مقالہ جات

سعودی عرب اور انتہا پسندی

مشرق وسطی سمیت دنیائے اسلام میں جاری دہشتگردی اور شدت پسندی کے پچھے سعودی عرب کا کتنا ہاتھ ہے ؟کیا سعودی عرب کی اسلامی آئیڈیالوجی دنیا میں شدت پسندی کے فروغ میں مرکزی رول ادا کررہی ہے ؟مضمون نگار نے نسبتا وسیع ریسرچ کے بعد جو کچھ لکھا ہے ضروری نہیں کہ ہمیں اس کے ہرلفظ سے اتفاق ہو ،لیکن اس بات پر کسی قسم کا شک نہیں کہ سعودی عرب کا برانڈ آف اسلام ہی ہے جو تمام شدت پسندانہ نظریات کی ’’اساس و بنیاد ‘‘بنا ہے ۔سکاٹ شین کے مضمون کو انتہائی خلاصے کے ساتھ اردو زبان میں پیش خدمت ہے۔۔ہیلری کلنٹن اور اور ڈونلڈ ٹرمپ بیشتر امور پر متفق نہیں ہیں، لیکن سعودی عرب کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ ہیلری نے ایک بار سعودی عرب کی جانب سے شدت پسندوں کی امداد پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ "سعودی عرب نے پوری دنیا میں’’ انتہاپسند مدارس اور مساجد‘‘ کی بنیاد رکھی جس سے بہت سارے نوجوان لوگ شدت پسندی کی جانب مائل ہوئے "۔جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کو دنیا میں’’ دہشت گردی کا بانی‘‘ قرار دیا ہے۔ امریکہ کی ایک سفارتکارفرح پنڈتFarah Pandithجس نے کئی مسلم معاشروں کو قریب سے دیکھا ہے اور اس نے قریباً 80 ممالک کا سفر کیااس نے گزشتہ سال لکھا تھا کہ ’’مسلمانوں کے اندربرداشت کی جو روایت تھی اسے سعودی عرب کے اثرات نے پارہ پارہ کر دیا ہے اور اگر سعودی عرب نے اپنے اس عمل کو نہ روکا تو اس کے شدید سفارتی، ثقافتی اور معاشی اثرات مرتب ہوں گے‘‘۔
گزشتہ ہفتے میں کوئی کالم نگاراور ٹی وی اینکر ایسا نہیں تھا جس نے اپنے کالم یا پروگرام میں سعودی عرب کو جہادی (دہشتگردانہ)انتشار کا ذمہ دار نہ قرار دیا ہو۔ بل مہر Bill Maherنے HBOپر سعودی پالیسیوں کوقرون وسطیٰ کی یادگار قرار دیا۔ واشنگٹن پوسٹ میں فرید ذکریا نے لکھا کہ ’’سعودی عرب دنیائے اسلام میں ایک عفریت کی پرورش کر رہا ہے۔‘‘یہ بات اب زبان زدِ خاص و عام ہے کہ سعودی عرب نے ایک سخت گیر،متعصب، گروہی، بنیاد پرستانہ اسلام کو ابھارا ہے۔ وہابی ازم کی چھتری تلے اس نے دنیا میں انتہا پسندی کو فروغ دیا جس سے دہشت گردی کا آغاز ہوا۔
دولت اسلا میہ جس نے مغرب میں تشدد کی لہر پیدا کی اور جو ملک در ملک دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے ہے اس کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بھی سعودی عرب کی تعلیمات کا شاخسانہ ہے جو ایک نئے انداز کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ وہابی ازم کیا ہے ؟سعودی عرب جس اسلام کی تبلیغ کرتا ہے اسے وہابی ازم کہا جاتا ہے اس کی بنیاد اٹھارویں صدی کے ایک عالم نےرکھی۔ یہ سنی اسلام کی سخت گیر اورقدامت پرستان شکل ہے۔ اسکی وجہ سےعیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ ساتھ دوسرے اسلامی فرقے بھی بدنام ہوئے ہیں۔
مسلم دنیا کے دل میں واقع سعودی عرب نے مسلسل پانچ دہائیاںاپنی تیل کی دولت کو پانی کی طرح استعمال کیا ہے تاکہ وہ اپنا فکر و فلسفہ پھیلا سکے جس نے آج کی دنیا کو ایک خطرناک، منقسم اور پر تشدد جگہ بنا دیا ہے۔ یہ سعودی عرب ہی ہے جس کی مطلق العنانیت کو مغربی ممالک نے اسلام پسندوںکے مقابلے سپورٹ کیا ہےجس سے انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے مسائل نے جنم لیا ہے ۔ ان ممالک میں امریکہ بھی شامل ہے۔ یہ سب کچھ سعودی ریاست کے اثرات ہیں۔ بروکنگزانسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سکالر میک کانٹس نے کہا ہے کہ "انتہا پسند اسلام کے دائرے میںسعودی باشندے لڑتے بھی ہیں اور لڑاتے بھی ہیں "۔انہوں نے اسلام کا ایک مہلک چہرہ سامنے لایا ہے جس نے مسلمان اور غیر مسلمان کے مابین ایک خط کھینچ دیا ہے وہ اپنے سوا کسی کو مسلمان بھی نہیں سمجھتے۔ انہوں نے جہادیوں کو نظریاتی چھتری فراہم کی ہے۔
میک کانٹ کہتا ہے ” وہ ابھی تک انسداد دہشت گردی میں ہمارے شراکت دار ہیں "میک کانٹسکئی ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تین درجن مفکرین،ماہرین اور حکومتی اہلکاروں میں سے ہیں جن سے اس مضمون کے لیے انٹرویو کیے گئے ہیں۔متنازعہ اہداف سعودی رہنما مغرب سے اچھے تعلقات کے خواہاں رہے ہیں اور یہ باور کراتے ہیں کہ جہادی تشدد(مذہب کی بنیاد پر دہشتگردی)ان کی حکمرانی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے بالخصوص دولت اسلامیہ کے تناظر میں جس نے سعودی عرب میں کئی حملے کیے ہیں۔ 25 حملے تو صرف گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران کیے گئے۔ناروے سے تعلق رکھنے والے ماہر امور دہشت گردیتھامس ہیگمرThomas Hegghammerجو امریکی حکومت کے ساتھ بھی مشاورت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ "سعودی عرب نے جن مذہبی اہداف کی جانب سفر شروع کیا ہے اس کا سب سے زیادہ اثراسلام کے ارتقا پر ہوا ہے جو سست ہو گیا ہے کیونکہ اس نے دنیا کے تقاضوں کے مطابق خود کو تبدیل نہیں کیا "۔
انہوں نے کہا کہ "اسلام میں بیسویں صدی میں جو نئی روح پھونکی گئی اس کا راستہ بھی سعودی عرب نے روک دیا "۔سعودی عرب نے ہر جگہ اپنا جال پھیلانے کی کوشش کی۔ سویڈن میں گوتھم برگ کی مسجد ہو یا چاڈ میں شاہ فیصل مسجد،لاس اینجلس کی شاہ فہد مسجد ہو یا جنوبی کوریا میں سیول کی مرکزی مسجد، یہ تما م مساجد سعودی حکومت،شاہی خاندان،سعودی خیراتی اداروں اور ورلڈ مسلم لیگ سمیت سعودی امداد سے چلنے والے ادارے جن میں ورلڈ مسلم یوتھ،انٹرنیشنل اسلامک ریلیف وغیرہ نے تبلیغ ِ دین کے جذبے کے تحت بنوائی ہیں۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ سعودی عرب نے اربوں ڈالر کی خطیر رقم درجنوں ممالک میں اس مقصد کے لیے خرچ کی جس سے مقامی اسلامی روایات کو سخت دھچکا لگا ہے۔
جنوبی ایشیاء سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ جو سعودی عرب میں کئی سال محنت مزدوری کرتے رہے جب وہ اپنے ممالک میں واپس گئے تو انہوں نے سعودی عرب کے طور طریقے اپنے معاشروں میں لاگو کرنے کی کوشش کی جس سے وہابیت کو فروغ ملا۔ بالخصوص مصر،پاکستان اور دوسرے ممالک میں جہاں لوگ سخت گیر ہو گئے اور جس نے اسلام سے بغاوت کرنے کی کوشش کی اسے مار دیا گیا۔ اثر و نفوذ کی حدود سعودی عرب نے مقامی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے اثر ورسوخ کو بڑھایا مثال کے طور پر افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیامیں سعودی عرب نے مذہبی کلچر کو قدامت پرستی میں بدل ڈالا جہاں پر اب عورتیں میںحجاب میں مرد وں میں داڑکارواج بڑھا ہے۔
یورپ کے وہ ممالک جہاں مسلمان مہاجرین آباد ہوئے ان میں شدت پسندی کی وجہ سعودی اثر و رسوخ ہی ہے۔ جبکہ پاکستان اور نائیجیریا میں جہاں مذہبی تقسیم زیادہ ہے وہاں سعودی پیسے اور اس کے پھیلائے ہوئے نظریات کی وجہ سے مذہب کی بنیاد پر خون آشام واقعات ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے پھیلائے گئے سنی اسلام کی وجہ سے کئی ممالک میں یہودیوں،عیسائیوں،شیعوں،صوفی پرستوں اور دوسرے فرقوں کے مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کر دی گئی اور یہ کام القائدہ،دولت اسلامیہ اور دوسرے پر تشدد جہادی گروپوں کے پلیٹ فارم سے کیا گیا۔ ڈیوڈ اینڈریو وینبرگ جو کہ واشنگٹن کے ادارے Foundation for Defense of Democraciesمیں کام کرتے ہیں اور سعودی عرب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "مسلم اور غیرمسلم کی بنیاد پر تقسیم اس قدر وسیع کر دی گئی کہ وہ لوگ جو باقاعدہ کسی گروپ کا حصہ نہیں ہیں وہ بھی غیر مسلموں کوانسان ہی نہیں سمجھتے اور یہ سب کچھ خدا کے نام پر کیا جا رہا ہے "۔اس کا اثر سعودی عرب میں بھی سامنے آیا ہے جہاں 11 ستمبر 2001 ء کے حملوں میں ملوث 19 ہائی جیکرز میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ 2003 ء میں عراق میں ہونے والے حملے کے بعد سب سے زیادہ خود کش بمبار جو عراق میں بھیجے گئے وہ بھی سعودی عرب سے ہی تعلق رکھتے تھے۔
دولت اسلامیہ میں غیر ملکی جنگجوؤں میں تیونس کے بعدسب سے زیادہ سعودی باشندے شامل ہیں جن کی تعداد 2500 ہے۔ ترکی کے معروف اسلامی مفکر مہمت گورمیز Mehmet Gormezنے ایک انٹرویو میں کہا کہ جب وہ سعودی حکام کے ساتھ جنوری میں ملاقاتیں کر رہے تھے تو انہوں نے ایک ہی روز میں 47 افراد کو پھانسی پر لٹکایا جن میں سے 45 سعودی باشندے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے 10 سے 15 سال تک آپ کے ملک میں اسلام کا مطالعہ کیا۔کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسئلہ آپ کے تعلیمی نظام میں ہے ؟
انہوںنے کہا کہ وہابی تعلیمات تکثیریت، برداشت اور سائنسی علوم سے رغبت کو روکتی ہیں جو ایک طویل عرصے تک اسلام کا خاصہ رہی ہیں۔اور اب تقریباً تمام عالم اسلام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سےمسلم دنیا ایک طرح سے نڈھال ہو چکی ہے۔ یہ بات بھی سعودی حکام کے لیے باعث شرمندگی ہے کہ دولت اسلامیہ نے 2015 ء میں اپنا تعلیمی نصاب ترتیب دینے سے قبل اپنے سکولوں میں سعودی عرب کے نصاب کو ہی اختیار کیے رکھا۔ جیکب اولی ڈورٹ Jacob Olidort جو کہ Washington Institute for Near East Policy میں مفکر ہیں ان کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ نے جن 12 مسلم مفکرین کی کتابوں کو شائع کیا ہے ان میں سے سات کتابیں سعودی اسلام کے بانی 18 ویں صدی کےمفکرمحمد بن عبد الوہاب کی ہیں۔ مسجد الحرام کے (سرکاری)سابق امام شیخ عادل القلبانی نے جنوری میںایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اس بات پر ندامت کا اظہار کیا کہ دولت اسلامیہ کے رہنما جن نظریات کا سہارا لے رہے ہیں وہ ہماری کتابوں اور ہمارے اصولوں سے ہی اخذ کیے گئے ہیں۔
سید حسین نصر جو کہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر ہیں ان کہا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی وہ کارستانیاںجن سے مسئلے نے جنم لیا ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ سعودی عرب کی جانب سےقرآن کا جو انگریزی ترجمہ تقسیم کیا جا رہا ہے اس میں پہلی سورۃ میں خدا کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ "وہ لوگ (یہودی)جن پر تیرا غضب ہوااور جو(عیسائی ) گمراہ ہوگئے "۔ یہاں قوسین میں جن کی طرف اشارہ کیا گیا یہ سراسر اسلامی روایات کی نفی ہے۔ بہت سے امریکی حکام جو کہ انسداد دہشت گردی اور شدت پسندی کے لیے کام کر رہے ہیں وہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی حساسیت کے باوجوداس بات کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ سعودی عرب کا کیا دھرا ہے۔
امریکہ اور سعودی عرب کے مابین انسداد دہشت گردی کے لیے باہمی تعاون میں اضافہ ہوا ہے مثال کے طور پر 2010 میں سعودی عرب نے امریکہ کو بتایا تھا کہ اس کے دو کارگو جہازوں کو تباہ کرنے کا منصوبہ ہے۔ میکانٹس McCantsجو کہ گلوبل اسلام پر سعودی اثرات سے متعلق ایک کتاب لکھ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے امریکی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے لیے امداد کے جو دروازے کھولے ہوئے ہیں اس کا مقصد بھی یہ کہ وہابیت کے بارے میں ہونے والے تحقیقی کام کا رستہ روکا جا سکے۔
ایک سابق امریکی اہلکار جس نے اس جانب توجہ مبذول کروائی وہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی مسلم ممالک کے لیے نمائندہ خصوصیمس پنڈتھPandith تھیں۔ 2009 ء سے 2014ء تک انہوں نے ایسے80 ممالک کا دورہ کیا جہاں پر مسلم کمیونٹی موجود تھی۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سعودی اثرات عالمی سطح پر تباہ کن ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال نیویارک ٹائمز میں بھی اس بارے میں لکھا۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کو انتہا پسند اماموں کی تربیت کو روکنا ہو گا، سعودی عرب کی نصابی کتب اور ترجمے جو نفرت سے بھر پور ہیںان پر پابندی لگانی ہو گی اور سعودی فرقہ جس نے مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی مقامات جو کہ اسلام کی رنگا رنگی کی مثال تھے انہیں تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔
اسلام اور انتہا پسندی کا مطالعہ کرنے والے ماہرین جن میں کئی ممالک کے شدت پسندی کے ماہرین بھی شامل ہیں وہ اپنے اپنے ممالک کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ جہادی تشدد کی صور ت موجودہ انتہا پسندی کی لہر کے پیچھے سعودی عرب کا ہی ہاتھ ہے۔ وہ نکات جن کو اسلامی دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ان میں مشرق وسطی ٰ میںسیکولر اور جابر حکومتیں، مقامی ناانصافیاں اور تقسیم،افغانستان مٰیں روسی مداخلت سے لے کر مسلم ممالک میں امریکی حملے اور عراق میں مداخلت سمیت سب کچھ شامل ہے اور اس مقصد کے لیے دہشت گرد انٹر نیٹ کو پراپیگنڈا کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔20 ویں صدی کے نظریات کو ماڈرن جہادیوں نے خوب استعمال کیا ہے مثال کے طور پر مصر کے سیدقطب، پاکستان کے ابو اعلی ٰمودودی نے سعودی عرب کی مدد کے بغیر بھی مغرب کے خلاف افکار کو ترویج دی۔ اسی طرح القائدہ اور دولت اسلامیہ بھی سعودی حکمرانوں کو بد ترین ریاکار کہتے ہیں۔
رابرٹ ایس فورڈ Robert S. Ford جو کہ شام اور الجیریا میں امریکہ کے سفیر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ "امریکہ ہر وقت کسی شخص،کسی سیاسی جماعت یا کسی ملک کو نشانے پر رکھتا ہے،لیکن یہ اس سے بھی زیادہ پیچیدہ معاملہ ہے میں سعودیوں پر الزام لگانے میں بہت محتاط ہوں "۔جس طرح کہ بہت سوں کی رائے ہے کہ اگر سعودی مذہبی اثر ورسوخ ختم بھی ہو جائے تو ابھی اس کے اثرات بڑے پیمانے پر نہیں ہوں گے۔ کیونکہ سعودی اسلام حکمران کی تابعداری پر زور دیتا ہے وہ کیوں دہشت گردوں کو شہ دے گا کہ وہ قوموں کو تہہ و بالا کر دیں۔بہت سے سعودیان کے تربیت یافتہ علماءمقلدانہ قسم کے ہیں وہ عبادات پر زور دیتے ہیں وہ سیاست سےپرہیز کرتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ سیاسی تشدد پر کسی کو راغب کریں۔ بالخصوص 2003ء کے بعد جب القاعدہ نے سعودی عرب میں حملے کیے تو اس وقت سے سعودی بادشاہت اس خطرے کوبھانپے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف سختی کے ساتھ نمٹ رہی ہے جو تشد د پر اکساتے ہیں۔
انہوں نے دہشت گردوں کی مالی مدد کے ذرائع کم کیے ہیں ۔مغربی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے کئی منصوبوں کو ناکام بنایا ہے۔ سعودی عرب کی وزارتِ مذہبی امور کے مطابق 2004ء سے 2012 ء کے درمیان ایسے 3500 امام برطرف کیے گئے ہیں جنہوں نے انتہا پسند نظریات کی مذمت کرنے سے انکار کیا تھا20 ہزار امام صاحبان کی دوبارہ تربیت کی گئی۔جس کا اعتراف امریکہ کے کمیشن برائے مذہبی آزادی نے بھی کیا کہ اورا س تربیت کو برداشت کی جانب ایک قدم قرار دیا۔
ایک امریکی مفکر جس کی سعودی عرب کے بارے میں خاصی شناخت ہے۔اسے اپنے تحقیقی کام کے سلسلے میں مسلسل سعودی عرب جانا پڑتا ہے اس نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایا کہ اسے یقین ہے امریکہ کے سیاسی بحث مباحثے میں سعودی اثر ورسوخ کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے۔میں اس کا تقابل موسمیاتی تبدیلی سے کروں گا۔ جہاںدرجہ حرارت ایک درجہ بھی بڑھ جائے تو پوری دنیا پر اس کےشدید اثرات مرتب ہوتے ہیں،گلیشئر پگھلنے لگتے ہیںجاندار مرنے لگتے ہیں، یہی حال کئی ممالک میں سعودی تعلیمات کا ہے جن کے بارے میں کوئی پیشنگوئی کی جا سکتی ہے نہ ہی کوئی اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگر یہ بہت گہرے ہیں۔ صدیوں پرانا مخمصہ سعودی عرب کے لیے آخر کیا مشکل ہے کہ وہ ایسے نظریات سے جان خلاصی کر لے جن کے بارے میں دنیاناگواری کا اظہار کرتی ہے۔ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں تین صدیاں پہلے جانا پڑے گا۔
1744ء میںایک اصلاح پسند عالم محمد ابن عبد الوہاب نے محمد ابن سعود کی قربت اختیار کر لی جو کہ جزیرہ عرب میں ایک طاقتور قبائلی رہنما تھے۔ ان دونوں کا اتحادباہمی طور پر سود مند تھا۔ وہاب ،اسلام کے ابتدائی ایام جب نبی کریم ﷺ حیات تھے کا احیاء سترہویں صدی میں چاہتا تھااس مقصد کے لیے اسے فوجی حمایت درکار تھی۔ (اس کے عقائد سلفی ازم سے ملتے جلتےتھے،سلفی ایک قدامت پسند شاخ ہے جو اپنے اسلاف یا اپنے نیک آباؤ اجدا د کی تعلیمات کی پیروی پر زور دیتی ہےاور سمجھتی ہے کہ یہی حق ہے اور اسی کی پیروی کی جانی چاہیے )۔اس کے بدلے میں سعود خاندان کو ایک ایسےاسلامی مفکر کی حمایت ملے گی جو زنا کی مرتکب عورت کو سنگسار ی کی سزا دینے میں شہرت رکھتا ہے۔
واشنگٹن میں امریکن یونیورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر اکبر احمد نے کہا کہ وہاب کا مخصوص اسلام دو تاریخی واقعات میں سب سے پہلا واقعہ تھا جنہوں نے صدیوں بعد سعودی اسلام کی صورت گری کی۔ جسے وہابی ازم یا اسلام کی قبائلی شکل کہا جاتا ہے۔ یہ ایک کٹڑ ماحول کی پیداوار تھا جس میں غیر ملکیوں سے نفرت سکھائی جاتی ہے، درگاہوں اور مقبروں کو بدت قرار دیا جاتا ہے آرٹ اور میوزک کو قبول نہیں کیا جاتا اور یہ اس عالمی اسلام سے قطعی مختلف ہے جس نے بغداد اور قاہرہ جیسے متنوع شہروں کی آبیاری کی۔
دوسرا تاریخی حادثہ 1938 میں ہواجب امریکی کی تیل تلاش کرنے والی کمپنیوں نے سعودی عرب میں دنیا کے تیل کے سب سے بڑے ذخائر کو دریافت کیا۔ تیل کی اس دولت پر عربی امریکی کمپنی ’’آرامکو‘‘ کی اجارہ داری تھی جس نےاس سے بے انتہا دولت کمائی۔ لیکن اس نے ایک ایسے سخت گیر سماجی اور معاشی نظام کو تقویت دی جس نے قدامت پرستانہ اسلام کی آبیاری کی۔ پروفیسر احمد نے کہا کہ جب آپ کے پاس تیل کی دولت آ گئی تودنیا آپ کی طرف لپکی۔ خدا نے آپ کو موقع فراہم کیا کہ آپ دنیا میں اپنا اسلام لا سکیں۔
1964 ء میں جب شاہ فیصل تخت نشین ہوا تو اس نے اسلام کی تبلیغ کا بیڑہ اٹھایا۔ جو مغرب کے ساتھ قریبی تعلقات سمیت کئی معاملوں میں جدت پسند واقع ہوا تھالیکن اس نے بھی وہابی ڈاکٹرین کی تشکیل نو نہیں کی جو کئی ممالک تک پھیل گیا تھا۔سعودی عرب کے سرکاری ہفت روزہ ’’عین الیقین‘‘کی ایک رپورٹ کے مطابق اگلی چار دہائیوں میں سعودی عرب نے صرف وہ ممالک جہاں مسلماں اکثریت میں نہیں تھے وہاں 1359 مساجد،210 اسلامکسینٹر،202 کالج اور 2000 سکول قائم کیے۔ سعودی پیسے سے امریکہ میں 16،کینیڈامیں چار، لندن میڈرڈ،برسلزاور جنیوا میں بھی مساجد قائم ہوئیں۔جبکہ مجموعی طور پر جس میں امام صاحبان اور اساتذہ کی تربیت بھی شامل تھی اس پر کئی ارب سعودی ریال خرچ کیے گئے۔ سعودیہ کی مذہبی تعلیمات کی اس لیے بھی خصوصی اہمیت ہے کہ یہاں نبی کریم ﷺ کی پیدائش ہوئی۔ یہیں پر مسلمانوں کے دو انتہائی متبرک مقامات مکہ اور مدینہ واقع ہیں۔ اس نسبت سے جب سعودی امام روایتی چغے پہن کرمسلمان ممالک بالخصوص افریقہ یا ایشیاء جاتے ہیں یا پھر امریکہ یا یورپ کی مسلمان کمیونٹیز میں جاتےہیں اور جب وہ قرآن کی زبان میں بات کرتے ہیں اور ان کے پاس وسائل کی بھی کمی نہ ہو تو پھر ان کی بات کی اہمیت ہوتی ہے۔
بیسویں صدی میں جیسے جیسے مختلف قومیتیں اور عقائد آپس میں گھلتے ملتے گئے تو عبدا لوہاب کی تعلیمات ناقابل عمل ہوتی گئیں۔ لیکن سعودی حکومت نے اپنے طرز عمل میں کوئی لچک نہیں دکھائی دی۔1980 ء سے سعودی عرب اور امریکہ افغان جنگ کے دوران اکھٹے مجاہدین کی مدد کرتے رہے اور مسلمانوں میںجہادِ مقدس کی ترویج کرتے رہے۔ صدر ریگن نے اوول آفس میں ریش بردار مجاہدین کے ایک وفد کو خوش آمدید کہتے ہوئے انہیں افغانستان کی آزادی کے سپاہی قرار دیا۔ جن کے سماجی اور دینی خیالات میں اورآج کے طالبان میں کچھ زیادہ فرق نہیں تھا۔درحقیقت امریکہ نے 1986 سے 1992 تک "جہادی تعلیم "نامی منصوبے پر 50 ملین ڈالر صرف کیے۔ جس میں افغان بچوں کے لیے ایسی کتب چھاپی گئیں جن میں غیر مسلموںمثلاً روسی فوجیوں کوکافر قرار دے کرانہیں مارنے پر اکسایا گیا۔
نیویارک یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈانا برڈے Dana Burde کے ایک مطالعہ کے مطابق پشتو کی پہلی جماعت کی کتاب میں مجاہد کا لفظ استعمال کیا گیااور اسے جملوں کے ذریعے واضح کرتے ہوئے کہا گیا:” میرا بھائی مجاہد ہے، افغان مسلمان مجاہدین ہیںمیں ان کے ساتھ مل کر جہاد کروں گا۔ کافروں کے خلاف جہاد، ہمارا فرض ہے۔ "ت سے تلوار : احمد کے پاس تلوار ہے وہ اس سے جہاد کرتا ہے۔ گن (ٹوپک )۔ میرے ماموں کے پاس گن ہے وہ اس سے جہاد کرتا ہے۔ ج سے جہاد : جہاد فرض ہے۔سراج جہاد پر گیا ہے وہ ایک اچھا مسلمان ہے۔ د سے دین: اسلام ہمارا دین ہے، محمد ﷺ ہمارے رہنما ہیں۔تما م روسی اور غدارہمارے مذہب کے دشمن ہیں۔ غ سے غیرت : ہر مسلمان اسلام کا محافظ ہے۔افغانستان کے مسلمان کسی کے غلام بننا پسند نہیں کرتے وہ آزادی کا پرچم سر بلند کرتے رہیں گے۔
11/9 کے بعد کا دباؤگیارہ ستمبر کے حملوں کے ایک ماہ بعد سعودی عرب میں امریکہ کے سفیر رابرٹ ڈبلیو اردنRobert W. Jordanامریکہ میں طویل عرصے تک سفیر رہنے والے شہزادہ بندر بن سلطان کے ساتھ سفر پر تھے تو شہزادہ نے ایک مسجد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "میں نے اس کے امام کو نکال دیا ہےکیونکہ وہ حملہ آوروں کی تعریف کر رہا تھا "۔مسٹر اردن جو اب ٹیکساس میں وکیل ہیں انہوں نے کہا کہ القاعدہ کے حملوں کے بعد انہوں نے سعودی حکومت پر دباؤ بڑھایا کہ وہ انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہے۔ میں نے انہیں کہا "جوکچھ آپ اپنے سکولوں میں پڑھاتے اور مسجدوں میں بتاتے ہیں اب یہ آپ کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ اس سے ہماری قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔ امریکہ نے سخت گیر اسلام کی آبیاری کے بعد 1990 میں روسی انخلا اور 11 ستمبر کے حملوں کے بعد اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی۔ لیکن سعودی عرب کے ساتھ گفتگو میں انھوں نے نرم رویہ اپنایا کیونکہ انہیں امریکہ کے لیے سعودی تیل کیاہمیت کا اندازہ تھا۔ اس لیے سعودی عرب نے اصلاح کی جانب جو کوششیں کیں وہ سست روی کا شکار تھیں۔
11 ستمبر کے سانحہ کے بارہ سال بعد جب امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کی گوشمالی بھی کم ہوچکی تھی تو اس دوران سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک شریکInternational Center for Religion and Diplomacyنے ایک مطالعہ کیاجس میں سعودی نصاب کا جائزہ لیا گیا تھا۔تو اس میں یہ بات سامنے آئی کہ اگرچہ انہوں نے متنازعہ اور تشددپر مبنی بہت سے ابواب ختم کیے ہیں مگر اس کے باوجود ابھی بھی قابل اعتراض مواد موجود ہے۔ مگر حکام نے سعودی عرب کی ناراضگکی کے خطرے کے پیش نظر یہ مطالعہ عام نہیں کیا۔ نیویارک ٹائمز نےفریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت اسے حاصل کر لیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ساتویں جماعت کے طلباء کو یہ پڑھایا جا رہا ہے کہ "کافروں کے ساتھ لڑنا اللہ کے احکامات کی بجا آوری ہےاور اللہ اس عمل کو سب سے زیادہ پسند فرماتا ہے۔
اس طرح کی درجنوں باتیں پڑھائی جا رہی ہیں۔ دسویں جماعت کے طلباء کو پڑھایا جاتا ہے کہ "جو کوئی اسلام سے منحرف ہو جائے اسے تین دن کے لیے جیل میں ڈالا جائے اور اگر پھر بھی وہ اپنے کیے پر قائم رہے تو اسے ایک سچے دین سے منحرف ہونے پر مار دیا جائے "۔چوتھی جماعت کو پڑھایا جا رہا ہے کہ غیر مسلموں کو سچ تک رسائی دی گئی مگر انہوں نے اسے جھٹلا دیا جیسا کہ یہودی، انہوں نے اپنا سچ گھڑ لیا اور عیسائیوں کی طرح ہمارے سچ پر توجہ نہیں دی اور وسوسے کا شکار رہے "۔کچھ کتابیں جن کی تیاری اور تقسیم حکومت کے ذمے ہے ان میں سائنس،جدیدت اور خواتین کے حقوق سے انکار کیا گیا ہے۔ اسی طرح روٹری کلب اور لائینز کلب جیسی تنظیموںکویہودیوں کی تحریکیں کہا گیا ہے جو کہ استعماری مقاصد کے لیے کام کر رہی ہیں۔ یہ سب کچھ دسویں جماعت کے طلباء کو پڑھایا جا رہا ہے۔اس طرح کی کتابیں دوسرے ممالک بھی تقسیم کی جاتی ہیں۔
نصابی کتب کی اصلاحات کا عمل 2013 ء سے جاری ہے اور سعودی حکام کے مطابق وہ بیرونی ممالک میں بھی پرانی کتابوں کو تبدیل کریں گے۔ آٹھویں جماعت کی کتاب 2011-2012 کے صفحہ 40 پر لکھا ہے :ہماری زکواۃ کا کون حق دار ہے ؟مجاہدین جنہوں نے اپنی زندگیاں اللہ کی راہ میں وقف کی ہوئی ہیں۔ انہیں اسلحے،کھانے اور دوسری اشیاء کی ضرورت ہےتاکہ وہ جہاد جاری رکھ سکیں۔(اس سے بچوں کو یہ تاثر ملتا ہے کہ مجاہدین کو اسلحہ دینا بھی خیرات کا حصہ ہے۔ مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ مجاہدین کی جگہ دہشت گرد لے چکے ہیں اس لیے بچے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کی مدد اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے )گیارویں جماعت کی کتاب مطبع 2011-2012 کے صفحہ 46 پر درج ہے :یہودی اور عیسائی مبلغین اسلام کی حقانیت سے آگاہ تھے کیونکہ ان کی کتابوں میں انہیں بتادیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے پھر بھی اسلام کو رد کیا۔ اس لیے خدا نہیں کسی صورت معاف نہیں کرے گا۔ (اس کا مطلب ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا مذہب غلط ہے اور وہ خدا کی جانب سے سزا کے مستحق ہیں )عالمی سطح پر سعودی فنڈنگ کے ذریعےوہابی ازم کے فروغ میں کیا کچھ ہو رہا ہے ا سکی صرف ایک جھلک اس مطالعے میں سامنے آئی ہے۔
مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ کئی ممالک میں سعودی عرب نے مدارس کھولے جنہیں وہابی ازم کے فروغ کا ٹاسک دیا گیا ان مدارس کووہابی یونیورسٹیوں میں تبدیل کر دیا گیا جہاں مساجد اور وہابی امام صاحبان کا تقرر کیا گیا جن کا براہ راست کنٹرول وہابی تعلیمی ڈھانچے کے ذمے ہے۔ اس نظریاتی بلڈوزر کی زد میں وہ زمینیں بھی آئیں جہاں مختلف مسالک کے مسلمان صدیوں سے دیگر مسالک اور عقائد کے ماننے والوں کے ساتھ ہم آہنگی سے رہ رہے تھے۔
سید شاہ جو کہ ایک پاکستانی صحافی ہیں اور امریکہ میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں انہوں نے اپنے آبائی گاؤںجو کہ افغان سرحد سے زیادہ دور نہیں ہےپر پڑنے والے اثرات کے بارے میں بتایا کہ وہاں کچھ سال پہلے ایک پاکستانی مبلغ آئے جن کی تربیت سعودی عرب کی امداد سے چلنے والے مدرسے میں ہوئی تھی۔ گاؤں میں کئی مسالک کے لوگ رہ رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ "ہم سنی ہیں مگر ہماری روایات اور ثقافت میں شیعہ، بریلوی اور دیو بندی کاامتزاج نظر آتا ہے۔ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہوتے ہوئے ان کا خاندان بریلویوں کی زیارات پر بھی جاتا تھا اور شیعوں کی مجالس وغیرہ جو ان کے ہمسائے میں ہوتی تھیں ان کو بھی دیکھتے تھے اور ان کے لیے پانی اور مٹھائی کی سبیلیں لگایا کرتے تھے "۔مگر نئے آنے والے مبلغ نے بریلویوں اور شیعوںکے عقائد کو رد کرتے ہوئے انہیں گمراہ اور کافر قراردیا جس سےکمیونٹی تقسیم ہو کر رہ گئی جو کئی سالوں سے ایک ساتھ رہتی آئی تھی۔
سید شاہ نے کہا کہ 2010ء سے ہر چیز بدل گئی۔ وہ خواتین جو صرف چادر اوڑھتی تھیں وہ مکمل برقعے میں نظر آنے لگیں۔ جنگجو ان دکانوںپہ جہاں پر میوزک کی سی ڈیز بکتی تھیں ان پرحملے کرنے لگے۔دو بار عسکریت پسندوںنے گاؤں کی درگاہ کو دھماکےسے اڑانے کی کوشش کی۔سید شاہ نے کہا کہ اب اس مسلکی تقسیم سے خاندان بھی تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس کے چچا زاد نے سعودی مذہب اختیار کر لیا ہے۔ ایک پوری نسل ایک ایسے عقیدے کو قبول کر چکی ہے جس میں سختی ہےاور کسی کے لیے کوئی نرمی نہیں۔ وہاں حالات بہت دگر گوں ہیں۔ اس سے قبل ہم سب ایک راستے پر تھے۔ ہمیں معاشی مسائل ضرور تھے مگر ہم تہذیبی طور پر مضبوط تھے۔ لیکن اب تو لوگ کہتے ہیں کہ سعودی ثقافت ہی ہماری ثقافت ہے اور وہ اسے زبر دستی لاگو کر رہے ہیں۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پاکستانی امور کی ماہر کرسٹین فیئر C. Christine Fair نے کہا کہ سید شاہ درست کہتے ہیں وہ مفکر جو مذہب پر سعودی اثرات کی بات کرتے ہیں، پاکستان میں ہونے والی عسکریت پسندی کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے اور اس کی کچھ مقامی وجوہات بھی ہیں۔سعودی پیسہ اور تعلیمات اپنی جگہ مگر پاکستان میں فرقہ واریت اور جہادی تشدد کی جڑیں زیادہ گہری ہیں جو پاکستان کے قیام 1947 تک جاتی ہیں۔ یہ کہنا کہ اگر سعودی عرب کی مداخلت نہ ہوتی تو پاکستان سوئٹزر لینڈ ہوتا، خاصی مضحکہ خیز بات
لگتی ہے۔ حیران کن سعودی رابطے یہ سوال متنازعہ ہے کہ اگر سعودی عرب گزشتہ کئی دہائیوں سے اسلام کو نئی شکل دینے کی کوشش نہ کرتا تو دنیا کیسی ہوتی۔ بہرحال اس بات پر سب کو یقین ہے کہ سعودی عرب کی وجہ سے ہی دہشت گردی پھلی پھولی ہے اور وہی اس کا ذمہ دار ہے۔مثال کے طور پر برسلز میں قائم مسجد سعودی پیسے سے بنی اور ا س میں امام اور سٹاف بھی سعودی ہے۔ 2012 میں سعودی سفارتکاروں کی سامنے آنے والی وکی لیکس کے مطابق بیلجئم نے ایک سعودی مبلغ کو سلفی قرار دے کر نکال دیا کیونکہ وہ اسلام کے دوسرے مکاتب کو تسلیم نہیں کرتا تھا۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ برسلز میں مولن بیک کے علاقے میں کئی چھوٹی چھوٹی مساجد قائم ہیں جہاں پر سخت گیر سلفی نظریات کا پرچار ہو رہا ہے۔
نومبر میں پیرس اور مارچ میں برسلز حملوں کے بعد بیلجئیم میں دولت اسلامیہ کا ایک سیل سامنے آیا جس کے بارے میں میڈیا رپورٹس میں سعودی عرب کا نام لیا گیا اگرچہ ابھی تک بیلجیئم حملوں میں ملوث بمباروںکابراہ راست تعلق سعودی عرب سے ثابت نہیں ہوا۔ کئی مشتبہ افراد جرائم پیشہ تھے اور ان کا اسلام کے بارے میں علم بھی سطحی تھا اور وہ مساجد میں بھی باقاعدگی سے نہیں جاتے تھے۔ اگرچہ دولت اسلامیہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تاہم بیلجئیم میں شمالی افریقہ کے آباد کاروں کی نارضگی کو دیکھتے ہوئے دولت اسلامیہ نے انٹر نیٹ کے ذریعے پھیلائے گئےاپنے پروپیگنڈے سےانہیں اس جانب راغب کیا۔ یہ بھی ان حملوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اگر اس میں سعودی عرب کا کوئی کردار ہے بھی تو وہ بلواسطہ ہے۔
مراکشی نژاد بیلجئیم کا ایک صحافی ہند فراحی Hind Fraihiجو مولنبیکاور برسلز کے گردو نواحمیں 2005 ء سے سرگرداں ہے اس نے ایک کتاب لکھی۔ وہ سعودی تربیت یافتہ اماموں سے بھی ملا اور سعودی عرب میں مطبوعہ اس مواد کو بھی بڑی تعداد میں دیکھا جس میں جہاد کی ترغیب دی گئی تھی۔ فراحی نے کہا کہ حالیہ حملوں کی کئی وجوہات ہیں جن میں ایک پوری نسل کی معاشی محرومیاں اور نسلی عصبیت ہے جو سمجھتی ہے کہ اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے اور سعودی تعلیمات کا بھی اس میں ایک کردار ہے۔ جکارتہ میں قائمInstitute for Policy Analysis of Conflict کی ڈائریکٹر سڈنی جونزSidney Jones کا کہنا ہے کہ ہم بالکل یکسر مختلف ماحول کی بات کرتے ہیں۔
دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک انڈونیشیا، جہاں سعودی عرب نے مساجد کی تعمیر کے لیے پیسہ بھیجا، وہاں کتابوں اور اساتذہ کے لیے رقوم صرف کیں۔سڈنی جونز جو 1970 سے انڈونیشیا میں آرہی ہیں یا وہاں رہتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ گزرتےوقت کے ساتھ سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے وہاںقدامت پرستی اور عدم برداشت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ (صدر اوبامہ جو کہ انڈونیشیا میں اپنی اوائل عمری میں رہ چکے ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں )۔سڈنی جونز کہتی ہیںوہ رقم جو سعودی اداروں کوشخصیات سے آ رہی ہے اس کا استعمال شیعوں اور احمدیوں کے خلاف ہو رہا ہے جنہیں وہابی کافر سمجھتے ہیں۔کئی دہائیوں سے جاری سعودی مذہب سازی کے اثرات جو بھی ہوںیہ بات حقیقت ہے کہ اسے ملک کے باہر اور اندر سے اب سخت جانچ پڑتال کا سامنا ہے۔ سعودی رہنماؤں اور اس کے نظریاتی اصلا ح پسندوں کو اس بات کا ادراک بخوبی ہو چکا ہے کہ ان کی جانب سے جو کچھ ماضی میں کیا گیا وہ اب ان کے اپنے گلے پڑ رہا ہے۔ اور ا س کے ازالے کے لیے بادشاہت کو مغرب میںاپنا تاثر بہتر کرنے کے لیے ایک بڑی مہم شروع کرنی پڑی ہے۔
امریکہ میں تعلقات عامہ کے بڑے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو کہ سعود ی رہنماؤں کے خلاف آنے والی میڈیا رپورٹس کا جائزہ لے کر انہیں وہاں اصلاح پسند رہنماؤںکے طور پر پیش کر سکیں۔لیکن نہ ہی تعلقات عامہ کے یہ ماہرین اور نہ ہی ان کےحاشیہ نشین اس منظر نامے کو رد کر سکتے ہیں جو سعودی ریاست نے تخلیق کیا ہےکیونکہ بعض عادتیں اتنی پرانی ہو جاتی ہیں کہ ان سے چھٹکارہ مشکل ہو جاتا ہے۔سعودی عرب کا ایک نامور عالم دین سعد بن نصیر الشہتری جو کہ ایک اہم عہدے پر فائز تھا وہ صرف اس لیے مستعفی ہو گیا کہ سابق شاہ عبدللہ نے مخلوط تعلیم کا آغاز کر دیا تھا۔ شاہ سلمان نے گزشتہ سال الشہتری کوبحال کر دیااور وہ اب سعودی عرب کے ان لوگوں میں شامل ہیں جو دولت اسلامیہ پر تنقید کر رہے ہیں۔ لیکن جس انداز میں الشہتری نے دولت اسلامیہ کی مزمت کی ہے ا س سے اس تبدیلی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ” دولت اسلامیہ عیسائیوں اور یہودیوں سے بھی زیادہ زندیق ہے "۔بشکریہ سکاٹ شین نیو یارک ٹائمز

متعلقہ مضامین

Back to top button