مقالہ جات

’’رد الفساد‘ ‘سے فساد ختم نہیں ہو گا!

تحریر: سید مجاہد علی
پاک فوج نے ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے آپریشن رد الفساد شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے اعلان کے مطابق یہ آپریشن بلاتفریق سب دہشت گردوں کے خلاف کیا جائے گا اور اس کے تحت اس سے پہلے شروع کئے گئے فوجی آپریشنز سے حاصل ہونے والے نتائج کو مستحکم کیا جائے گا۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس نئے آپریشن سے سرحدیں بھی محفوظ ہوں گی۔ دہشت گردی کے خلا ف نیا فوجی آپریشن آج لاہور میں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی سیکورٹی اجلاس میں کیا گیا۔ اس اجلاس میں پنجاب کے کور کمانڈرز، ڈی جی رینجرز پنجاب اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان نے شرکت کی۔ اس سے پہلے وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت کی درخواست پر رینجرز کو پنجاب میں ساٹھ دن کے لئے کارروائی کرنے کا اختیار دیا تھا۔ اس پس منظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ نیا آپریشن دراصل پنجاب میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لئے شروع کیا گیا ہے۔ تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ اس نئے فوجی آپریشن سے پہلے کئے گئے متعدد آپریشنز کے مقابلے میں بہتر نتائج سامنے آسکیں گے۔ یہ ضرور واضح ہو جائے گا کہ پاک فوج کے نئے سربراہ نے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے مؤثر کارروائی کررہے ہیں۔ یہ فیصلہ دراصل عوام تک یہ پیغام پہنچانے کی کوشش بھی ہو سکتا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ دہشت گردی کے خلاف پر عزم اور سرگرم ہیں۔ اس سے قبل جاری آپریشن ضرب عضب کا ذکر آتے ہی اس کا سہرا سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے سر باندھا جاتا تھا۔ اس طرح نئے آرمی چیف کی کارکردگی کا انعام بھی سابق آرمی چیف کو ملتا۔

اس ایک خاص وجہ کے علاوہ نئے نام سے آپریشن شروع کرنے کا اعلان اور فیصلہ نا قابل فہم ہے۔ ملک میں جون 2014 میں آپریشن ضرب عضب بھی انہی مقاصد کے لئے شروع کیا گیا تھا ۔ اور اسی سال پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملہ کے بعد اس کا دائرہ پورے ملک تک پھیلا دیا گیا تھا۔ گزشتہ کئی ماہ سے اس آپریشن کی بے مثال کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا۔ اور یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ اب ملک سے دہشت گردی کا صفایا ہو گیا ہے اور آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ تاہم انہی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک نئے فوجی آپریشن کے آغاز پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ سابقہ فوجی آپریشن اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان میں لگ بھگ تین سال سے جاری آپریشن ضرب عضب بھی شامل ہے۔ آپریشن رد الفساد کا آغاز گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران ملک بھر کے چاروں صوبوں میں یکے بعد دیگرے متعدد دہشت گرد حملوں کے بعد کیا گیا ہے۔ یہ حملے حکومت اور فوج کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کے دعو ؤں کے باوجود کئے گئے ہیں۔ ان سب حملوں سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ نصف سے زیادہ ملک میں جاری فوجی آپریشن کے باوجود دہشت گرد نہ تو کمزور ہوئے ہیں اور نہ ہی انہیں مایوس کیا جا سکا ہے۔ ان کے سہولت کار بھی موجود ہیں اور انہیں مالی وسائل بھی حاصل ہورہے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ عناصر خود کش بمبار تیار کرنے کے لئے تربیت گاہیں بھی چلا رہے ہیں۔

شروع میں ان حملوں کی ذمہ داری افغانستان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی اور یہ دعویٰ بھی سامنے آیا تھا کہ فوج نے افغانستان کے علاقے میں سرحد کے قریب جماعت الاحرار کے تربیتی مرکز پر بمباری کی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ نے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کو سرحد پار کرکے تلاش کرنے اور ختم کرنے کا عزم بھی رکھتا ہے۔ تاہم بعد میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ جنگ قرار دے کر ہمسایہ ملک کے خلاف تند و تلخ بیانات کی شدت کو کم کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ البتہ یہ بات واضح نہیں ہو سکی تھی کہ اس قسم کے بیانات دینے اور پھر ان سے گریز کرنے کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان معاملات میں چونکہ زیادہ تفصیلات جاری نہیں ہوتیں، اس لئے معلومات کے حصول کی باقی ماندہ ضرورت قیاس آرائیوں اور افواہ سازی کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ یہ طریقہ کار دہشت گردی جیسے مسئلہ سے نمٹنے کے لئے مؤثر ثابت نہیں ہو سکا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ خود اپنی صفوں میں چھپے ہوئے دشمن کے ساتھ جد و جہد کا نام ہے۔ اس لڑائی میں روائتی دشمن کی طرح کسی قوت کا تعین کرتے ہوئے منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ اس صورت میں جو معاملات جنگی حکمت عملی کے طور پر اخفائے راز میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ، دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے، انہیں عام کرنا ضروری ہو سکتا ہے۔ اس جنگ میں عوام کی بھرپور شرکت اور تعاون بے حد اہم ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے عوام کو اعتماد میں لیا جائے، انہیں فوجی آپریشن کے غیر واضح مقاصد بتا کر لبھانے کی بجائے، یہ بتایا جائے کہ فوج یا رینجرز کس طرح ان تخریب کاروں تک پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور عام لوگ کس طرح فوج کے اس کام کو آسان بنا سکتے ہیں۔ خاص طور سے شہروں اور آباد علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے عوام کے بھرپور تعاون کے بغیر کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں اگر عام لوگ لاعلم ہوں گے یا بے یقینی کا شکار ہوں گے تو وہ مناسب تعاون بھی فراہم نہیں کرسکیں گے۔ اس جنگ کا اہم ترین پہلو انٹیلی جنس کا حصول ہے۔ یعنی عوام کے تعاون سے دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے والے عناصر کے عزائم پورا ہونے سے پہلے ہی انہیں ناکام بنایا جا سکے۔ یہ مقصد بھی عوام کو شعور دینے، انہیں معلومات فراہم کرنے اور ضرورت پڑنے پر ضروری تربیت دینے کے ذریعے ہی پورا ہو سکتا ہے۔ تب ہی ہر شہری چوکس ہوگا اور اپنے قرب و نزدیک جب بھی کسی مشتبہ شخص کو دیکھے گا یا کوئی ایسی سرگرمی محسوس کرے گا جو غیر معمولی اور مشکوک ہو تو وہ حکام سے رابطہ کرکے سیکورٹی اداروں کی مدد کرسکتا ہے۔ فوج یا دیگر ادارے اگر عوام کو تفصیلات بتانے سے گریز کریں گے تو انہیں بروقت درست نشانے تک پہنچنے میں دشواری ہوگی اور دہشت گرد اپنا کام کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اسی حکمت عملی کا اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ نیا فوجی آپریشن شروع کرنے سے پہلے اس سے قبل جاری آپریشن کو ختم کرنے اور اس کی کامیابیوں کے علاوہ اس کی خامیوں اور ناکامیوں سے بھی لوگوں کو آگاہ کیا جائے تاکہ وہ جان سکیں کہ نئے آپریشن کے تحت کیوں اور کیسے کامیابی کے امکانات روشن ہوں گے۔ آپریشن رد الفساد شروع کرتے ہوئے اس ضرورت کو اہم نہیں سمجھا گیا۔ حاصل معلومات کے مطابق آپریشن ضرب عضب بھی جاری ہے اور بظاہر نہایت کامیاب ہے۔ حالانکہ ان دونوں ملٹری آپریشنز کے اہداف ایک سے ہیں۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ آپریشن ضرب عضب کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ جائزہ بھی پیش کیا جائے کہ اس آپریشن میں کیا مقاصد حاصل ہوئے اور وہ کن معاملات میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس طرح کا دیانت دارانہ جائزہ فوج کو یہ جاننے اور سمجھنے کا موقع دے گا کہ دشمن کے خلاف کارروائی میں اسے کون سے نئے ہتھکنڈے اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے بھی کام کیاجا سکے گا جو گزشتہ کسی آپریشن کے دوران پیش آچکی تھیں۔ اس کے علاوہ ان معلومات سے عوام کا اعتماد بھی بحال ہوگا اور وہ جان سکیں گے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم کتنا آگے بڑھ چکی ہے۔ لیکن اگر چند دہشت گرد حملوں کے بعد پر اسرار اور غیر واضح بیانات کے ذریعے ایک کے بعد دوسرا آپریشن شروع کرنے کا اعلان ہوگا تو عوام میں خوف پیدا ہونا لازم ہے۔ وہ یہ سمجھنے میں بھی حق بجانب ہوں گے کہ فوج اپنی تمام تر کوشش کے باوجود ابھی تک دہشت گردی کے خلاف کامیابی یا جزوی کامیابی حاصل کرنے میں سرخرو نہیں ہو سکی ہے۔ یہ صورت حال کسی طور خوش آئیند نہیں ہو سکتی۔ کسی بھی جنگ میں افواہ سازی نہایت مہلک اور نقصان دہ ہو تی ہے ۔ خاص طور سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں غلط معلومات کی تشہیر ایک ایسی فضا کو جنم دے سکتی ہے جو دہشت گرد عناصر اور ان کے سہولت کاروں کے لئے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔

سابقہ فوجی کارروائیوں کے نتائج سامنے لائے بغیر ایک نئے ملٹری آپریشن کا مژدہ قوم میں کوئی جوش اور ولولہ پیدا نہیں کرے گا۔ یہ اعلان اس لحاظ سے بھی مایوس کن ہے کہ آپریشن رد الفساد بھی فوج کی کارروائی ، مشکوک لوگوں کی گرفتاری یا ہلاکت اور وقفے وقفے سے ان کے مراکز اور اڈے تباہ کرنے کی خبروں سے عبارت ہوگا۔ تو یہ کیسے سمجھ لیا جائے کہ یہ آپریشن ان مسائل کو ختم کردے گا سابقہ فوجی آپریشنز جن کا قلع قمع کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگرچہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس ہفتے کے شروع میں سینیٹ کو بتایا ہے کہ وزیر اعظم نے فوج کو دہشت گردی کے خلاف ہر قسم کی کارروائی کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ لیکن اس بیان سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں رہنما کردار ادا کر رہی ہے۔ پاک فوج اس بیان سے پہلے ہی افغانستان کے خلاف کارروائی کرچکی تھی اور افغان سفارت خانہ کے نمائیندوں کو جی ایچ کیو بلا کر 76 نامزد افراد کو پکڑنے یا پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا چکا تھا۔ اس طرح پہلے سے قائم یہ تاثر مزید مضبوط ہؤا تھا کہ دہشت گرد حملوں کے بعد فوج ہی حرکت میں آتی ہے اور حکومت کے کار پرداز مذمتی بیانات جاری کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ کا بیان یوں بھی غیر متعلق ہے کہ یہ بعد از وقت دیا گیا اور اسے جاری کرنے والے اگرچہ وزیر اعظم کے نزدیک ہیں لیکن وہ خزانہ اور مالی امور کے نگران ہیں۔ ان کا داخلی یا فوجی معاملات سے تعلق نہیں ہے۔ اگر یہ بیان وزیر داخلہ یا وزیر دفاع کی طرف سے آتا تو کم ازکم اس پہلو سے حکومت کی پوزیشن بہتر ہوتی۔ اصولی طور پر تو ملک میں اچانک دہشت گرد حملوں کے بعد وزیر اعظم کو فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے اس صورت حال کے تمام پہلو ؤں پر عوام اور ان کے نمائیندوں کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا۔ دہشت گردی کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کے لئے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے اور واضح اور ہمہ گیر حکمت عملی بنانے اور پھر اسے نافذ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن بد نصیبی سے قومی اسمبلی کو اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان الزام تراشی اور گالم گلوچ کا میدان بنا لیا گیا ہے۔

ملک میں دہشت گردی کے خلاف کسی بھی نئے فوجی آپریشن کے ساتھ ہی یہ بھی لازمی قرار دینا ہوگا کہ ہلاکتوں یا گرفتاریوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے معاشرے میں موجود ان تربیت گاہوں کو ختم کرنا ہو گا جو مسلسل تفرقہ اور نفرت کا پیغام عام کررہی ہیں۔ جب تک دہشت گردی میں ملوث عناصر کو نئے ہم خیال نوجوان ملتے رہیں گے اور ان کے پاس معاشرے میں سہولت کار اور مالی وسائل کی فراہمی کے ذرائع بھی ہوں گے، تو کیسے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ملک کی سیکورٹی فورسز یہ جنگ جیت سکتی ہیں۔ یہ جنگ صرف چند سو یا ہزار لوگوں کامعاملہ نہیں ہے جو راہ راست سے بھٹک گئے ہیں بلکہ یہ ملک میں عام کئے گئے ایک مزاج کا مسئلہ ہے جو نوجوانوں کو انتشار اور تصادم کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہ مزاج چند لوگ مارنے یا فوج کے نئے دستے میدان میں اتارنے سے ختم نہیں ہو سکتا۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بات کرتے ہوئے ، ان کے اڈوں اور تربیت گاہوں کی بات تو ہوتی ہے لیکن یہ بحث نہیں کی جاتی کہ ان لوگوں کو مالی وسائل کون فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ گزشتہ کچھ عرصہ سے بھارت اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے لیکن اس طرح دہشت گردی کے مالی معاونین کی مکمل تصویر سامنے نہیں آتی اور حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ غیر ملکی ایجنسیوں پر الزام لگا کر حکومت اپنی ذمہ داری سے بچنے کا راستہ تو تلاش کرسکتی ہے لیکن اس سنگین مسئلہ کو ختم کرنے کے لئے عملی اقدامات نہیں کر پاتی۔ یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب دہشت گردوں کے مالی وسائل کا واضح نقشہ بنایا جائے گا اور پھر ان ذرائع کو نشانہ بنا کر دہشت گردوں کو ملنے والی امداد سے محروم کیا جائے۔ جب تک اس حوالے سے واضح اور ٹھوس اقدامات دیکھنے میں نہیں آئیں گے، نہ ذہنی تربیت کرنے والی درسگاہیں ختم ہوں گی اور نہ ہی انہیں عملی تربیت دے کر معصوم لوگوں کی جان لینے والے خود کش حملہ آور بنانے کا سلسلہ بند ہوگا۔ یہ کام آپریشن رد الفساد سے نہیں سیاسی عزم اور منظم حکمت عملی بنانے سے ہی پورا ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button