مقالہ جات

ڈاکٹر شہید اور میں

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو میں نے کبھی نہیں دیکھا، ان کے ساتھ کام کیا اور نہ ہی ان سے ملنے کا موقع نصیب ہوا۔ ان کے ساتھیوں اور رفیقوں سے جب بھی ان کا تذکرہ سنتا ہوں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے، سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ وہ کیسا انسان تھا، جس نے اکیلے اتنے کام کئے اور آج ہم سب ملکر بھی وہ کام انجام نہیں دے پا رہے۔ ڈاکٹر صاحب کی برسی کی مناسبت سے اکثر ان کے مزار پر حاضری دینے کا موقع ملا اور ہر بار اپنے آپ کو ضمیر کے کٹہرے میں پایا ہے اور سچ پوچھیے تو ہر بار اپنے آپ کو مجرم پایا ہے۔ اس بار تو مزار پر زیادہ دیر بیٹھا بھی نہیں گیا۔ اسکاوٹ سلامی ختم ہوئی اور خطابات کا سلسلہ شروع ہوا، اس دوران ڈاکٹر صاحب کی خدمات اور افکار پر بات شروع ہوئی تو ہر لفظ اندر سے کاٹ رہا تھا، ضمیر ملامت کر رہا تھا کہ تیری زندگی کے ہر گوشے کا ڈاکٹر صاحب کے افکار اور اعمال سے دور تک کا واسطہ نہیں۔ یوں مزار سے اٹھا اور سیدھا قبرستان کے ساتھ بنائے گئے پنڈال میں جا کر بیٹھ گیا، جہاں بعد میں سمینار ہونا تھا، لیکن اسپیکر کی آواز تھی کہ یہاں بھی کانوں سے مسلسل ٹکرا رہی تھی اور میرے منافقانہ طرز عمل کو جھنجھوڑ رہی تھی۔

اپنے تضاد کو چھپانے کیلئے کئی تاویلیں بھی پیش کیں، لیکن سوالات تھے کہ مسلسل میرے ذہن سے ٹکرائے جا رہے تھے، اپنے آپ سے سوال کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی پوری زندگی عمل اور تحریک سے عبارت تھی اور میں اس کا نام لیوا مسلسل بہانے اور جواز تراشتا ہوں، آخر کیا وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے پوری زندگی آئی ایس او کو بطور ٹول استعمال نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اس شجرہ طیبہ کی آبیاری کی، کبھی تنظیم کو اپنی ذات کیلئے استعمال نہیں ہونے دیا، کبھی گروپ نہیں بنایا، کبھی یہ نہیں سوچا کہ میرا اثر و رسوخ زیادہ ہو، مرکزی صدر اور مرکزی کابینہ کے احباب پر میری سوچ مسلط ہو، کبھی نہیں سوچا کہ مرکزی صدر اور تنظیم قومیات سے نکل کر سوچیں یا تنظیم کا ایسا عمل جو مرکزیت کی کمزوری کا باعث بنے۔ لیکن کیا ہوگیا کہ بطور سینیئر اور سابق مرکزی رکن کابینہ ہونے کے باوجود آج میرے اندر یہ سوچ پروان چڑھنے لگی ہے کہ تنظیم کو قومیات میں کوئی فعال کردار ادا نہیں کرنا چاہیے، مرکزی صدر اور پوری کابینہ کے ہر کام میں میری سوچ کا عمل دخل ہو، وہ وہی کریں جو میں چاہتا ہوں۔ تنظیم کے اندر میرے ہم فکر احباب زیادہ بنیں اور جو ہم چاہیں وہی ہو۔ ڈاکٹر صاحب کی سوچ اور عمل کا محور تو عشق خمینی تھا اور میرے عشق کا محور عملاً کچھ اور ہے۔

سفیر انقلاب کو پڑھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی زندگی بھر یہی کوشش رہی کہ ملت متحد ہو، تمام تر برے حالات کے باوجود مرکزیت قائم رہے، ہدف کی طرف آگے بڑھیں، روکاوٹوں کو عبور کریں، شرح الصدر پیدا کریں اور قافلہ منزل کی جانب رواں دواں رہے، ملت کے اندر رہ کر کام کریں، تقسیم در تقسیم سے بچیں، چھوٹی غلطیوں سے حتی الامکان درگزر کریں، لیکن نہیں معلوم کیوں یہ باتیں میرے اندر کو چھلنی کر جاتی ہیں، جب دیکھتا ہوں کہ میرا عمل اور ہدف ڈاکٹر صاحب کے قریب سے بھی نہیں گزرتا۔ اس بار ڈاکٹر صاحب کے مزار پر اس نتیجہ پر بھی پہنچا کہ مجھ جیسے آدمی کو اس مقدس جگہ پر نہیں آنا چاہیئے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں اپنے آپ کو اور دوسروں کو دھوکہ دے رہا ہوں۔ کیوں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کر رہا ہوں۔ میری اس ساری پریکٹس کا فائدہ کس کو ہے؟، بلآخر مذکورہ منفی سوچ اور عمل سے کیا حاصل کر پاوں گا۔

اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ ایسا محسوس ہوا کہ ڈاکٹر صاحب مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہے ہیں، میں پنڈال سے اٹھا اور سیدھا دوبارہ مزار کی طرف آیا، مجھے محسوس ہوا کہ ڈاکٹر صاحب جیسے مجھے سے پوچھ رہے ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اس روئے زمین پر آئے، لیکن ان میں ایک میں بھی اختلاف پیدا نہ ہوا۔ سنو!، اس کی وجہ ایک ہی تھی کہ تمام انبیاء کا مقصد اور محور ذات خدا تھا، ان کا ہر عمل خدا کیلئے تھا، ہر نبی نے اپنے سے پہلے آنے والے نبی کی سچائی کو تسلیم کیا اور اس کی تصدیق کی۔ ان کی تعلیمات اور حق پر ہونے کی توثیق کرتے ہوئے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا۔ اگر تم بھی چاہتے ہو کہ نجات پا جاو تو اپنے ہر عمل کو اللہ تعالٰی کی ذات سے مشروط کر دو۔ پھر یقین مانو کبھی بھی تمہارے اندر یہ سوچ پیدا نہیں ہوگی کہ تم آئی ایس او کو بطور ٹول استعمال کرو، اپنا اثر و رسوخ پیدا کرو، تمہاری گروپنگ یا لابنگ ہو، یا تمہاری سوچ کا عکس نظر آئے۔ اللہ کے ساتھ اپنے کاموں کو نسبت دو، تم اس عذاب سے نجات پا جاو گے۔

مجھے محسوس ہونے لگا کہ ڈاکٹر صاحب مجھے کہہ رہے ہیں کہ میری زندگی کا محور و مرکز ایک ہی تھا اور وہ تھا اللہ تعالٰی کی خوشنودی، اگر دنیا کے طلبگار بنو گے، ظاہری چیزوں پر دھیان دو گے تو اپنے محور سے ہٹ جاو گے۔ پھر پستی تمہارا مقدر ٹھہرے گی، آج عہد کرو کہ تمارے ہر کام کا مقصد ذات خدا ہوگا، عشق خدا ہوگا، خوشنودی خدا ہوگی، تم آج کے بعد بندگان خدا کی مدد و نصرت کرو گے، بھٹکی ہوئی انسانیت کی داد رسی کیلئے عملی اقدامات کیلئے آمادہ ہوگے، قومیات میں اپنا کردار ادا کرو گے، بہانے اور جواز نہیں تراشو گے، اپنی اصلاح کیلئے ہر وقت خود احتسابی کا ترازو ساتھ رکھو گے اور اپنے اعمال کو ہر وقت اس میں تولو گے۔ بس اسی کے ساتھ ہی مجھ سے مزید نہ سنا گیا اور یوں مزار کے احاطے سے نکل کر باہر آگیا اور اللہ سے دعا کی کہ اے خدا! تجھے اس شہید کا واسطہ میرے ظاہر اور باطن کو ایک کردے۔ آمین

متعلقہ مضامین

Back to top button