مقالہ جات

میں میں ہوں ! ازقلم: محمد زکی حیدری

یہ قوم شہید قائد عارف حسینی (رض) کے بعد ایک بڑے عرصے سے مر کھپ رہی تھی، اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا، ٹارگٹ کلنگ ہوئی قائدین چپ، رینجرز شیعہ نوجوانوں کو لے جاتی سب چپ، بم دھماکے چپ… عوام علماء پر تنقید کیا کرتی کہ کوئی نہیں بولتا سب چپ ہیں. کوئی نکلتا ہی نہیں ظلم کے خلاف، سب عالم دین بس اپنی اپنی تنظیم کو چمکانے میں لگے ہیں. عوام تنقید کر ہی رہی تھی کہ اتنے میں ایک عالم دین نے بھوک ھڑتال کردی … "میں” نے جب یہ سنا تو تنقید کے بند باندھ دیئے، کہا یہ سراسر بے وقوفی ہے، اس سے کیا ہوگا کچھ فرق نہیں پڑے گا، قوم کے ایک "استاد” جو قرآن و سیرت آئمہ (ع) کا وسیع علم رکھتے تھے، نے اس بھوک ہڑتال کو کسی بیوہ عورت کی طرح رونے پیٹنے سے تشبیہ دی. اور اشارتاً فرمایا کہ یہ قرآن و سیرت اہلبیت (ع) کی سراسر مخالفت ہے، یہ قوم کو ذلیل کرنے والا کام ہے، کچھ کو کچھ سمجھ نہ آیا بولے "یہ بندہ پہلے لاشوں کی سیاست کر چکا ہے اب دوبارہ میڈیا پر آکر سستی شہرت کمانے کیلئے سب کر رہا ہے” بھوک ھڑتال سے پہلے ٹارگٹ کلنگ عروج پر تھی لیکن بھوک ہڑتال کے بعد ٹارگٹ کلنگ کی کوئی خبر نہ آئی، اسے بھی "میں” نے کہا یہ اتفاق ہوگا، بھوک ھڑتال کی وجہ سے نہیں، بھوک ہڑتال کے بعد ذیابطیس کے مریض اس عالم دین کی طبیعت خراب ھوگئی، بے حد کمزور ہوگئے، ڈاکٹرز نے آرام کا مشورہ دیا لیکن شہید قائد (رض) کی برسی پر یہ جسمانی طور کمزور عالم دین پھر عوام کے سامنے آیا کہا کہ مجھے خطاب کرنا ہے،دوستوں نے سمجھایا لیکن نہ مانے، کمزوری کی حالت میں تقریر کی، "میں” نے کہا میڈیا کو دکھانے کیلئے ڈرامہ کیا ہے۔

اس نے” پھر ایران کے بارڈر تفتان سے مسلسل زائرین کی شکایتیں آتیں کہ بھئی ظلم ہے ہمارے ساتھ ہم غریب ہیں امیر لوگ جہاز میں بیٹھ کر اپنے مولا (ع) کی حاضری دینے چلے جاتے ہیں ہم غریب اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ ہوائی جہاز سے جائیں، لیکن جب ہم زمینی راستے سے جاتے ہیں تو ۱۵ ۱۵ دن کوئٹہ و تفتان میں بٹھا دیا جاتا ہے، اس پر سیکورٹی اہلکاروں کا نازیبا رویہ،رشوت، اہانت، کرائیوں میں تین گنا اضافہ، بس والوں کی بدتمیزی، نہ رنے کی جگہ ، نہ پینے کا پانی، نہ ٹوائلٹ کا انتظام… کوئی عالم دین، کوئی قائد، کوئی اہم شخصیت مڑ کر دیکھنے نہیں آئی. سب جہاز میں بیٹھ کر دنیا میں جاتے ہیں اور اخبار میں پاکستانی ملت تشیع کی نمائندگی کا راگ آلاپ کر، تصاویر بنوا کر آجاتے ہیں، شاید ان کے جہاز آسمان میں بہت اونچائی پر ہوتے ہیں اس لیئے ہم زمین والے انہیں کیڑے مکوڑے ہی نظر آتے ہیں، اب وہ دن پتہ نہیں کب آئے گا کہ کوئی قائد، نمائندہ ولی فقیہ یا نظام ولایت کی بات کرنے والا کوئی "استاد” جہاز کو چھوڑ کر ہماری طرح زمینی سفر کریگا اور ہماری حالت دیکھے گا، تاکہ اسے پتہ چلے کہ امیرالمومنین و آئمہ (ع) کبھی اپنے شیعوں کی تکلیف میں ان سے کنارہ کش نہ رہے،لیکن انہیں کیا پڑی کہ آئیں، ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر بصیرت کی باتیں کرنے والوں کو کیا پڑی کہ کوئٹہ سے پیدل تفتان جائیں جہاں عام زائرین بھی کونوائے و سخت حفاظتی پروٹوکول میں جاتے ہیں، اور جب ان کی بسیں شہروں سے گذرتی ہیں تو شہروں میں ایف سی کرفیو نافذ کر دیتی ہے تاکہ کوئی دھشتگرد کاروائی نہ کرے، اور اوپر سے یہ مینگل کا علاقہ ہے، یہ اس رئیسانی کا علاقہ جس کی کرسی شیعوں کے ایک دھرنے نے چھین لی تھی، یہ کالعدم سپاہ صحابہ کا گڑھ جہاں نہ فقط ھر جگہ سپاہ صحابہ کے پرچم آویزاں نظر آتے ہیں بلکہ کچھ روز قبل کوئٹہ کے ہاکی گراؤنڈ میں اس تنظیم کا بہت بڑا جلسہ ہوا جس میں شیعہ کافر کے نعرے ہی نہیں بلکہ اسٹیج سے شیعہ کافر کے ترانے و تقاریر بھی کی گئیں، اس کے علاوہ یہ قوم پرست بلوچ جو پنجابی کا سنتے ہی آگ بگولہ ہو جاتے ہیں، کا بھی گڑھ… یعنی شیعہ جائے تو بھی سامنے دشمن، پنجابی جائے تو بھی سامنے دشمن، اس حال میں کسی پنجابی شیعہ قائد یا "استاد” کو کیا پڑی کہ کوئٹہ سے تفتان زمینی راستے سے جائے! لیکن ایک شیعہ اور پنجابی عالم دین نے سوچا کہ میرے عزادار میری قوم کی غریب مائیں، بہنیں، بچے، بزرگ جو جہاز سے میرے مولا (ع) کی زیارت کو نہیں جا سکتے، میں ان پر خلوص زواروں کی خیر خبر لینے جاؤں گا چاہے کچھ بھی ہوجائے. یہ وہی عالم دین تھے جس نے "میرے” بقول لاشوں پر سیاست کی اور پھر میڈیا کو دکھانے لیئے بھوک ھڑتال کی. اس عالم دین کو سب نے جب کہا کہ قبلہ یہ تو خودکشی ہے تو فرمایا: جان کا فائدہ ہی کیا اگر حسین (ع) پر فدا نہ ہو. احباب نے بہت اسرار کیا کہ نہ جائیں لیکن وہ نہ مانے. آخری حربہ دوستوں نے یہ استعمال کیا کہ ان سے کہا قبلہ استخارہ دیکھ لیں قرآن سے جب استخارہ دیکھا تو آیا "رب ابراھیم پر توکل کر کہ چلے جائیں.”یہ عالم دین جب تفتان پہنچا تو حسین (ع) کے غریب زوار جو جہاز سے جانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اور خود کو اب تک یتیم سمجھ رہے تھے، ایف.سی، پولیس، رینجرز، فوجیوں کے دشنام سن سن کر تنگ آگئے تھے، کے قلوب کو ایک سکون سا ملا، انہیں یقین ہو گیا کہ سارے جہاز والے لیڈر ایک جیسے نہیں ہوتےان میں کوئی زمین پر آکر ہمارے درد کا مداوا کرنے والا بھی موجود ہے بہرحال وہ لیڈر ان تمام خطرات کے باوجود دھشتگردوں کے گڑھ میں اپنی قوم کی داد رسی کرنے پہنچے، بااختیار اداروں اور اشخاص سے مذاکرات کیئے ان کی طرف سے پاکستان ہاؤس کی تعمیر و توسیع کی یقین دھانی اور دیگر امور پر یقین دھانی کرائی گئی لیکن مجھے اس بار سمجھ نہیں آرہی کہ اس عالم دین کے اس اقدام کو "میں” کیا نام دوں، اگر کہتا ہوں لاشوں پر سیاست کی ہے تو یہ لاشوں کا مسئلہ نہیں، اگر کہتا ہوں میڈیا پر آکر شہرت کمانے کی کوشش ہے تو یہ جلسہ تو ہے نہیں کہ میڈیا کوریج دے،”میں” اس بار اس عالم دین کی تنظیم پر کسی کے سر سے عمامہ گرانے کا الزام بھی نہیں لگا سکتا .. "میں” پریشان ہو گیا ہوں کہ اس عالم دین کے اس اقدام کو کیسے بیان کروں کہ جس سے اس عالم دین سے مخالفت کی آگ جو میرے کلیجے میں لگی ہے، ٹھنڈی ہو سکے. لیکن آپ فکر نہ کریں "میں” میں ہوں کچھ نہ کچھ الزام لگا ہی دونگا.

متعلقہ مضامین

Back to top button