پاکستان

پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا دہشت گردی کو مذہب سے جوڑنے پر اصرار

 شیعیت نیوز: پی پی پی اور پی ٹی آئی نے صرف مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف مجوزہ فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کے لئے ’’اچھے اور برے دہشت گردوں‘‘ کی تشریح کے حق میں ہاتھ ملا لیے ہیں۔ تاہم جمعیت علمائے اسلام (ف)اور جماعت اسلام مسلم لیگ نواز کی حکومت کی جانب سے تیار کیے گئے آئینی مسودے کی مکمل حمایت کر رہے ہیں جس میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ دہشت گرد خواہ کسی بھی تنظیم سے تعلق رکھتا ہو اس کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلایا جائے جبکہ پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ دہشت گرد کی تشریح کرتے ہوئے ’’مذہب‘‘ کو بھی شامل کیا جائے جیسا کہ 21 ویں ترمیم کے معاملے میں ہوا تھا، جے یو آئی اور جماعت اسلامی اصرار کر رہےہیں کہ یہ ان کے لئے ناقابل قبول ہوگا کہ دہشت گردی کو مذہب سے جوڑا جائے جیسا کہ مغرب میں کیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جمعہ کو فوجی عدالتوں کے دوبارہ قیام کے معاملے پر تبادلہ خیال کے لئے ہونے والے اجلاس کو مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ وہ ا س مسئلے پر آصف علی زرداری سے پہلے ہی تبادلہ خیال کر چکے ہیں اور وہ بھی اس پر رضامند ہیں کہ دہشت گردوں کی تشریح کرتے ہوئے ’’مذہب‘‘ کا کوئی ذکر نہیں ہونا چاہیے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن سے اس مسئلے پر ایک مرتبہ پھر بات کریں گے، پیپلز پارٹی نے کہاہے کہ اس معاملے پر اے سی پی میں تبادلہ خیال کیا جائے گا جو پارٹی نے چار مارچ کو طلب کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے نمائند و ں کا اصرار تھا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کے لئے دہشت گرد کی تشریح کرتے ہوئے ’’مذہب‘‘ کا ذکر ضرور ہونا چاہیے۔ 21 ویں آئینی ترمیم میں دہشت گرد کی تشریح کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کے لئے ان دہشت گردوں کو دہشت گردی کی تعریف سے باہر رکھا گیا تھا جو بلوچستان اور کراچی میں ریاست کے خلاف لڑ رہے تھے اور بڑے پیمانے پر قتل عام میں ملوث تھے۔ حکومت نے جو آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ ماضی میں دہشت گردوں کو اچھے اور برے میں تقسیم کرنے کے عمل کو ختم کردیا جائے۔ ممکنہ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کی تشریح میں ’’ریاست کے خلاف سنگین اور پرتشدد دہشت گردی کے اقدامات‘‘ کو بھی شامل کر لیا جائے اور  لفظ ’’مذہب‘‘ کو بھی شامل رکھا جائے۔تاہم جے آئی (ف) اور جماعت اسلامی نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ ہر طرح کے دہشت گردوں کو دہشت گردی کی تعریف میں شامل کیا جائے جیسا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز حکومت نے کیا ہے۔ دو سال تک کام کرنے والی فوجی عدالتوں نے جس 21 ویں ترمیم کے تحت کام کیا اس میں کہا گیا تھا کہ صرف ان دہشت گردوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے گا جو کسی مذہب یا فرقے کا نام استعمال کرنے والے تنظیم یا گروپ سے تعلق رکھتے ہوں ۔اس سنگین امتیاز کی وجہ سے ایم کیو ایم سے تعلق والے یا بلوچستان کی دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کا کوئی مقدمہ جنوری 2015 سے جنوری 2017 تک فوجی عدالتوں میں نہیں چلایا گیا۔ مستقبل کی فوجی عدالتوں کے لئے حکومت نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ ان مشتبہ دہشت گردوں کے مقدمات فوجی عدالتوں کو بھیجے جاسکتے ہیں ’’جو دعوی کریں یا ان کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ ان کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم یا گروپ سے ہے اور جو پاکستان کے خلاف جنگ کرتے ہیں یا ہتھیار اٹھاتے ہیں، یا پاکستان کی مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں یا سرکاری ملازمین یا کسی سول یا فوجی تنصیب پر حملہ کرتے ہیں ، یا تاوان کے لئے کسی کو اغوا کرتے ہیں یا کسی کی موت یا اس کو زخمی کرنے کا باعث بنتے ہیں یا جو دھماکا خیز مواد، ہتھیار، آلات، خودکش جیکٹس رکھتے، بناتے، ذخیرہ کرتے یا اس کی نقل وحمل کرتے ہیں یا دہشت گردی کے لئے کوئی گاڑی تیار کرتے یا استعمال کرتے ہیں، اس دفعہ کے تحت غیرقانونی سرگرمیوں کے لئے غیرملکی یا مقامی ذرائع سے فنڈنگ حاصل کرتے یا فراہم کرتے ہیں یا ریاست یا عوام کے کسی طبقے کو خوفزہ کرتے ہیں یا پاکستان میں عدم تحفظ یا دہشت گردی کا احساس پیدا کرتے ہیں یا مذکورہ بالا اعمال میں سے کوئی بھی عمل پاکستان کے اندر یا باہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتیں صرف ان لوگوں کے مقدمات سنیں گی جو وفاقی حکومت انہیں بھیجے گی

 

 پی پی پی اور پی ٹی آئی نے صرف مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف مجوزہ فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کے لئے ’’اچھے اور برے دہشت گردوں‘‘ کی تشریح کے حق میں ہاتھ ملا لیے ہیں۔ تاہم جمعیت علمائے اسلام (ف)اور جماعت اسلام مسلم لیگ نواز کی حکومت کی جانب سے تیار کیے گئے آئینی مسودے کی مکمل حمایت کر رہے ہیں جس میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ دہشت گرد خواہ کسی بھی تنظیم سے تعلق رکھتا ہو اس کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلایا جائے جبکہ پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ دہشت گرد کی تشریح کرتے ہوئے ’’مذہب‘‘ کو بھی شامل کیا جائے جیسا کہ 21 ویں ترمیم کے معاملے میں ہوا تھا، جے یو آئی اور جماعت اسلامی اصرار کر رہےہیں کہ یہ ان کے لئے ناقابل قبول ہوگا کہ دہشت گردی کو مذہب سے جوڑا جائے جیسا کہ مغرب میں کیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جمعہ کو فوجی عدالتوں کے دوبارہ قیام کے معاملے پر تبادلہ خیال کے لئے ہونے والے اجلاس کو مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ وہ ا س مسئلے پر آصف علی زرداری سے پہلے ہی تبادلہ خیال کر چکے ہیں اور وہ بھی اس پر رضامند ہیں کہ دہشت گردوں کی تشریح کرتے ہوئے ’’مذہب‘‘ کا کوئی ذکر نہیں ہونا چاہیے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن سے اس مسئلے پر ایک مرتبہ پھر بات کریں گے، پیپلز پارٹی نے کہاہے کہ اس معاملے پر اے سی پی میں تبادلہ خیال کیا جائے گا جو پارٹی نے چار مارچ کو طلب کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے نمائند و ں کا اصرار تھا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کے لئے دہشت گرد کی تشریح کرتے ہوئے ’’مذہب‘‘ کا ذکر ضرور ہونا چاہیے۔ 21 ویں آئینی ترمیم میں دہشت گرد کی تشریح کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کے لئے ان دہشت گردوں کو دہشت گردی کی تعریف سے باہر رکھا گیا تھا جو بلوچستان اور کراچی میں ریاست کے خلاف لڑ رہے تھے اور بڑے پیمانے پر قتل عام میں ملوث تھے۔ حکومت نے جو آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ ماضی میں دہشت گردوں کو اچھے اور برے میں تقسیم کرنے کے عمل کو ختم کردیا جائے۔ ممکنہ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کی تشریح میں ’’ریاست کے خلاف سنگین اور پرتشدد دہشت گردی کے اقدامات‘‘ کو بھی شامل کر لیا جائے اور  لفظ ’’مذہب‘‘ کو بھی شامل رکھا جائے۔تاہم جے آئی (ف) اور جماعت اسلامی نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ ہر طرح کے دہشت گردوں کو دہشت گردی کی تعریف میں شامل کیا جائے جیسا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز حکومت نے کیا ہے۔ دو سال تک کام کرنے والی فوجی عدالتوں نے جس 21 ویں ترمیم کے تحت کام کیا اس میں کہا گیا تھا کہ صرف ان دہشت گردوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے گا جو کسی مذہب یا فرقے کا نام استعمال کرنے والے تنظیم یا گروپ سے تعلق رکھتے ہوں ۔اس سنگین امتیاز کی وجہ سے ایم کیو ایم سے تعلق والے یا بلوچستان کی دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کا کوئی مقدمہ جنوری 2015 سے جنوری 2017 تک فوجی عدالتوں میں نہیں چلایا گیا۔ مستقبل کی فوجی عدالتوں کے لئے حکومت نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ ان مشتبہ دہشت گردوں کے مقدمات فوجی عدالتوں کو بھیجے جاسکتے ہیں ’’جو دعوی کریں یا ان کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ ان کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم یا گروپ سے ہے اور جو پاکستان کے خلاف جنگ کرتے ہیں یا ہتھیار اٹھاتے ہیں، یا پاکستان کی مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں یا سرکاری ملازمین یا کسی سول یا فوجی تنصیب پر حملہ کرتے ہیں ، یا تاوان کے لئے کسی کو اغوا کرتے ہیں یا کسی کی موت یا اس کو زخمی کرنے کا باعث بنتے ہیں یا جو دھماکا خیز مواد، ہتھیار، آلات، خودکش جیکٹس رکھتے، بناتے، ذخیرہ کرتے یا اس کی نقل وحمل کرتے ہیں یا دہشت گردی کے لئے کوئی گاڑی تیار کرتے یا استعمال کرتے ہیں، اس دفعہ کے تحت غیرقانونی سرگرمیوں کے لئے غیرملکی یا مقامی ذرائع سے فنڈنگ حاصل کرتے یا فراہم کرتے ہیں یا ریاست یا عوام کے کسی طبقے کو خوفزہ کرتے ہیں یا پاکستان میں عدم تحفظ یا دہشت گردی کا احساس پیدا کرتے ہیں یا مذکورہ بالا اعمال میں سے کوئی بھی عمل پاکستان کے اندر یا باہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتیں صرف ان لوگوں کے مقدمات سنیں گی جو وفاقی حکومت انہیں بھیجے گی

متعلقہ مضامین

Back to top button