مقالہ جات

داعش کیخلاف پاکستان کی تیاریاں

16 جولائی 2017ء کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ سرحد پار سے دولت اسلامیہ کا اثر روکنے کے لئے راجگال میں خیبر فور آپریشن شروع کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مضبوط ہوتی ہوئی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کا پاکستانی علاقے میں اثر روکنے کے لئے اس آپریشن کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پارا چنار سے گرفتار ہونے والوں کا تعلق شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے ثابت ہوا ہے۔ داعش کے افغانستان میں قدم جمانے کا آغاز 2014ء کے آخر میں ہوا اور وہ زیادہ نمایاں طور پر جنوری 2015ء میں سامنے آئی، جب اس نے مشرقی صوبہ ننگر ہار میں میں ایک بڑے حصے پر کنٹرول کر لیا۔ اس سلسلے میں 25 فروری 2017ء کو بی بی سی نے اپنے نامہ نگار داؤد عظمی کی ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی، جس کے مطابق یہ پہلا موقع تھا جب دولت اسلامیہ مشرق وسطٰی سے باہر باضابطہ طور پر نمودار ہوئی۔ اس نے چند ہی ہفتوں میں افغانستان کے پانچ صوبوں ہلمند، ذبول، فرح، لاگر اور ننگر ہار میں مختلف علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ اڑھائی برس سے زیادہ کی مدت میں افغانستان کے اندر داعش کا اصل چیلنج افغان طالبان کے لئے ظاہر ہوا ہے۔ داعش افغان طالبان کا غلبہ ختم کرنا چاہتی ہے، علاوہ ازیں اس کا ہدف افغانستان میں موجود القاعدہ کے جنگجو بھی ہیں۔ داعش کی کوشش یہ بھی ہے کہ وہ اپنے لئے نئی بھرتی کے ساتھ ساتھ طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرے اور جو شامل نہ ہوں، ان کے خلاف کارروائی کرے۔ بظاہر ننگر ہار غیر اعلانیہ طور پر افغانستان میں داعش کا دارالحکومت ہے، جو داعش کے تصور کے مطابق دولت اسلامیہ صوبہ خراسان کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔

داؤد عظمی کے مطابق ننگر ہار کے انتخاب کی وجہ یہ ہے کہ دولت اسلامیہ خراسان کی اہم قیادت کے ٹھکانے پاکستان کے قبائلی علاقوں کے قریب ہیں اور دوسرا یہاں دولت اسلامیہ کے مسلک سلفی/وہابی اسلام کے پیروکاروں کی تعداد قدرے بہتر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دولت اسلامیہ شمالی افغانستان میں بھی اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے، جہاں اس کا ہدف وسطی ایشیا میں چیچن اور چینی اوغر جنگجوؤں سے روابط قائم کرنا ہے۔ مختلف رپورٹس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی قیادت میں نیٹو فورسز نے ابھی تک داعش کے خلاف فقط جنوبی اور مغربی افغانستان میں کارروائی کی ہے۔ اس نے کوئی کارروائی شمالی علاقوں میں موجود اور پاکستان کے بارڈر کے قریب موجود داعشی جنگجوؤں کے خلاف نہیں کی، بلکہ حال ہی میں تورا بورا کے پہاڑی سلسلے میں داعش کے داخلے اور قبضے کا اعلان ہوا ہے۔ جب کہ تورا بورا سے افغان طالبان کے خاتمے کے لئے امریکہ نے ایٹم بم کے بعد سب سے بڑے بم جسے وہ تمام بموں کی ماں کہتا ہے، استعمال کئے ہیں۔ یاد رہے کہ تورا بورا کرم ایجنسی کے نواح میں واقع ہے، جس کا ہیڈ کوارٹر پاراچنار ہے۔ بی بی سی کی مذکورہ رپورٹ میں افغان سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ داعش کے 80 فیصد جنگجو پاکستانی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ باقی جنگجوؤں کا تعلق وسطی ایشیائی ممالک پر توجہ مرکوز رکھنے والی تنظیم اسلامی موومنٹ آف ازبکستان یا پھر افغان طالبان سے ہے۔ بی بی سی نے 6 جنوری 2016ء کو شمائلہ جعفری کی بھی ایک رپورٹ شائع کی تھی، جس کے مطابق افغانستان کی داعش کے ریڈیو کی نشریات پاکستانی علاقوں میں سنی جانے لگیں تھیں۔ مختلف دیگر رپورٹوں کے مطابق اس FM ریڈیو کی نشریات پاکستان کے قبائلی علاقوں کے علاوہ خیبر پختواخوا کے شہری علاقوں میں بھی سنی جانے لگی ہیں۔

شمائلہ جعفری ہی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے محکمہ داخلہ نے ایک مراسلہ چیف سیکرٹری پنجاب، پولیس کے اعلٰی حکام اور وزیر اعلٰی کے سیکرٹری کو بھجوایا تھا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ دولت اسلامیہ نے پاکستان میں بھرتیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، خاص طور پر قبائلی علاقوں میں موجود پناہ گزین کیمپوں میں مقیم لوگوں کو 30 سے 50 ہزار روپے ماہوار تنخواہ پر بھرتی کرنے کے بعد ان لوگوں کو افغانستان بھیجا جاتا ہے، جہاں انہیں برین واش کرنے کے ساتھ ساتھ جدید اسلحہ اور دھماکہ خیزمواد استعمال کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ بھرتی ہونے والے افراد کی تربیت کے لئے دولت اسلامیہ نے پراپیگنڈا پر مبنی لٹریچر اور ویڈیو سی ڈیز بھی جاری کی ہیں، تاکہ پاکستان سے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اس دہشت گرد تنظیم میں شامل کیا جاسکے۔ ان ویڈیوز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی جنگجو مارا جائے تو اس کے خاندان کی کفالت کی جائے گی۔ اس رپورٹ کے مطابق متعدد شدت پسند گروپ جیسے اسلامک موومنٹ ازبکستان، ترکستان اسلامک موومنٹ، افغانستان میں موجود ازبک اور چیچن ملیشیا، احرار الہند، جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی وغیرہ بھی دولت اسلامیہ کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان کے زیادہ تر کمانڈروں نے بھی دولت اسلامیہ میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اگرچہ یہ بات کہی ہے کہ پاکستان میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کا باقاعدہ تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں ہیں، تاہم 2015ء سے لے کر اب تک پاکستان کے مختلف شہروں میں بلکہ تمام صوبوں اور قبائلی علاقوں میں بہت سی دہشت گرد کارروائیوں کی ذمہ داری داعش کی طرف سے قبول کی جا چکی ہے۔

گذشتہ رمضان شریف میں ہونے والی دہشت گردی کی بیشتر کارروائیوں کی ذمہ داری داعش ہی نے قبول کی ہے، اس سلسلے میں خاص طور پر پارا چنار میں ہونے والے بم دھماکوں کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے، جہاں سے جنرل آصف غفور کے مطابق داعش کے کچھ کارندے گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ یہ ہے وہ پس منظر جو ہمیں پاک فوج کے تازہ ترین اعلان اور فیصلے کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاک فوج کی طرف سے شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف زمینی آپریشن خیبر فور لانچ کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے، جو افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کی طرف سے پارا چنار کے خصوصی دورے اور وہاں کے عوام کے مطالبات سے بڑھ کر ان کے ساتھ حسن سلوک کی توجیہ کرتا ہے۔ ہم ایک قدم اور آگے بڑھائیں تو افغانستان کے معاملے میں روس، چین اور پاکستان کا بڑھتا ہوا تعامل ہماری سمجھ میں آسکتا ہے۔ ہم ابھی مختلف رپورٹوں میں یہ بات دیکھ چکے ہیں کہ افغانستان میں داعش کی توجہ پاکستان، چین اور مرکزی ایشیا کی ان ریاستوں کی طرف زیادہ ہے، جو سوویت یونین کا حصہ رہی ہیں اور روس ابھی تک ان کے بارے میں بہت حساسیت رکھتا ہے۔ اگرچہ چین، روس اور پاکستان کی قربتوں کی اور بھی اہم وجوہات ہیں، لیکن ہم یہ امر نظر انداز نہیں کرسکتے کہ یہ قربتیں فقط تجارتی اور اقتصادی حوالے سے نہیں ہیں بلکہ فوجی اور عسکری حوالے سے بھی ہیں۔ علاوہ ازیں افغانستان کے حوالے سے تینوں ملکوں کے مابین کئی ایک نشستیں ہوچکی ہیں۔

ہم نے حال ہی میں ایک کالم ’’پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے اشارے‘‘ کے عنوان سے زیر بحث موضوع کے حوالے سے چند اہم نکات قارئین کی خدمت میں پیش کیے تھے اس سلسلے میں چند امور اپنے قارئین کو ایک مرتبہ پھر یاد دلاتے ہیں۔
* 30 جون 2017ء کو پاکستان کے دفتر خارجہ میں وزیراعظم کی صدارت میں خارجہ پالیسی کو ریویو کرنے کے لئے ایک میٹنگ منعقد ہوئی۔ اس میٹنگ میں وزیراعظم کو خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی، عالمی اور علاقائی سطح پر نئے ابھرتے ہوئے منظر نامے سے بھی آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم کے میڈیا آفس نے اس حوالے سے جو بیان جاری کیا ہے، اس کے مطابق وزیراعظم نے چین کے ساتھ تزویراتی شراکت داری، سی پیک کا آغاز، امریکہ سے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ، روس کے ساتھ مضبوط تعلقات، مرکزی ایشیا کے ساتھ بہتر ہوتے ہوئے پاکستان کے تعلقات اور شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی رکنیت پر اطمینان کا اظہار کیا۔
* پاکستان اور روس تاریخی طور پر ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں اور پاکستان نے گذشتہ اپنی پوری تاریخ میں کمی بیشی کے ساتھ ہمیشہ امریکہ کے اتحادی کا کردار ادا کیا ہے، لیکن حالات تبدیل ہونے کے بعد 2016ء میں پاکستان اور روس نے پہلی مشترکہ فوجی مشقوں کا اہتمام کیا، جس کا نام فرینڈشپ 2016ء رکھا گیا تھا۔ یہ نام علامتی طور پر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اشارہ کر رہا ہے کہ 2016ء سے روس اور پاکستان کے مابین ایک نئی فرینڈشپ کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔

* 28 دسمبر 2016ء کو پاکستان، روس اور چین کے مابین ایک کانفرنس ماسکو میں منعقد ہوچکی ہے۔ اس سہ فریقی کانفرنس کا اصل موضوع افغانستان ہی تھا۔ چنانچہ اس بیٹھک کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں تینوں ملکوں نے افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کیا۔ نیز افغانستان کی بگڑتی ہوئی سکیورٹی کی صورت حال پر متنبہ کیا۔ اس سلسلے میں روسی ترجمان ماریہ زخاروف نے کانفرنس کے بعد کہا کہ تینوں ممالک نے کابل حکومت اور طالبان کے درمیان حائل رکاوٹوں کو ہٹانے کے لئے لچکدار رویہ پر بھی اتفاق کیا ہے۔
* نیوز ڈیسکن کی ایک رپورٹ جو 25 فروری 2017ء کو شائع ہوئی، میں روس کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے روابط کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سرد جنگ کے تلخ مخالفین کے مابین قربت کے شواہد نظر آرہے ہیں۔ ایشیا میں سیاسی اور تزویراتی فضا کی تبدیلی نے دونوں ملکوں کو قریب آنے پر مجبور کر دیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مبصرین کے نزدیک اس قربت کی بنیادی وجہ پاک چین تزویراتی روابط ایک طرف اور چین روس تزویراتی روابط دوسری طرف ہیں۔ روس اور پاکستان کو قریب لانے میں چین نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
ان حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ داعش کے خلاف پاکستان نے جو حکمت عملی تیار کی ہے، ’’خیبر فور‘‘ اس کا فقط ایک اظہار ہے۔ خیبر فور درحقیقت اس امر کا اعلان ہے کہ پاکستان اپنے خلاف پنپتی ہوئی دہشتگردی کی ایک نئی جنگ جو داعش کے عنوان سے اس پر مسلط کی جائے گی، سے پوری طرح باخبر ہے۔ علاوہ ازیں چین اور روس کو بھی اس کا پوری طرح ادراک ہے۔ چین، روس اور پاکستان کے مابین اقتصادی تعاون کو بھی داعش کی بڑھتی ہوئی قوت سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ شمالی اور مشرقی افغانستان میں داعش کو جس انداز سے مختلف صوبوں میں بڑھنے، پھیلنے اور مضبوط ہونے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ اسے تینوں ممالک نظرانداز نہیں کرسکتے۔ نیز داعش کے حربے بیک وقت تینوں ممالک کے لئے خطرے کا باعث ہیں۔ رہا امریکہ اور بھارت کا کردار تو وہ آہستہ آہستہ دنیا کے لئے واضح ہو جائے گا، جبکہ ان تینوں ممالک کے لئے بالکل واضح ہوچکا ہے، تینوں ممالک کے درمیان بیٹھکیں اور قربتیں اسی ادراک کی غماز ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button