مقالہ جات

فیصلہ کریں شہید قائد عارف حسین الحسینی کی راہ کے خلاف کون جا رہا ہے اس وقت!

فقیہ شہر عمامے کے پیچ و خم میں رہا

 

تحریر: ارشاد حسین ناصر 

 

یہ 1969ء کی بات ہے، عراق پر بعث پارٹی کی حکومت آچکی تھی اور یہاں کے معروف و محترم خاندان آل حکیم پر زندگی تنگ کردی گئی تھی۔ آل حکیم خاندان اور آل صدر خاندان بعثی حکمرانوں کے ظلم کا مسلسل نشانہ بن رہے تھے، علماء کو جیلوں میں ڈالا جا رہا تھا، تشدد، ظلم اور سفاکیت کی داستانیں رقم کی جا رہی تھیں، بعثی درندوں نے مدارس، مساجد اور گھروں میں پُر امن طور پر موجود نوجوانوں کو اندھا دھند گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں ڈالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ اس دور میں آل حکیم و صدر خاندان کے لوگوں نے دیگر ممالک میں سیاسی پناہ بھی لی اور جس کو جہاں پناہ ملی وہ ادھر کا رُخ کر گیا۔ یہ بچ جانے والے جلا وطن علماء و دیگر اور لوگ بعثی حکومت کے خلاف اپنے طور پر دنیائے عالم کا ضمیر جگانے اور حقائق آشکار کرنے کیلئے دورہ جات کرتے تھے اور عراق کی شیعہ اکثریت کو ظلم و تشدد اور سفاکانہ طریقوں سے اقلیت میں بدلنے کے جرائم کا تذکرہ کرتے تو سننے والے کانوں کو ہاتھ لگاتے کہ مقدس سرزمین کے اصل باسیوں کے ساتھ یہ ناروا اور ظالمانہ سلوک آخر کیوں؟

 
پاکستان میں یہ S.S.A کا زمانہ تھا، ابھی کاروانِ امامیہ اپنی تشکیلاتی انگڑائی لے رہا تھا اور ملک میں ایوبی آمریت کے خاتمہ کے بعد مارشل لاء لگ گیا تھا۔ انہی دنوں میں "حکیم خاندان” کے انقلابی فکر کے عالم دین آیۃ اللہ العظمٰی محسن الحکیم کے فرزند آیۃ اللہ جناب مہدی الحکیم پاکستان تشریف لائے، ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا، یہ ٹرین کا زمانہ تھا، اس وقت لگژری بسیں نہیں چلتی تھیں اور ہوائی جہاز بھی اس قدر عام نہ ہوتے تھے۔ بہرحال ان کا استقبال ریلوے اسٹیشنوں پر ہوا۔ لاہور میں کئی ایک مقامات پر انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ پاکستان کے علماء و عمائدین کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ سیاسی عمل، سیاست اور انتخاب سے دور نہ رہیں۔ سیاست کو شجر ممنوعہ نہ سمجھیں بلکہ اس کے اندر داخل ہوجائیں۔ اس کا بائیکاٹ نہ کریں، اگر ایسی غلطی کی تو اس کا ازالہ نہ ہوسکے گا اور بہت زیادہ پچھتاوا ہوگا۔

 

دراصل انہوں نے عراق کی ملت تشیع کی مثال دی کہ جس نے اکثریت میں ہوکر سیاست و حکومت کی باگ ڈور دوسروں کے سپرد کردی اور مدارس، مساجد اور مراکز تک محدود ہوگئے، ان لوگوں نے تجارت کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے لوگ رفتہ رفتہ محدود ہوتے گئے اور ہمارے اوپر ایسے لوگ مسلط ہوگئے جو کسی بھی طور پر شیعیت کو مضبوط ہوتا نہ دیکھ سکتے تھے۔ بعدازاں جب یہی لوگ مزید مضبوط ہوئے تو انہوں نے ہمیں ہمارے گھروں سے بے دخل کر دیا۔ ہم صلیبوں پر نظر آنے لگے، ہم عقوبت خانوں کی زینت بننے لگے۔ لہٰذا پاکستان کے شیعہ ہماری مثال کو سامنے رکھیں اور سیاسی میدان کو خالی نہ چھوڑیں۔ 

 

آقای مہدی الحکیم کے اس مشورہ کو پاکستانی علماء و عمائدین نے پلّے باندھ لیا اور قومی سطح پر شیعہ پلیٹ فارم سے پہلی سیاسی پارٹی بعنوان "شیعہ پولیٹیکل پارٹی” سامنے آئی اور شیعہ حقوق کی جدوجہد شروع کر دی، کراچی سے تعلق رکھنے والے علامہ عباس حیدر عابدی اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ بعد ازاں لاہور کے سید سکندر شاہ بھی اس کے صدر رہے۔ جو 1991ء میں فرقہ پرستوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے تھے۔ اس سیاسی جماعت سے قبل قومی سطح پر "شیعہ مطالبات کمیٹی” کے نام سے بھی کام کیا جا رہا تھا۔

 
بعدازاں مفتی جعفر حسین قبلہ کی قیادت میں بھی اس قوم نے سیاسی افق پر خود کو منوایا اور TNFJ کے نام سے 1980ء کی عظیم جدوجہد بھی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ مفتی جعفر حسین قبلہ 29 اگست 1983ء کو رحلت فرما گئے تو 10 فروری 1984ء کو پاراچنار سے تعلق رکھنے والے الٰہی انسان علامہ عارف حسین الحسینی بھکر اجتماع میں بہ طور قائد منتخب ہوگئے۔ یہ ضیاء کی آمریت کا زمانہ تھا۔ شہید قائد نے آمرانہ حکمرانوں اور عالمی استعمار کے خلاف بھرپور جدوجہد کی اور ہر موقعہ پر اسے للکارا۔ یہ MRD کا زمانہ تھا جس میں شہید قائد نے فعال کردار ادا کیا تھا، جس کا مقصد آمریت کا خاتمہ اور جمہوریت کی بحالی تھا۔

 
قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) نے 6 جولائی 1987ء کے دن مینار پاکستان کے سائے تلے عظیم الشان "قرآن و سنت کانفرنس” منعقد کرکے سیاست کے میدان میں اسی آئین و دستور میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کا اعلان کیا۔ اسی موقع پر شہید قائد نے ایک منشور "سَبیلُنا” (ہمارا راستہ) کا اعلان کیا۔ اس منشور کی اشاعت اور میدان سیاست میں آنے کے حوالے سے بھی شہید کے بعض رفقاء ان کے مخالف تھے۔ ان کی آراء میں سیاست کے بازار میں جانے سے رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آنے والا نہ تھا اور ہم ایک الٰہی و قرآنی اُصولوں پر مبنی تحریک چلا رہے ہیں، مگر قائد شہید نے ان احباب کو رام کرلیا اور بعدازاں شہید قائد کے ہمراہ یہ لوگ ہر میدان میں نظر آتے تھے۔1988ء میں الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی (رہ) شہید بھی اس انتخاب میں پیش پیش تھے، بلکہ وہ 1988ء کے انتخابات میں بطور امیدوار بھی سامنے آئے۔ 

 

یہ باتیں آج اس لیے یاد آرہی ہیں کہ ملت کی دو قومی جماعتوں نے انتخابی سیاست میں آنے کا باقاعدہ اعلان کیا ہوا ہے اور انہیں انتخابی نشان بھی الاٹ ہوچکے ہیں۔ اس وقت جب قوم کو اتحاد و وحدت، یکجہتی اور نظم و ضبط کی بھرپور ضرورت ہے، بعض اطراف سے الیکشن میں حصہ لینے کے فیصلہ پر سخت تنقید کی جا رہی ہے اور انتہائی منفی انداز میں قومی قائدین اور شخصیات کے خلاف پراپیگنڈہ ہو رہا ہے۔ اس پراپیگنڈہ کا مرکز سوشل میڈیا ہے، فیس بک اور SMS کے ذریعے قوم کو تقسیم کرنے اور نوجوانوں کی توانائیوں کو مثبت کے بجائے بےحد منفی انداز میں استعمال کرتے ہوئے مایوس کن کردار ادار کروایا جارہا ہے، معلوم نہیں کیوں؟ جمہوری نظام کو کفر قرار دے کر الیکشن کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جا رہی ہے اور وہ بھی ولایت ک نام پر، کیا ولی فقیہ امام خمینی (رہ) نے انقلاب آنے کے بعد سب سے پہلے ملک کے نام کو جمہوری اسلامی ایران نہیں رکھا؟ امام (رہ) نے تو ہمیشہ ہی مردم کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت دی۔ پھر ایسا کیوں کیا جا رہا رہا؟

 
کیا الیکشن اور انتخابی سیاست قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کی راہ اور فکر سے مطابقت نہیں رکھتی، کیا ہم شہید حسینی (رہ) کے وارث نہیں کہلاتے اور امام راحل امام خمینی (رہ) نے پاکستانی عوام کو اپنے پیغام میں تاکید نہیں فرمائی کہ وہ علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کے افکار کو زندہ رکھیں۔ اب اگر قومی پلیٹ فارم سے یہ جدوجہد کی جا رہی ہے تو اس میں روڑے اٹکانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس ملک و ملت کے ساتھ ہونے والے ظلم اور ناانصافیوں کو روکنے کیلئے الیکشن و انتخابی عمل بھی ایک مؤثر ذریعہ ہے، پھر کیوں اس ذریعے کو صرف ملک و ملت دشمنوں کیلئے کھلا چھوڑا جائے۔ ان ملک دشمن فرقہ پرستوں کا راستہ نہ روکا جائے۔؟ 

 

اس موقع پر شہید محسن نقوی کے یہ اشعار یاد آرہے ہیں 

خوشی کا زہر کسی شیشۂ الم میں رہا 

میرا شعور سدا وہم بیش و کم میں رہا 

کسی نے چھین لی بیوہ کے سر سے چھاؤں مگر 

فقیہ شہر عمامے کے پیچ و خم میں رہا

متعلقہ مضامین

Back to top button