اسرائیل کی آگ نے اسرائیلی قبضہ پر کئی سلگتے سوالات اُٹھا دیئے
کیا یہ آگ سیاسی اور اسرائیل کے مفاد کے لیے اسرائیل کی طرف سے خود لگائی گئی جس کا مقصد بظاہر آگ کے نقصانات کے علاوہ ہے؟ کیا جن اسرائیلیوں کے گھر جل گئے ہیں ان کی مدد کے ذریعے اس نقصان کا ازالہ ہو سکے گا جتنا ان کا نقصان ہوا ہے؟
کیا ہم اس آگ کو دُشمنی کی وجہ سے لگائی آگ کہہ سکتے ہیں؟ جس میں لاتعداد بےگناہ افراد کی جانیں اور املاک محض ہوا کے زور اور کسی شخص کی لاپرواہی سے پھینکا گئے سگریٹ یا سگار کی وجہ سے ضائع ہوئیں۔
ہم ان یہودیوں کی گرفتاری کی خبریں کیوں نہیں سن رہے جو اس آگ کو فلسطینیوں اور عربوں کو قتل کرنے کے لیے جواز قرار دے رہے اور سوشل میڈیا پر اس آگ کو فلسطینیوں اور عربوں کے خلاف جارحیت کرنے کے لیے بہانہ بنا کر خوش ہو رہے ہیں، اور اس آگ کو خوش آمدید کہہ رہےہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ :
(1) یہودیوں کا لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا خبر نہیں ہوتا۔
(2) یہودی جو سوچتے ہیں وہ کہہ دیتے ہیں کیونکہ وہ آزادی اظہار کا حق استعمال کرتے ہیں۔
(3) شر پسند یہودی جو لوگوں کو فلسطینیوں کے قتل پر اکساتے ہیں کو گرفتار نہیں کیا جاتا کیونکہ ان کو اسرائیل کی جدید پارلیمنٹ (کیسنیٹ)یا حکمرانوں کا اتحادی سمجھا جاتا ہے۔
(4) اس طرح کے فتنہ انگیز اور فلسطینیوں کے خلاف تعصب کی آگ بھڑکانے والے اسرائیلی یہودی شہریوں پر پابندی نہیں لگائی جاتی
کیونکہ یہ فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بےدخل کرنے کی اسرائیل کی دیرینہ پالیسی کا حصہ ہے۔
یہودی صحافیوں کو کتنی جلدی ہے کہ وہ فلسطینی اور عرب سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر اسرائیل کی آگ کو بغیر کسی تحقیق کے فلسطینیوں اور عربوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اس آگ کو ایک قدرتی آفت اور حادثہ قرار دینے کی بجائے فلسطینیوں اور عربوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان اسرائیلی یہودی صحافیوں کو فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم ،اقوام متحدہ کی رپورٹس اور انسانی حقوق کے اعداد و شمار کیوں نظر نہیں آتے؟
ان سوالوں کےجوابات:
٭ کیونکہ اسرائیلی انٹیلی جنس عہدے دار جو مشکوک افراد کو تلاش کر رہے وہ ان صحافیوں کو یہ خبریں پہنچاتے ہیں۔
٭ کیونکہ اسرائیلی صحافیوں کو بیت السلام، اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹس اور انسانی حقوق کے اداروں کے اعداد و شمار کے بارے میں علم نہیں یا وہ جان بوجھ کر بےخبر بنے ہوئے ہیں۔
٭ کیونکہ وہ اپنے ان دوستوں،ہم پیشہ صحافیوں اور بچوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے جو فوجی ،جج اور انتظامی عہدوں پر ہیں اور اس قسم کے مکروہ فعل میں ملوث ہیں۔
٭ کیونکہ وہ ایک صحافی ہونے سے پہلے اسرائیلی ہیں۔
٭ کیونکہ ان اسرائیلی صحافیوں کو معلوم ہے کہ اسرائیلی کیا پڑھنا اور سُننا چاہتے ہیں اور کن چیزوں کی پرواہ نہیں کرتے۔
٭ کیونکہ فلسطین پر اسرائیلی قبضے سے زیادہ کسی خبر کی کوئی اہمیت نہیں۔
کیونکہ روز مرہ کے معاملات پر کوئی خبر نہیں بن سکتی۔
اس عمل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ اسرائیل میں لگنے والی آگ کا تعلق اسرائیل کی فلسطینیوں کے ساتھ بے رحمانہ پالیسی کے ساتھ ضرور ہے، کیونکہ جب ہم اس آگ کے ارد گرد کے علاقوں کے نقشہ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ تین علاقے بیت میر، نتف اور کینیڈا پارک کے علاقے ہیں جہاں اس وقت آگ لگی ہوئی ہے۔ اور یہ آگ یورو شلم کے مغربی علاقے میں لگی ہے۔
بیت میر 1948ء سے قبل فلسطینیوں کا ایک گاؤں تھا جس میں 3000 فلسطینیوں کے گھر تھے جنہیں موجودہ آگ نے جلا کر تباہ کر دیا ہے۔ نتف وہ علاقہ ہے جہاں کسی وقت بیت تھل موجود تھا وہ بھی جلا دیا گیا ہے تا کہ 300 مہاجرین واپس نہ آسکیں۔
کینڈا پارک جس کو یہودیوں کے قومی خزانے سے چلایا جا رہا ہے، امواس اور یالو کے علاقے میں واقع ہے، جن کے رہائشیوں کو جون 1967ء میں بےگھر کر دیا گیا تھا۔
ہلامش کے انتظام کے تحت دیر نظام اور نبی صالح کے علاقے پھیل رہے تھے اور اسرائیل کسی بھی نئے فلسطینی گاؤں یا نئی فلسطینی آبادی یا تعنیرات میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔
اس ہفتے اسرائیل کے تین نقشے پیش کیے گئے۔ ایک یہودیوں کا تصوراتی نقشہ ہے جس میں فلسطین کو مٹا دیا گیا ہے۔ دوسرے نقشے میں مقبوضہ اور غیر مقبوضہ اسرائیلی علاقوں کو دکھایا گیا جس میں ایک طرف فسادات اور دوسری طرف امن دکھایا گیا ہے اور یہ افسوس ناک منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ان دونوں نقشوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
جبکہ تیسرا نقشہ وہ ہے جس میں فلسطینی آباد تھے اور بے گھر کر دیئے گئے تھے، جو آج بھی اپنے گھروں میں واپس آنے اور انہیں دوبارہ تعمیر کرنے کے منتظر ہیں۔
اسرائیل کو خالی کرانے کے لیے کتنے لوگوں کو بےدخل کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا ان تمام فلسطینیوں کو جو اسرائیل کے ناجائز قبضے کو تسلیم نہیں کرتے؟ 5 لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کے علاقہ سے بے دخل کرنے کے لیے آگ کے دھوکے کے علاوہ کتنے لوگوں کی ضرورت ہے، پوری اسرائیلی حکومت، جنرل سٹاف، سینئرکمانڈرز اور ہزاروں فوجی اور پائلٹس؟
اسرائیلیوں کو کتنے فلسطینی کو قتل کرنے ضرورت ہے۔ اس بہار کے موسم میں پانچ سال تک کی عمر کے 180 بچوں کو شہید کر دیا گیا، 6 سال سے 17 سال تک کے 346 بچوں کو شہید کیا گیا اور 247 خواتین کو بھی شہید کیا گیا۔ یہ صرف 2014ء کے اعداد و شمار ہیں۔ اسرائیل کی پوری حکومت، جنرل سٹاف ،سینئر کمانڈرز اور ہزاروں اسرائیلی فوجی اور پائلٹس کو اسرائیلی عوام کی اکثریت حوصلہ دے رہی اور تالیاں بجا بجا کر خوش ہو رہی ہے کہ فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کے اس سلسلے کو جاری رکھیں۔بشکریہ: HAARETZ News