آل سعود کا متکبرانہ نخرہ
مشرق وسطی کے کہنہ مشق ماہر ہادی محمدی نے سعودی عرب اور عراق کے حالیہ سیاسی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے: عراق سے سعودی عرب کے نکالے گئے سفیر ثامر السبھان نے کہ جسے خلیج فارس کے امور میں وزیر مشاور کی پوسٹ پر تعینات کیا گیا ہے ، عراق کے وزیر خارجہ ڈاکٹر جعفری کے اس بیان کے بعد کہ اس نے ایرانی اور سعودیہ کے نظریات کو منتقل کر دیا ہے اعلان کیا کہ سعودی عرب کی بقا کے لیے ایران کے ساتھ کسی کی ثالثی کی ضرورت نہیں ہے اور مزید کہا : سعودی عرب کے ساتھ روابط کی بہتری کے لیے ایرانی جانتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کونسے اقدامات کو عملی جامہ پہنانا ہے ۔ ثامر السبھان کہ جو سعودیہ کی اطلاعات میں کام کرتا ہے اور برطانیہ کا تربیت یافتہ ہے ، اس سے پہلے کہ ایران کو جواب دے ، اس بات سے کہ وہ عراق میں ذلیل ہوا ہے اور اس کو مذہبی اور قبایلی فتنے پھیلانے کی فرصت نہیں ملی اور داعش کی نابودی کو وہ عراق کے اہل سنت کی تباہی بنا کر پیش نہیں کر سکا ، بہت چراغ پا ہے ۔
اس نے اپنے ملک کے وزیر خارجہ کے بیانات کے ہمنوا جاہ طلبانہ اور خیالی آرزووں کو ایران کے ساتھ روابط کو بہتر بنانے کی پیشگی شرط اور اس کے مطالبات کے طور پر پیش کیا ہے ، حالانکہ اسے اس ملک کے اندر اور علاقے میں آل سعود کے حالات کی بوسیدگی کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہے ۔ سعودی عرب کے اندر اقتصاد کے بحرانی حالات کہ جس کے تیل کی بیشتر آمدنی سعودی شہزادوں کی جیب میں جاتی ہے اس کے ساتھ ہی شہزادوں کی سیاسی رقابت اور کشمکش کہ جو ایک کودتا کی حد تک آگے جا چکی تھی اور علاقائی سیاست میں اس کی شکست کی لمبی فہرست بھی اس کے ساتھ ہے ۔
آل سعود کے مغربی دوست کہ جو ہر سال دسیوں ارب کے ہتھیار اس قبایلی بادشاہی کو فروخت کرتے ہیں ،وہ یمن میں محمد بن سلمان کی جنگ کو آل سعود کے ویٹنام سے تشبیہ دے رہے ہیں کہ جس نے سعودی نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ آل سعود کہ جو کم سے کم سال ۲۰۰۰ کی ابتدا سے امریکہ کی اسٹریٹیجیک اندازہ گیری میں اور ۱۱ ستمبر کے حوادث کے بعد تکفیری دہشت گردی کے نام سے مشہور ہے عراق میں داعش کی دہشت گردی میں دسیوں ارب ڈالر دینے کے باوجود کہ جس کا مقصد کھلے بندوں اس ملک کی جمہوری حکومت کو نابود کرنا تھا اب وہ داعش کو نابود ہوتے دیکھ رہا ہے ۔اور اس بات سے کہ امریکہ کے ذریعے عراق پر قبضے ،اور آل سعود کی دہشت گردانہ اور وہابیت کی صورت میں مداخلت کا نتیجہ ایران کے نفوذ میں اضافے کی صورت میں نکلا ہے اور فکری اور عملی اعتبار سے اس کے سامنے کوئی راستہ نہیں ہے ۔
شام میں دہشت گردی کا پروجیکٹ بھی کہ جس پر بندر بن سلطان نے منظم طریقے سے کام کیا تھا اور ملک سلمان کے فرزندوں کے توسط سے وہ کام آگے بڑھا تھا وہ بھی دم توڑ رہا ہے ۔ اور وہابیوں کے دہشت گرد اور ان سے مزدوری لینے والے ،یا شام میں القاعدہ کی دوسری شاخیں ،یا جیش الاسلام جیسے لوگ اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں ۔یا آستانہ کے مذاکرات میں مشارکت کے لیے بغیر کسی شرط کے تیار ہو رہے ہیں ۔
۶ سال پہلے سے کہ جب شام میں بحران پیدا کرنے اور اس کا تختہ الٹنے کا پروجیکٹ شروع ہوا تھا ،اخوانیوں ، صہیونیوں اور وہابیوں کی تکون شام میں مغرب کے مفادات کے پیادہ نظام میں تبدیل ہو گئی اور زیادہ تر لوگ کہ جو بشار اسد کو سرنگوں کرنے کی آرزو رکھتے تھے ،اور مغرب کی نظر میں بد ترین ڈکٹیٹروں میں شامل تھے وہ یکے بعد دیگرے سرنگوں ہو رہے ہیں ،اور بشار اسد شام کے لوگوں اور محدود حلیفوں کے بل بوتے پر پایدار اور استوار ہے ، اور یہ ایسا مسئلہ ہے کہ جو سعودی رہنماوں کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے ۔خصوصا ایسے وقت میں کہ جب ٹڑامپ کے آجانے کے بعد ان کی سلطنت اور بادشاہی ایک کرائے کی حکومت میں تبدیل ہو جائے گی ،اور ان کی سلامتی اور بقا ان رشوتوں کی مرہون منت ہو گی کہ جو ان کے پہلے کے اقدامات کے علاوہ بادشاہی کی حفاظت کے اخراجات کے طور پر دینا ہو گی ۔
لبنان میں آل سعود کی شکست اور رسوائی کے طشت از بام ہونے سے وہ اس قدر شرمندہ ہوئےکہ انہوں نے حزب اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ، صدارت کی کرسی میشل عون کو ملی اور حریری نے مجبورا ۱۷ وزیروں کے بدلے اپنی فریکشن کے لیے ۱۳ وزیروں پر قناعت کر لی۔ اور مقاومت کی حکمت عملی اور صہیونی حکومت کے تجاوز کا مقابلہ سعد حریری کی حکومت کے بیان کا رکن بن گیا ۔ اب بھی آل سعود نے تسلیم کیا ہے کہ لبنان کی فوج کو مالی امداد دے کر اور طوعا و کرہا سر حدی علاقوں میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے وسایل فراہم کریں گے ۔
مصر کے ساتھ آل سعود کے تعلقات ایسے ہیں کہ جنرل السیسی ان کے تکبر اور ان کی مداخلت کو نہیں مانتا ، اور تیران اور صنافیر نام کے جزیروں کے سعود عرب کے ساتھ الحاق کا حکم کہ جس کے سلسلے میں سعودی عرب نے مالی امداد کی صورت میں رشوت دی تھی ،آج مصر کے سپریم کورٹ کی طرف سے کالعدم ہو چکا ہے اور مصر کے خصوصی اور حکومتی ٹی وی اور ذرائع ابلاغ نے آل سعود اور وہابیت کے خلاف اور ان کی دہشت گردی کی پرورش کے خلاف بہترین پروگرام تیار کیے ہیں اور مصر بشار اسد کے شانہ بشانہ کھڑا ہے ۔
اردوغان کہ جو آل سعود کا سب سے اچھا حلیف تھا اور دہشت گردی کی پرورش کے پروجیکٹ کا دلال بن گیا تھا تا کہ دہشت گردوں کے عبور کرنے کا راستہ فراہم کرکے مالی رشوت سے بھی بہرہ مند ہو اور علاقے میں اپنا مقام بھی پیدا کر لے اور شام میں بھی حکومت کے کیک میں اپنا اصلی حصہ حاصل کر سکے ، وہ اس وقت صنعت اور سرمائے کے فرار ، کردنشین صوبوں میں سرکاری جنگ کی وجہ سے بد امنی ،ملک کے اندر لاکھوں افراد کو کچلنے اور دبانے ، اور علاقے کی سیاست میں خاص کر عراق اور شام میں اس کے کارنامے کے زیرو ہونے کی صورت حال کا سامنا کر رہا ہے ۔ ایسے حالات میں اردوغان اب قادر نہیں ہے کہ وہ آل سعود کو سہارا دے سکے ، اور آستانے کا اجلاس شام کی تبدیلیوں میں ایک نئی فصل کا آغاز ہو گا جو اس کی پسپائی کی حرکت میں تیزی پیدا کرے گا ۔
آل سعود کے اصلی حامی چاہے برطانیہ ہو یا امریکہ والے انہوں نے آل سعود کو متنبہ کیا ہے اور وصیت کی ہے وہ ایران کے ساتھ کشیدگی کو کم کرے تا کہ علاقے میں شکشت پر شکست سے محفوظ رہ سکے اور حج کے مسئلے میں جو وہ تنہا ہو چکے ہیں کہ جو اللہ کی راہ سے روکنے کا مصداق ہے اس سے باہر آ سکے ۔لیکن آل سعود نے بھی آل صہیون کی طرح اپنی حیات اور بقا کو جنگ ،کشیدگی اور خونریزی سے جوڑ دیا ہے ،وہ علاقائی جد و جہد اور مساعیء جمیلہ کے مقابلے میں نخرے دکھا رہی ہے اور خواب و خیال پر مبنی ،ناجائز مطالبات کو ایران کے روابط کی بہتری کے لیے شرط قرار دے رہی ہے ۔آل سعود کو اپنی پوزیشن اور حیثیت کو سمجھنا چاہیے اور آگ کے ساتھ کھیلنے کے بجائے کہ جس نے ان کے دامن کو جلا دیا ہے ،اپنے آپ کو دہشت گردی کی پرورش اور صہیونیوں کی پیدل فوج کا کردار ادا کرنے سے بچائیں ۔
اگر چہ کویت کے وزیر اعظم کا نائب سعودی عرب کا پیغام تہران کے جلدی ہی لائے گا تا کہ خؒیج فارس تعاون کونسل کی پناہ میں چھپ کر ایران کے سامنے ناجائز اور لا حاصل شرائط رکھیں۔لیکن آل سعود کے لیے بہترین اور سب سے کم خرچ والی چیز یہ ہے کہ جنگ بھڑکانے پر خرچ کرنے ، مداخلت کرنے اور خون ریزی کرنے اور مذہبی فتنے اور تکبر سے کام لینے کے بجائے لبنان کے ماڈل کو اختیار کریں اور عراق ، شام ، لبنان ، مصر اور فلسطین میں جو اس نے تخریبی کردار ادا کیا ہے اس کا تاوان ادا کرے تا کہ وہ ایک قابل قبول اور تعمیری کھلاڑی کی صورت میں سامنے آئے ۔ بشکریہ شفقنا نیوز