مقالہ جات

کربلا ایک الٰہی انقلابی تحریک

دنیا میں اٹھنے والی تحریکیں کسی نہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے معرضِ وجو د میں آتی ہیں جس تحریک کا مقصد جس قدر بلند ہو اُس تحریک کو اوراق تاریخ میں اتنی ہی قدر و منزلت ملتی ہے اور جس تحریک کا مقصد فتنہ و فساد اور خون ریزی ہو اُس کو تاریخ انسانی میں سوائے رسوائی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ مقاصد کی وسعت تحریک میں وسعت کا باعث بنتی ہے، یاد رہے کہ عظیم مقاصد عظیم قربانیاں مانگتے ہیں۔ کربلا ایسی ہی ایک الٰہی انقلابی تحریک ہے جس نے انسانی حیات پر گہرے اور انمٹ نقوش چھوڑے ہیں 61 ہجری سے لے کر آج تک کربلا انسانی ذہن پر دستک دے رہی ہے اور یہ تحریک دنیا میں آزادی و حریت کی پہچان بن چکی ہے 14 صدیاں گزر گئیں مگر آج بھی یہ تحریک تابندہ و پائندہ ہے۔ یہ کرامت ہے امام حسین کی لازوال قربانیوں کی کہ جن کی بدولت اسلام آج بھی زندہ ہے اس تحریک نے انسانیت کو معراج عطا کی اور عزم و ہمت و حوصلے اور استقامت کی علامت بن گئی، یہ تحریک ان تمام وجوہات کی نفی کرتی ہے کہ جن وجوہات پر زمانے میں جنگیں اور لڑائیاں جھگڑے ہوا کرتے ہیں۔ امام حسینؑ نے اپنی اس تحریک کا مقصد یوں بیان فرمایا میرا نکلنا، خود پسندی، تفریح کی غرض سے نہیں اور نہ میرا مقصد فساد و ظلم کو رواج دینا ہے میں صرف اس لیے نکلا ہوں کہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کروں گویا تحریک کربلا ظلم و فساد کی جڑ کاٹنے کی تحریک ہے۔ اصل اسلام حقیقی کے چہرے پر جو حجابات آ چکے تھے اُن کو ہٹانے کی تحریک ہے، شریعت مصطفیٰ کی حرمت اور کلمہ طیبہ کی بقاء کی تحریک ہے۔ اس تحریک کے بانی حضرت امام حسین نے فرمایا میں اُس امام کا فرزند ہوں جس نے فرمایا کہ دنیا کے ہر حکمران سے دشمنی اُس کے ظلم کی وجہ سے کی گئی میں واحد حکمران ہوں جس کے ساتھ دشمنی اس کے عدل کی وجہ سے کی گئی۔ حضرت امام حسین اسی امام عادل حضرت علی ابن ابی طالب کے فرزند ہیں۔ آپ کیوں نہ ظلم کے خلاف قیام فرماتے کربلا سے قبل اسلام صرف نماز و روزہ تک محدود ہو چکا تھا۔ اسلام بطور نظامِ زندگی کا تصور دم توڑ رہا تھا ظلم و بربریت کا دور دورہ تھا آمریت نے دین اسلام کو اپنے پنجوں میں دبوچ لیا تھا۔ لادینیت کو دین کے لبادے میں پیش کیا جا رہا تھا۔ امام حسین نے اپنے لہو سے اسلام کا چہرہ دھو ڈالا اور دین کی شفافیت اور اس کی حقیقت کو دنیا کے سامنے پیش کر کے اپنے اور اسلام کے رشتے کو انسانیت کے سامنے پیش کر دیا۔ آج بھی برائیوں اور ظلم کے خلاف ہر اٹھنے والی آواز حسینی آواز ہے۔
نواسہءِ رسول جگر گوشہءِ بتول حضرت امام حسینؑ کے قیام کا مقصد حصولِ اقتدار نہ تھا اور نہ ہی یزید بن معاویہ سے کوئی ذاتی دشمنی تھی، اگر مقصد قیام حصول اقتدار ہوتا تو جب حالات آپ کو یہ بتا رہے تھے کہ آپ اقتدار حاصل نہیں کر سکیں گے تو آپ قیام نہ فرماتے۔
پورا مکہ اور مدینہ آپ کا احترام کرتا تھا کسی چیز کی آپ کو کمی نہ تھی آپ اس مشکل میں نہ پڑتے آپ یمن ہی ہجرت کر جاتے جہاں آپ کے بے شمار چاہنے والے موجود تھے آپ کو یزید سے کوئی سروکار ہی نہ ہوتا اور نہ ہی آپ کو اتنی بڑی قربانیاں دینا پڑتیں وہاں آپ ؑ اپنے اہل و عیال کے ہمراہ آرام سے زندگی بسر کرتے۔ آخر آپ ؑ نے یزید کے خلاف قیام کا فیصلہ کیوں کیا؟
ؑ حقیقت یہ ہے کہ ایک فرض شناس امامؑ نے اپنے فریضے کو سمجھا اور اپنی منصبی ذمہ داری کا احساس کیا، آپ نے ایک واجب عمل کو انجام دیا، آپ نے رسالت کی حفاظت اور ولایت کے تسلسل کو برقرار رکھا اور نبی پاکؐ کے اس فرمان کو عملی جامہ پہنایا۔
حسین منی و انا من حسین کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔
آپ کے قیام کا مقصد فقط شہید ہونا نہیں تھا بلکہ مقصد تک رسائی کے لیے شہادت کو قبول کرنا تھا۔ امام جانتے تھے کہ اگر انہوں نے یزید کے خلاف قیام نہ کیا تو یہ خاموشی رضامندی کی علامت بن جائے گی۔ امام عالی مقام نے اپنے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے یوں فر مایا: خدایا! تو بہتر جانتا ہے کہ جو کام ہم نے شروع کیا ہے جو قدم ہم نے اٹھایا ہے جو باتیں ہم کہتے ہیں یہ اُن مقاصد کے لیے نہیں ہیں جو عام طور پر دنیا طلب، جنگجو، لشکر کشی کرنے والوں کے پیش نظر ہوتی ہیں۔ ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ اسلام حقیقی کو پہچانیں ہم چاہتے ہیں کہ دین کی ان پوشیدہ علامتوں یعنی قرآن و اسلام کی فراموش شدہ اقدار اور اہداف اور اصولوں کو دوبارہ زندہ کریں جن پر بہت زیادہ گرد و غبار پڑ گیا ہے۔ امام عالی مقام نے فرمایا:
میرے اس قیام کا مقصد امت کی اصلاح ہے میں چاہتا ہوں کہ امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دوں میں اپنے نانا رسول اور بابا علی کی روش و کردار کو زندہ کرنا چاہتا ہوں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button