۔ تاہم پھر بھی انسانی حقوق کا چارٹر اس کی اجازت نہیں دیتا انسانی حقوق میںاگر یہ بھی شامل کر لیا جائے کہ ہم اس ملک کے باسی ہیں جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تو یہ جرم ناقابل معافی بن جاتا ہے ۔

یہ اغوا کنند گان افغانستان ، ہندوستان یا اسرا ئیل سے نہیں آئے، کرتے دھرتوں کو اگر علم نہیں تو انہیں بڑے بڑے عہدوں پر رکھنے کا کیا فائدہ ؟ہمارا مسلک شیعہ ہے اور ہم اس ملک میں بغیر قربانی دیئے داخل نہیں ہوئے ، اپنے ملک پر اپنے آباءاجداد کی قربانیاں دے کر داخل ہوئے ہیں ، اگر ارباب اختیار اس شیعہ دشمنی پر قائم رہناچاہتے ہیں تو اس وقت ان کے پاس بہترین چانس ہے ۔ جہاں کسی سازش کے تحت وہ پارلیمان سے ختم نبوت کے حلف نامے کوتبدیل کرسکتے ہیں وہاں یہ بل بھی پاس کر دیں کہ شیعہ مسلک کے حامل لوگوں پر اس ملک پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا ۔ اس طرح انہیں غیر ملکی آقاو ¿ں کوخوش کرکے زیادہ فائدہ ہو گا۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے اور یہ لوگ ایسا کر بھی نہیں سکتے تو اس ملک کے قانون کا سبق دینے والے وزیر داخلہ صاحب آرٹیکل 10/Aکا رونا کیوں رو رہے ہیں اور کن کے
لئے رو رہے ہیں۔

اس ملک کی تاریخ میں کوئی ایسا گروہ دکھائیں جو شیعہ ہو جنہوں نے اس ملک کے اداروں ، مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے کئے ہوں یا انہیں نقصان پہنچا یا ہو ۔ را ت کی تاریکی میں کسی کو اغوا کرنا اور انہیں عدالتوں میں پیش نہ کرنا قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ۔ اگر ہمارے بچوں نے کوئی ملک دشمنی کی ہے یا وطن عزیر کا تقدس پامال کیا ہے تو اس ملک خدا داد کا آئین موجود ہے ، عدالتیں موجود ہیں ، فرد جرم عائد کریں اور عدالتوں کے سپرد کریں مجرم ہو تو سزا دیں ۔ جب کہ ایسا نہیں ہے ، یہاں کے اشرفیہ ایسا نہیں چاہتے ۔ یہ پارلیمان کو مانتے ہیں اور نہ اس کے بنائے ہوئے قوانین کو ۔ کیا اس ملک کے تمام ادارے اس ملک کے قوانین پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں ؟ اگر نہیں تو اس کا بھی ایک قانون بنا دیں کہ فلاں فلاں اداروں پر اس ملک کا کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا ۔
سابقہ بادشاہوں کی طرح جسے چاہیں پکڑ لیں اور جسے چاہیں چھوڑ دیں۔
ناانصافی کا آخر کوئی مداوا بھی ہے یا صرف مایوسی ؟؟

متعلقہ مضامین

Back to top button