پاکستان

ایک زنّاٹے دار تھپڑ کی گونج”

شیعوں کو دہشتگردی کے بعد جس تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے، وہ ہے اِس ملک کے ایک بڑے طبقے کا Sense of Denial۔ تاویلوں کی ایک پوری کتاب ہے جو اس طبقے نے بالخصوص شیعہ نسل کشی سے انکار کیلئے لکھی ہے۔ یہ عام بات نہیں، بہت کربناک حقیقیت ہے کہ آپ کے ملک کا ایک اہم ترین طبقہ جس نے اس کی بنیاد سے لیکر تعمیر و ترقی تک ریڑھ کی ہڈی کے جیسا کردار نبھایا ہو، آپ اُس کے زخموں پر اپنی تاویلوں کا نمک چھڑک کر سر جھٹک کر گزرتے رہیں۔

کیا کربناک صورتحال ہوتی ہے جب کوئی ہزارہ شیعہ سو جنازے کڑکتی سردی میں لئے سڑک بیٹھا ہو، معصوم بچے اپنے والد کی تصویر تھامے بیٹھے ہوں اور کوئی یہ کہہ کر چلا جائے کہ یہ ماضی کے کسی واقعے کا ردعمل ہے، کس قدر تکلیف ہوتی ہے جب ہم کراچی میں جلوسِ عاشور میں ہولناک دھماکے کے بعد اپنے پیاروں کی لاشیں اُٹھا رہے ہوں اور کوئی جلوسوں کو چار دیواری میں محدود کرنے کی بات کردے، انسان خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے جب شکارپور میں نماز جمعہ پڑھنے والے شیعوں پر قیامت ٹوٹ پڑے لیکن ہمدری کے دو بول کی بجائے یہ سننے کو ملے کہ یہ سب بیرونی سازش ہے، شدید کرب محسوس ہوتا ہے جب پشاور کی امامیہ مسجد میں نمازِ جمعہ کے دوران دھماکہ ہو اور اسے ڈرون کا ردعمل قرار دیا جائے، تاویل دینے والے کا منہ نوچ لینے کا دل چاہتا ہے جب وہ لاہور میں چہلم امام حسینؑ کے جلوس میں خود کش حملے کے بعد شیعوں کو "گستاخی نہ کرنے” کا مشورہ دیتا نظر آتا ہے، سنگدلی کی حد ہے کہ پارہ چنار میں چھ ماہ میں شھ خودکش حملے ہوں، معصوم بچوں عورتوں سمیت ۲۰۰ شیعہ جان سے جائیں اور کوئی احتجاج کرنے والوں کو جاکر یہ کہہ دے کہ تمہارا احتجاج تو فوج مخالف احتجاج ہے اور کسی کو شام کی یاد آجائے۔

ایسی تکلیف دہ تاولیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو ہم شیعوں کے زخموں پر بطور نمک چھڑکی جاتی رہیں۔ انہیں میں سے ایک تاویل رالپنڈی راجہ بازار کا واقعہ بھی ہے۔ میرے اپنے ذاتی تجربات ہیں کہ میں نے گزشتہ برس کوئٹہ میں شناخت کرکے قتل کی جانے والی پانچ شیعہ ہزارہ خواتین کا ذکر کیا، کراچی میں خواتین کی مجلس عزا پر حملے کا ذکر کیا جس میں تین انتہائی قابل سگے بھائیوں سمیت متعدد شیعہ شہید ہوئے یا کسی اور سانحے کی یاد دہانی کروائی تو مجھے جواب میں "تعلیم القران” میں "شیعوں کی بربریت” یاد دلا دی گئی۔ گویا ہزاروں شیعوں کا بہنے والا خون ایک طرف اور راولپنڈی واقعے سمیت تاویل پرستوں کی کی تمام تاویلیں ایک طرف۔

کل سے تاویلوں کا، وضاحتوں کا اور کھسیانے پن کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے جس میں تاویل پرستوں کی پوری بٹالین میدان میں یہ ثابت کرنے کیلئے اتری ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی جاری کردہ معلومات درست نہیں ہے۔ البتہ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میرے لئے یہ تو یہ تقریبا گزشتہ دو دہائیوں سے میرے مکتب فکر کے لوگوں کے قتل عام کی تاویلیں گھڑںے والوں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے، جس کی گونج بہت دیر تک سنی جاتی رہے گی۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اب سے بس کچھ ہی عرصہ قبل اپنے پیاروں کے غم میں نڈھال احتجاج کرنے والے پارہ چنار کے شیعوں کے احتجاج کو فوج مخالف احتجاج قرار دے کر فوج سے اپنی محبت کا اظہار کررہے تھے۔ آج اُسی فوج نے:
"آئینہ اِن کو دکھایا تو برا مان گئے”

آئی ایس پی آر کی اس ریلیز کا پس منظر کیا ہے، علاقائی صورتحال کے تناظر میں اس کی ٹائمنگ کی کیا حیثیت ہے، امریکہ کی نئی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے اسے کیسے دیکھنا چاہئے، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس کا کیا رول ہے اور اس جیسے دیگر سوالات، ہم شیعوں کو ان سوالات سے قطعا کوئی غرض نہیں۔ ہمیں تو بس اس بات کی خوشی ہے کہ اُن تمام تکلیف دہ تاویلوں پر اور دہشتگردی کے ہر واقعے پر صبر کرنے کا ہمیں صلہ یہ ملا کہ آج خود اس ملک کی فوج نے یہ اعلان کیا کہ

"جس مسلک کے لوگوں نے مسجد پر حملہ کیا، وہ اُسی مسلک کی تھی جس مسلک سے یہ حملہ آور تعلق رکھتے تھے”۔

تعجب کی بات نہیں۔ گوگل آپ کے پاس ہے، پشاور، جمرود اور مہند ایجنسی میں مساجد پر حملوں کی تفصیل سرچ کرلیں۔ یقین آجائے گا کہ اپنے ہی مسلک کی مسجد پر حملے کس نے کیے۔ پھر بھی یقین نہ آئے تو فاٹا میں ہونے والے جنازوں پر خود کش حملوں کی تفصیل سرچ کرلیجئے۔ اور پھر بھی یقین نہ آئے تو چندوں کی تقسیم میں آپس میں لڑ مرنے والے کالعدم تنظیموں کے دو گروہوں کی تفصیل پڑھ لیں۔ کچھ تکفیری مزاح سرچ کرنے کا موڈ ہو تو نماز کی جماعت کے دوران مسجد میں چھپنے کیلئے آنے والے پیش امام کا خود کش حملہ سرچ کرلیں، پھر بھی اطمینان نہ ہو تو سرگودھا میں آپس میں لڑتے ہوئے پھٹ جانے والے دو خود کش بمباروں کی تفصیل پڑھ لیں۔

ضرورت تو اس امر کی تھی کہ تمام معتدل دیوبندی حضرات یک زبان ہوکر اُس تکفیری دیوبندی ٹولے کے خلاف بولتے جس نے پورے دیوبند مکتب کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا ہے، لکن افسوس کہ یہاں ہر تیسرا دیوبندی ان تکفیریوں کو بین السطور own کرتا نظر آرہا ہے۔ اگر میں غلط ہوں تو خود ہی بتائیں، راولپنڈی کی مسجد پر جماعت الاحرار کے حملے کا ذکر آپ کو اپنے مسلک پر حملہ کیوں محسوس ہو رہا ہے؟

آخر میں برسبیلِ تذکرہ ایک بات اور کہہ دوں۔ کسی بھی دشمن ملک کی خفیہ ایجنسی کی سخت ناہلی ہوگی اگر وہ ہمارے ملک میں چلتے پھرتے تیار میٹیریل سے فائدہ نہیں اُٹھائے گی۔ ہمارے محبِ وطن دانشور، جو شاید خود کو پاکستان کی بنیادوں کو اپنا لہو دینے والے شیعوں سے زیادہ محبِ وطن سمجھتے ہیں، ان دانشوروں کو یہ غور کرنا ہی ہوگا کہ سانحہ صفورہ کے حملے کا ماسٹر مائینڈ اور سبین محمود کے قتل میں ملوث سعد عزیز آئی بی اے کراچی کا گریجویٹ اور سپاہ صحابہ کا رکن کیوں تھا، بلوچستان سے آکر شکار پور میں شیعہ مسجد پر نمازِ عید میں زندہ پکڑا جانے والا خود کش بمبار عثمان کراچی کے مدرسہ ابو ہریرہ سے پڑھا کیوں تھا، شہید شجاع خانزدہ پر حملے کے ماسٹر مائینڈ فیصل آباد سے کیوں گرفتار ہوئے تھے، بینظیر کے قتل کے منصوبہ سازوں نے قتل کی منصوبہ بندی بقول سہیل وڑائچ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں کیوں کی تھی، درجنوں حملوں میں ملوث طالبان کا سرغنہ عصمت اللہ معاویہ آج جنوبی پنجاب میں تبلیغ کیوں کر رہا ہے۔ ایسی ایک نہیں، ان گنت مثالیں ہیں جو آپ کی بیرونی سازش والی تھیوریوں کے مقابل ہماری اندرونی فالٹ لائینز کے ناقابلِ تردید ثبوتوں کا ڈھیر لگاتی نظر آتی ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جو تکفیریت کے بانی کے بیٹے کو اسمبلیوں میں بٹھا کر بیرونی سازش کا راگ الاپتے ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جس کا سابق وزیر داخلہ کالعدم فرقہ وارانہ اور کالعدم دہشتگرد جماعتوں میں فرق سمجھا کر جسٹس فائز عیسی کی رپورٹ میں اپنا نام آنے پر اس رپورٹ کے خلاف اپیل کردیتا ہے۔

بحیثیت ایک شیعہ مسلمان، آج میرا سر بارگاہِ الہی میں بصد شکر جھکا ہوا ہے۔ میرے ذہن میں اپنے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے اُن تمام ہزاروں شہداء کا خیال ہے جن میں معصوم بچوں سے لیکر بزرگ اور ایک سے بڑھ کر ایک قابل انسان شامل ہے اور میرا دل بے اختیار پکار رہا ہے:

” وَقُلْ جَآءَ ٱلْحَقُّ وَزَهَقَ ٱلْبَٰطِلُ ۚ إِنَّ ٱلْبَٰطِلَ كَانَ زَهُوقًا "
اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہوگیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button