ایران

جامع ایٹمی معاہدے کے مثبت اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں: صدر حسن روحانی

قومی ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے صدر حسن روحانی نے اہم ترین ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ، جامع ایٹمی معاہدے کے مثبت اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور پچھلے ایک سال کے دوران تیل، گیس اور سرمایہ کاری کے میدان میں اچھی پیشرفت سامنے آئی ہے۔
صدر نے کہا کہ جامع ایٹمی معاہدے کے تحت، دو سو ٹن سے زیادہ ییلو کیک ایران نے درآمد کیا ہے اور مزید ایک سو بیس ٹن ییلو کیک کی درآمد کا ارادہ رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی تمام تر ایٹمی سرگرمیاں جنہیں ماضی میں غیر قانونی قرار دیا جاتا رہا ہے، جامع ایٹمی معاہدے کے تحت قانونی شکل اختیار کر چکی ہیں اور اب دوسرے ممالک بھی ایٹمی سرگرمیوں میں ایران کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔
صدر ایران نے واضح کیا کہ صیہونی حکومت اس لیے جامع ایٹمی معاہدے سے سیخ پا ہے کہ ایران کا نام عالمی خطرات کی فہرست سے خارج ہو گیا ہے۔
ڈاکٹرحسن روحانی نے کہا کہ پچھلے پچاس برسوں کے دوران پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کے خلاف قرارداد پاس کی ہے اور حالات ایسے بن گئے کہ امریکہ بھی اس قرارداد کو ویٹو نہیں کر سکا۔
صدر مملکت نے کہا کہ اس قرارداد سے ثابت ہو گیا ہے کہ اسرائیل خطے کی ایک غاصب اور جارح حکومت ہے۔
ڈاکٹر حسن روحانی نے خطے میں ایران کے اہم، مثبت اور تعمیری کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے بیشتر ممالک، خطے کے امن و استحکام میں ایران کے موثر کردار کے معترف ہیں۔
صدر کا کہنا تھا کہ خطے کا امن اور اس کا استحکام ایران کی اولین ترجیح ہے اور اگر علاقائی ممالک ترقی کے خواہاں ہیں تو ان کے پاس امن و استحکام کی بحالی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
انہوں نے ایک بار پھر دہشت گردوں کو خطے اور پوری دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ، بدامنی، خانہ جنگی اور کسی ملک کی دوسرے ملک کے خلاف جارحیت انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
صدر ایران نے واضح کیا کہ تہران خطے سے دہشت گردی کی بیخ کنی چاہتا ہے اور اس سلسلے میں عراق و شام کی طرح ، دنیا کے دیکر ملکوں کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔
ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ بعض قوتیں شام، عراق اور یمن کو تقسیم کرنا چاہتی ہیں لیکن ایران خطے کی جغرافیائی سرحدوں میں کسی بھی تبدیلی کا سخت مخالف ہے اور مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ استقامت، مزاحمت اور سفارت کاری پر زور دیتا ہے۔
بحران شام کے حل کے لیے ایران کی فعال سفارت کاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے صدر حسن روحانی نے کہا کہ تہران نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شام کی حکومت اور فوج کی مدد کی ہے۔
صدر حسن روحانی نے، بحران شام کے حل کی غرض سے ، ایران ، روس اور ترکی پر مشتمل سہ فریقی مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تہران، ماسکو، اور انقرہ نے بحران شام کے حل کی غرض سے اچھے قدم اٹھائے ہیں اور انہیں امید ہے کہ قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہونے والے اجلاس کے دوران علاقائی سفارت کاری کا کامیاب نمونہ ہمارے سامنے آئے گا۔
صدر نے ان قیاس آرائیوں کو سختی کے ساتھ مسترد کر دیا کہ شام میں ہونے والی حالیہ جنگ بندی کا ایران سے کوئی تعلق نہیں ہے، صدر نے کہا کہ ایران دہشت گردی کے خلاف جنگ اور بحران شام کے سفارتی حل کی تلاش میں اہم کردار ادار کر رہا ہے۔
ڈاکٹر حسن روحانی نے نئے سال کے آغاز پر ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے سے ثابت ہو گیا ہے کہ دہشت گرد کسی پر رحم نہیں کرتے اور اگر اس لعنت کا مقابلہ نہ کیا گیا تو کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں رہے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button