مقالہ جات

پاکستان کے شیعہ قیدی

تحریر: عرفان علی

مادر وطن پاکستان کے ریاستی اداروں میں موجود ’’ضد نظریہ پاکستان عناصر‘‘ کی شیعہ دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ان کے بغض و کینے کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ ان کی سرپرستی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کو کافر کہنے والوں کو پاکستان میں کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ موجودہ ’’شیعہ کافر‘‘ کا تکفیری نعرہ ماضی کے اسی نعرے ’’کافر اعظم‘‘ کا تسلسل ہے۔ ایک جانب شیعہ مسلمانوں کو کمزور کیا جاتا رہا ہے تو ساتھ ہی تکفیریوں کو روز بروز طاقتور بنایا جاتا رہا ہے۔ شیعہ مسلمانوں کے فعال جوانوں اور علمائے دین پر جھوٹے الزامات لگا کر انہیں بدنام کرنا اور پھر انہیں بے بنیاد مقدمات میں پھنسانا، یہ سلسلہ بھی نیا نہیں ہے۔ اگر 1990ء کے عشرے کی بات کی جائے تو تحریک جعفریہ کے اس وقت کے فعال رہنما علامہ حسن ترابی اور علامہ سید حسن ظفر نقوی کو تکفیریوں کے ذریعے جھوٹی ایف آئی آر میں نامزد کیا جاتا تھا، تاکہ شیعہ مسلمانوں کے حق میں اٹھنے والی آواز حق کو دبایا جاسکے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور اب مجلس وحدت مسلمین اس پالیسی کا نیا ہدف ہے۔ قانون کی حکمرانی پاکستانیوں کے لئے ایک ایسا خواب بن کر رہ گئی ہے، جو مستقبل قریب میں بھی شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ قانون کے ساتھ اس سے زیادہ سنگین مذاق کیا ہوگا کہ فعال شیعہ جوانوں، مخیر شیعہ زعماء اور متحرک علمائے دین کے لئے خلاف قانون پالیسی پر عمل کرنے والوں کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کہا جاتا ہے۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ اغوا کاروں کی طرح شب خون مار کر شیعہ جوانوں اور علمائے دین کو غیر اعلانیہ اور غیر قانونی تحویل میں لے لیا جاتا ہے۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرکے کسی کو گھر سے اٹھا لیا جاتا ہے تو کوئی گلی محلے سے غائب کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی صحافتی و معاشرتی اصطلاح میں ان گم کردہ بے گناہوں کو گمشدہ کہا جاتا ہے۔

ایک شیعہ خبر رساں ادارے کے مطابق اب تک تقریباً ایک سو شیعہ مسلمان بشمول علمائے دین غیر قانونی تحویل میں لئے جاچکے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے شیعہ بزنس مین اسد ظہیر کا آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کس کی تحویل میں ہیں؟ ان کا جرم کیا ہے؟ کراچی ہی سے تعلق رکھنے والے حقوق انسانی کے علمبردار سول سوسائٹی کے جواں سال رہنما ثمر عباس کو اسلام آباد سے غائب کر دیا گیا ہے۔ کراچی ہی کے نسیم حیدر اپنے اہل خانہ کے ساتھ کربلائے معلٰی کی زیارت سے پاکستان لوٹے تو انہیں غیر قانونی تحویل میں لے لیا گیا۔ کراچی ہی کے ایک اور شادی شدہ فعال شیعہ جوان کے بوڑھے والدین  نے پریس کانفرنس کرکے بتایا تھا کہ ان کا بیٹا سولہ مہینے سے قانون نافذ کرنے والے ادارے کی تحویل میں ہے، لیکن نہ اسے کسی عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے نہ اہل خانہ کو ملنے کی اجازت ہے۔ صوبہ پنجاب کے شیعہ مسلمانوں کی داستان غم بھی کچھ مختلف نہیں۔ مولانا عقیل خان حصول تعلیم کے لئے مشہد میں قیام پذیر تھے۔ اپنے وطن لوٹے تو بے جرم و خطا غیر قانونی تحویل میں لے لئے گئے۔ ہمارے عزیز دوست ظہیر الدین بابر صاحب بھی ایک عالم دین ہیں۔ ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ چنیوٹ کے اختر عمران اور ان کے بھائی وقار حیدر، سرگودھا کے ملک شبیر حسین جوئیہ اور سدھو پورہ فیصل آباد کے راغب عباس سمیت بہت سے شیعہ خواص اور علمائے دین کو بھی غیر قانونی تحویل میں لے کر گم کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ ملزم ہیں تو عدالت میں پیش کیوں نہیں کئے جاتے اور اگر یہ بے گناہ ہیں (جو کہ واقعاً یہ ہیں) تو انہیں رہا کیوں نہیں کر دیا جاتا۔ پاکستان کی عدلیہ کے بعض ججوں نے اور مقننہ کے ایوان بالا کے چیئرمین رضا ربانی نے ملکی سکیورٹی اداروں کی اس پالیسی پر تنقید بھی کی ہے۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے شیعہ فعال جوان ہیں، جنہیں بے بنیاد مقدمات میں پھنسا کر قید کر لیا گیا ہے۔ لیکن ان کے اہل خانہ اور دوست احباب کی کوششوں سے اتنا ضرور ہوا ہے کہ ان کی گرفتاری ظاہر کر دی گئی اور وہ اب جیلوں میں ایک اور قسم کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ جیل میں ہر نیا قیدی ایک تنگ جگہ میں قید کیا جاتا ہے، جسے جیل کے حکام بیرک ہی کہتے ہیں، لیکن وہ دراصل بند وارڈ ہوتا ہے، جہاں سات آٹھ افراد ایک چھوٹے سے کمرے میں ہوتے ہیں۔ وہاں صفائی ستھرائی نہیں ہوتی، طہارت برقرار رکھنا اور نماز پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک مہینے کے اندر اندر ان قیدیوں کو بیرک میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ پچھلے سال بعض وجوہات کی بنیاد پر مجھے جیل سے متعلق چند معلومات حاصل ہوئیں، ان میں سے ایک یہ کہ کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہوں کے قیدیوں کو بہت جلد بند وارڈ سے بیرک میں منتقل کر دیا گیا، لیکن شیعہ قیدیوں کو بند وارڈ میں ہی رکھا گیا۔ ان امور سے متعلق شعبے کے شیعہ مسئول جو ایک معروف شیعہ رہنما ہیں، ان سے قیدیوں کے اہل خانہ نے ملاقاتیں کیں، ان کی منت سماجت کی کہ قیدیوں کو بیرک میں منتقل کیا جائے، لیکن مذکورہ شیعہ رہنما نے انہیں یہ کہہ کر ٹرخا دیا کہ یہ ان کا کام نہیں ہے، حالانکہ اگر وہ جیل حکام سے کہتے تو بہت آسانی سے یہ کام ہو جاتا۔ بہرحال کسی اور ذریعے سے وہ قیدی بیرک میں منتقل ہو ہی گئے۔

پھر یہ ہوا کہ جیل میں شیعہ قیدیوں نے عزاداری کے ایام میں عزاداری کی تو کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہ سے تعلق رکھنے والے قیدیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ ان کے ہاتھ میں ڈنڈے، پتھر وغیرہ تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں یہ سب کچھ کس نے فراہم کیا تھا؟ سوال یہ بھی ہے کہ جیل حکام کیا کر رہے تھے۔ جیل کی اندرونی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں نے پہلے سے ایسے انتظامات کیوں نہیں کر رکھے تھے کہ ایسا نہ ہوتا۔ اب دوسری سازش یہ کی جا رہی ہے کہ شیعہ قیدیوں کو ان کے بیرک سے دوسرے بیرکوں میں منتقل کر دیا جائے، یعنی جیل کے اندر تکفیریوں کو ان سے تصادم کے لئے تیار کرنے کی سازش۔ یہ مسئلہ دو اہم دینی سیاسی جماعتوں کے افراد کی خدمت میں پیش کیا گیا، جس میں سے ایک تنظیم کے رہنما نے اس مسئلے پر بیان دے کر حکومت کو متنبہ کیا کہ جیل حکام کو اس پالیسی سے باز رکھے۔ جہاں تک غیر قانونی تحویل میں لئے گئے شیعہ علمائے کرام اور فعال جوانوں کے مسئلے پر حکومت سے روابط اور مذاکرات کی بات ہے تو اس پر میری رائے تبدیل نہیں ہوئی ہے کہ حکومت آسروں کا لولی پاپ دیتی ہے، عمل بہت کم کرتی ہے اور خاص طور پر ان سکیورٹی معاملات میں کہ جہاں بے چاری سویلین حکومت کے بھی پر جلتے ہیں اور وہ خود بھی اس مسئلے پر بے بس ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ ان معاملات کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ بھی ہو۔ بعض اوقات حکومت خود بھی سنجیدہ نہیں ہوتی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت کو اپنی تشویش اور غم و غصے سے آگاہ نہ کیا جائے، اتمام حجت کے لئے ایسا کرنا ناگزیر ہوتا ہے، اس عمل کو جاری رکھیں، لیکن حسن ظن خدا سے رکھیں، نہ کہ حکام سے! قبل از وقت فتح کے شادیانے بجانے سے گریز کریں۔ کامیابی پر اللہ کے حضور شکر ادا کریں۔

لیکن اس اہم اور حساس مسئلے پر سب سے زیادہ اہم کردار گم کردہ افراد کے اہل خانہ کا ہوتا ہے۔ میں ان کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو شادی شدہ قیدی ہیں، ان کی بیگمات اور جو غیر شادی شدہ ہیں ان کی والدہ، اپنے شوہر یا بیٹے کی غیر اعلانیہ اور غیر قانونی گرفتاری کا مقدمہ درج کروائیں، پولیس منع کرے تو عدلیہ سے رجوع کریں۔ عدالتوں سے تو ویسے بھی رجوع کریں، کیونکہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لینا عدلیہ کی بنیادی ذمے داری ہے۔ ان شیعہ قیدیوں پر کتنا ہی بڑا اور سنگین الزام کیوں نہ لگا دیا جائے، ان کو قانونی دفاع کا حق پاکستان کے آئین و قانون نے دے رکھا ہے اور یہ کسی کی طرف سے کوئی خیرات یا احسان نہیں ہے، یہ شیعہ قیدیوں کا بنیادی حق ہے۔ اہل خانہ چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ صوبائی عدلیہ کے چیف جسٹس صاحبان کو درخواست ٹی سی ایس کے ذریعے بھیجیں، جن میں انہیں مطلع کریں اور ان سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کریں۔ ساتھ ہی ساتھ یہی متن صدر مملکت، وزیراعظم، وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کو بھی بھیجیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف اور متعلقہ کور کمانڈر کو بھی مطلع کریں اور ان سے بھی اپیل کریں کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کی کاپیاں اپنے پاس محفوظ رکھیں۔ ٹی سی ایس کی وصولی کی رسید جب آجائے تو اسے بھی محفوظ رکھیں۔ اگر ممکن ہو تو درخواستوں کا متن کسی اچھے وکیل سے لکھوائیں۔

صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے متاثرہ خانوادے تاحال یکجا نہیں ہوئے ہیں، صرف چار افراد کے اہل خانہ پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ دیگر گم کردہ شیعہ علمائے کرام کے اہل خانہ اور ان کا آپس میں ارتباط ضروری ہے۔ یہ سب مل کر وکیل کر لیں، کیونکہ مسئلے کی نوعیت ایک جیسی ہے اور سب کیس یکجا ہوسکتے ہیں۔ پھر وکلاء کی قانونی مشاورت سے قانونی جنگ لڑیں۔ اگر ان متاثرہ اہل خانہ کے پاس تگڑے وکلاء کی فیس کے پیسے نہ ہوں تو ملت کے مخیر حضرات اور مجتہدین عظام کے مرکزی وکلاء ان کی مالی مدد کریں۔ اگر یہ متاثرہ اہل خانہ ضروری سمجھیں تو شیعہ قائدین سے مل کر انہیں ایک متحدہ و متفقہ لائحہ عمل پر آمادہ کر لیں کہ اس ایشو کو کھوکھلی بیان بازی کی بجائے قانونی جنگ میں مدد کے لئے استعمال کریں۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس سارے مسئلے میں کلیدی کردار گم کردہ افراد کے اہل خانہ کا ہی ہوگا، کیونکہ قانونی جنگ میں گم کردہ افراد کی طرف سے وہ ہی مدعی ہوں گے نہ کہ تنظیمیں۔ یہی حکمت عملی کراچی سمیت دیگر علاقوں کے متاثرہ اہل خانہ بھی اپنائیں۔ جن علمائے کرام کا تعلق ننظیموں اور مدارس سے ہے، ان کی تنظیمیں اور مدارس کے مسئولین متعلقہ اہل خانہ کو خوف و تنہائی کے احساس سے باہر نکالیں اور انہیں قانونی جنگ پر آمادہ کریں۔ مالی مدد کرسکتے ہیں تو ضرور کریں۔

بحیثیت مسلمان میرا ایمان ہے کہ مشکلات میں اسلام کی روحانی و معنوی تعلیمات سے حسن استفادہ بہت ہی کار آمد ثابت ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ معصومین علیہم السلام سے توسل، ادعیہ، زیارات، نافلہ نمازیں، قرآنی عمل، اذکار سے مدد لیں۔ قیدیوں کی قید سے رہائی کے لئے چہاردہ معصومین علیہم السلام اور عرفائے کرام نے جو دعا یا رہنمائی کی ہے، اس پر عمل کریں۔ اس ضمن میں قرآنی سورتیں طور، حدید، جن اور انفطار (مکمل) اور سورہ یوسف کی آیات ننانوے 99 اور سو (100) اور سورہ روم کی آیات 17 اور 18 کی زیادہ سے زیادہ قرات کریں۔ جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی تعلیم کردہ دعا ’’اللھم بحق العرش و من علاہ۔۔۔۔‘‘، امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی دعا ’’یا مخلص الشجر من بین رمل و طین۔۔۔۔‘‘، دعائے عبرات سمیت متعدد دعائیں اور اذکار اور نافلہ اعمال ہیں، جن کے توسط سے ہم الٰہی مدد حاصل کرسکتے ہیں۔ آئمہ معصومین و دیگر امام زادگان کے حرمین مطہر کے قریب موجود افراد یہ ادعیہ اور نافلہ اعمال حرمین مطہر میں ادا کریں تو بہت ہی خوب رہے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button