پاکستان

سعودی فوجی اتحاد کے ٹرمز آف ریفرنس اگلے ماہ منظر عام پر آئیں گے، خواجہ آصف

شیعیت نیوز: وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کو یقین دہائی کروائی ہے کہ پاکستان ایسے اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا جو کسی اسلامی ملک کے خلاف ہو۔ قومی اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی انتظامیہ سعودی فوجی اتحاد کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) اگلے ماہ منظر عام پر لائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی اتحاد جس کی سربراہی سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کریں گے، کے ٹی او آرز اور اغراض و مقاصد پارلیمنٹ میں پیش کیے جائیں گے اور اس کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ پاکستان اتحاد کا حصہ بنے گا یا نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شیریں مزاری کی جانب سے پیش کیے گئے توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے مکہ اور مدینہ کے 2 مقدس مقامات کے تحفظ اور تقدس کے لیے سعودی عرب کی زمین کی حفاظت کا عہد کیا ہے لیکن ہم کسی ایسے تصادم کا حصہ نہیں بنیں گے جو ایران سمیت کسی بھی مسلم ملک کے خلاف ہو‘۔

خیال رہے کہ شیریں مزاری کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے دیگر رہنما اسد عمر، غلام سرور خان، عائشہ گلہ لئی اور ڈاکٹر عارف علوی نے بھی اس معاملے پر بات کی اور اتحاد کے ٹی او آرز اور اغراض و مقاصد جانے بغیر پاکستانی رکنیت پر تشویش کا اظہار کیا۔ واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے واک آؤٹ کے بعد پی ٹی آئی اس معاملے کے خلاف آواز بلند کرنے والی واحد سیاسی جماعت ہے جبکہ حزب اختلاف کے دیگر رہنما اس معاملے پر خاموش رہے ہیں۔

وزیر دفاع نے ایوان کو آگاہ کیا کہ سعودی حکومت آئندہ ماہ مئی میں ایک بڑا اجلاس منعقد کرے گی جہاں ٹی او آرز سامنے لائے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم نواز شریف اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف اس اجلاس میں شرکت کریں گے‘۔ اجلاس کو ’رسمی اتحاد‘ کا نام دیتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ سعودی سربراہی میں یا پاکستانی سربراہی میں اسے 41 مسلم ممالک کا اتحاد قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان یہ بات طے ہے کہ اتحاد جب کبھی قائم ہوا اس کی سربراہی راحیل شریف کریں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹی او آرز کے سامنے آنے کے بعد سابق آرمی چیف این او سی کے لیے باقاعدہ درخواست دیں گے جو کسی بھی ریٹائرڈ سرکاری افسر کو کسی اور جگہ کام کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ خواجہ آصف کے مطابق ’ریٹائرڈ آرمی افسران کو ایک طے شدہ طریقہ کار کے تحت این او سی جاری کیا جاتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ سال پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے یمن-سعودی تنازع پر متفقہ طور پر قرارداد پاس کی تھی جس کے مطابق پاکستان کسی ایسے اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا جو کسی دوسرے مسلمان ملک کے خلاف ہو اور سعودی اتحاد کے معاملے پر بھی ہم اس قرارداد کی پاسداری کریں گے‘۔

انہوں نے ایوان کو یقین دہانی کروائی کہ اگر کسی مسلم ملک کے خلاف اتحاد قائم ہوتا ہے تو ہم ثالث کا کردار ادا کریں گے۔ تاہم خواجہ آصف کی مزید وضاحت سے قبل ہی پیپلز پارٹی کی ڈاکٹر شازیہ ثوبیہ نے ان کی توجہ کورم کے نامکمل ہونے کی طرف دلائی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ڈاکٹر شیریں مزاری نے سوال اٹھایا تھا کہ پاکستان اتحاد کے ٹی او آرز جانے بغیر اس کا حصہ کیوں بنا؟

ڈاکٹر شیریں مزاری کے مطابق پاکستان کو ایسے فوجی اتحاد کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ماضی میں بھی پاکستان فوجی اتحادوں کا حصہ بننے کی بھاری قیمت ادا کرچکا ہے، جن میں روس کی افغانستان میں دراندازی اور نائن الیون کے بعد افغانستان میں نیٹو الائنس کا داخلہ شامل ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اتحاد میں شامل 41 میں سے 10 ملک پہلے ہی یمن کے خلاف اتحاد قائم کر چکے ہیں اور اگر پاکستان اس میں شامل ہوتا ہے تو کیا وہ یمن کے خلاف اتحاد کا حصہ نہیں بن جائے گا۔

پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کا کہنا تھا کہ سعودی اتحاد میں شامل ہونے کا حکومتی فیصلہ ایک اہم فیصلہ ہے جسے یوں آسانی سے نہیں لیا جانا چاہیے تھا اور یہ پاکستانی عوام کے ساتھ ناانصافی ہوگی اگر یہ فیصلہ کرتے وقت پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ عارف علوی کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی فوج کا کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال برداشت نہیں کرسکتا، یہ ایک خطرناک معاملہ ہے، ہمیں کسی خفیہ اتحاد کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ غلام سرور خان نے کہا کہ سعودی عرب پاکستان کا برادر ملک ہے اور ایران برادر ملک نہ بھی ہو تو قریبی ہمسایہ ہے، ہمیں ایران کے خلاف کسی اقدام کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button