مقالہ جات

قائد شہید ۔۔۔ اتحاد امت کے عظیم علمبردار

تحریر: محمد حسن جمالی

ہر دلعزیز، عظیم و محبوب شخصیت قائد شہید حضرت علامہ عارف حسین حسینی سے  محروم ہوئے 28 برس گزر چکے۔ آپ کی عظمت، شخصیت، شجاعت، فداکاری، حلم اور آپ کے تقوی و پرہیزگاری کے سبھی لوگ، دوست و دشمن قائل و معترف تھے اور ہیں۔ آپ نے مختصر وقت میں کارهائے نمایاں سرانجام دئیے۔ آپ نے پاکستان کی سرزمین پر نہ صرف شیعہ قوم کی کما حقہ قیادت کا فریضہ انجام دیا، بلکہ ارض پاک پر زندگی بسر کرنے والی ساری مسلم قوموں کی بوجہ احسن راہنمائی فرمائی۔ قائد شہید کے چار سالہ قیادت کے دور میں سب سے ذیادہ اتحاد مسلمین آپ کی توجہ کا مرکز رہا۔ ہمیشہ مسلمانوں کو اتحاد کی ضرورت، اہمیت، خوبیاں اور فوائد نیز انتشار و تفرقے کے نقصانات سے روشناس کراتے رہے۔ گرچہ پاکستان میں یہ کام انتہائی مشکل و تھکا دینے والا کام ہے، چونکہ یہ حقیقت کسی پر پوشیدہ نہیں کہ پاکستان کی سر زمین مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے پر ہے۔ اسلام ناب محمدی قبول کرنے والوں کی اکثریت ہے اور ارض پاکستان کے دامن میں پروان چڑھنے والے مذہبی لوگ تین طبقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ شدت پسند طبقہ , معتدل طبقہ اور خشک و بے جان عقیدے کا حامل طبقہ۔

بہ الفاظ دیگر ایک طبقہ افراطی ہے، دوسرا طبقہ تفریطی ہے اور تیسرا طبقہ نہ افراطی ہے اور نہ تفریطی بلکہ معتدل ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ارض پاک پر شدت پسند طبقوں نے دوسروں کا جینا ہی حرام کر رکها ہے۔ خودکش حملہ، بم باری اور فائرنگ وغیرہ کے ذریعے مسلم کشی کر کے وہ جشن مناتے ہیں۔ شدت پسند گروہ انسانیت سے خالی در حقیقت جنگلی درندوں سے بھی بدتر ایک طبقہ ہے، جو استعمار کے آلہ کار ہیں۔ مسلم دشمنوں کے هاتهوں بکے ہوئے لوگ ہیں۔ البتہ ان کے نام اور عنوان بدلتے رہتے ہیں۔ ان کے نام اور عنوان کبھی القائدہ ہے تو کبھی طالبان اور آج کل داعش کے عنوان سے یہ جراثیم پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ شہید کے دور قیادت میں ہر جگہ مذہبی منافرت پھیلی ہوئی تھی، لیکن آپ نے اپنی بصیرت اور حکمت عملی سے مسلمانان پاکستان کے درمیان حائل افتراق کے بت کو پاش پاش کر دیا اور مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرونے کی جدوجہد فرمائی۔ شہید قائد اتحاد امت کے عظیم علمبردار تھے۔ اتحاد کی اہمیت و ضرورت سے کون ناآگاه ہے۔ اتحاد ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ عظیم سرمایہ ہے۔ جس کے سامنے دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں ٹہر سکتی ہے اور نہ ہی اس کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

اسی وجہ سے اسلام و قرآن اور مسلمانوں کے دشمنوں کو جو چیز سب سے زیادہ لرزاتی ہے، وہ مسلمانوں کا اتفاق و اتحاد ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اس حقیقت کو درک کرچکے ہیں کہ ہمارے مقاصد تک رسائی حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ مسلمان ہے۔ اسلام وہ واحد دین ہے، جس کےنظریات ہمارے نظریات سے متصادم ہیں۔ اسلام اور واقعی مسلمان ان کے نظریات اور اہداف کی نہ صرف نفی کرتے ہیں، بلکہ ان کے خلاف محاذ آرائی اور جنگ کرنے کو ہر فرد مسلمان پر واجب سمجھتے ہیں۔ ان سے قریب ہونے یا رہنے تک کو روا نہیں سمجھتے ہیں، ہمارے اصلی دشمنوں پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ مسلمان بہت طاقتور ہیں، اگر مسلمان متفق و متحد رہیں تو نہ صرف ان سے مقابلہ کرنا ہمارے لئے محال ہوگا، بلکہ ہمیں صفحہ ہستی سے مٹ جانے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔ چنانچہ ان پیش رو ممکنہ خطرات سے اپنی حفاظت کی خاطر وہ مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لئے کمر بستہ ہوگئے۔ مسلمانوں کی کامیابی کے عنصر اصلی اور حیات کامیابی کی شہ رگ پر انہوں نے ہاتهہ رکھا، اتحاد مسلمین کو انتشار وافتراق میں بدلوانے کے لئے وہ خوب ڈالر خرچ کررہے ہیں اور وہ کسی حد اپنے اہداف میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں۔

آج حالت یہ ہے کہ جگہ جگہ مسلمان ایک دوسرے کا جانی دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ خوف خدا دل سے نکال کر ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہے ہیں۔ بلا جهجک ایک دوسرے پر لعن طعن کا بازار گرم کرکے اصلی مشترکہ دشمن کے مقاصد پورے کررہے ہیں اور افسوس صد افسوس، روز بروز مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے دور سے دورتر ہوتے جارہے ہیں۔ دشمنوں کے ناپاک عزائم اور مقاصد کو خاک میں ملانے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد کو مستحکم کریں۔ آپس کے چھوٹے چھوٹے فرعی اختلافات کو بنیاد بناکر ایک دوسرے سے ہرگز نفرت نہ کریں۔ چھوٹے اختلافات کا پایا جانا فطری ہے۔ اجتماعی زندگی کا حصہ ہے۔ رشد وتکامل بشر کا لازمہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے اختلافات تو ایک ہی خاندان، خونی رشتہ داروں کے درمیان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ جس طرح ہم اپنے خاندانی اور گھریلو مسائل و اختلافات کو پیار و محبت صلح اور صفائی سے حل کرتے ہیں، سارے مسلمان بھی بھائی بھائی ہیں، کیا قباحت ہے ہم آپس کے چھوٹے چھوٹے فرعی اختلافات کو بهی خاندانی مسائل حل کرنے کی طرح نرمی سے حل کریں۔ مل بیٹهہ کر انتہائی پیار و محبت سے اخوت و بهائی چارگی کو فروغ دیتے ہوئے آپس کے اختلافات کو عقل، منطق، برہان اور استدلال کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔

شہید قائد نے اپنے دور قیادت میں ملک کے کونے کونے میں جا کر لوگوں کی فکری، شعوری، مذہبی، اجتماعی، ملی تربیت و بیداری کیلئے دن رات ایک کیا اور مسلسل عوامی رابطہ کے ذریعے ان میں ایک درد، ایک احساس پیدا کر دیا، علامہ عارف الحسینی کی یہ خوبی کسی طور بھلائی نہیں جاسکتی کہ وہ اپنے ساتھ مختلف دورہ جات میں اہل سنت علماء کو بھی لے کر جاتے اور اتحاد کی فضا کو عوامی سطح پر نمایاں کرنے کی کوشش کرتے، وہ اتحاد بین المسلمین پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ آج اگر ملت تشیع کی جان پاکستان کی سرزمین پر چاروں طرف سے ہمیشہ خطرے کے دائرے میں چکر کاٹتی رہتی ہے تو اس کی بنیادی وجہ ہماری قیادت کی کمزوری ہے۔ ملت تشیع پاکستان قیادت کے لئے قائد شہید علامہ عارف حسین جیسی شجاعت بصیرت علم کا حامل زمان شناس ملت تشیع کے لئے دکهہ درد سینے میں رکھنے والی، حدود اتحاد کی حفاظت کرتے ہوئے ہر جگہ وہر وقت مصلحتوں کا شکار ہوکر خاموشی کا شکار رہنے کے بجائے ملت تشیع کی مشکلات کی گهڑی میں بروقت ٹھوس اقدامات کرنے والی شخصیت کی تلاش میں ہے۔ آج پوری ملت تشیع فریاد کرکے یہ کہرہی ہے کہ اے فرزند امام خمینی(رح)! آپ نے ہمیشہ ہمیں طاغوتی قوتوں کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دیا، اے محبوب قائد! ہم نے حریت کا درس آپ سے سیکها ہے، اے میرے عظیم قائد! آپ نے ہی ہمیں سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے راستے پر گامزن کر دیا تها، اے قائد عظیم الشان ! آپ کی شہادت نہ صرف ملت جعفریہ پاکستان کے لئے عظیم سانحہ ہے بلکہ دنیا بهر کے حریت پسندوں کے لئے ایک عظم صدمہ ثابت ہوئی ہے۔

اے شہید! آپ کی زندگی سے ہمیں ایک ہی درس ملا ہے کہ اسلام پر جان کو قربان کر دو لیکن کسی بهی چیز کے لئے اسلام کو قربان نہ کرو، اے فرزند امام زمانہ عج! آپ نے ملت کو سر فخر سے بلند کر کے جینا سکهایا، یہ ملت آج بهی آپ کی احسان مند ہے اور اللہ سے دعا کرتی ہے کہ خدایا ہمیں ایک مرتبہ پهر اپنے محبوب او ر عظیم الشان قائد جیسا رہبر عطا فرما، اے قائد ملت، اے فرزند علی(ع) و زہرا(س)، ہم آپ کے فراق میں تڑپ رہے ہیں۔ آج ٥ اگست ہے، ہماری آنکهیں نم ہیں اور ہم آپ کی یاد میں تڑپتے ہیں، خدا کرے کے میرے چمن وہ بہار پهر آئے۔۔۔ اے ہمارے عظیم قائد! ہم آج امام زمانہ عج سے توسل کئے ہوئے ہیں کہ آپ کا نعم البدل عطا ہو اور آپ جیسی قیادت عطا ہو ۔

اتحاد مسلمین کے بارے میں شہید قائد عارف حسینی کے کچهہ فرمودات:
1. شیعہ اور سنی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے تاریخی اختلافات کو حدود میں رکھیں، ہمارے مشترکہ دشمن امریکہ، روس اور اسرائیل ہیں، جو ہمیں نابود کرنے کے درپے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم اپنے فروعی اختلافات کو بھلا کر اسلام کے دشمنوں کے خلاف مشترکہ مؤقف اختیار کریں۔ درحقیقت اپنے اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے بھی زندگی میں مل جل کر رہا جاسکتا ہے۔ آخر یہ کیوں ضروری ہے کہ میں کسی کے یا کوئی میرے مذہبی جذبات مجروح کرے۔ اسلام میں اسی وجہ سے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی ممانعت ہے کہ اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ نفرت ہی موجب فساد بنتی ہے، البتہ کسی کی دل آزاری کئے بغیر اپنے عقائد پر سختی سے کاربند رہنا اسلام میں بہت ضروری ہے۔ ایران میں شروع شروع میں بعض بیرونی طاقتوں نے کرد قبائل کو عقائد کی بنا پر بغاوت پر ابھارا لیکن جب دوسری طرف سے ان کے مذہبی جذبات کے احترام کا وطیرہ اختیار کیا گیا تو شیعہ سنی اتحاد کی شاندار مثال دیکھنے میں آئی۔
(شہید باقر الصدر ؒ اور سیدہ بنت الہدیٰ کی چوتھی برسی کے موقع پر پیغامات "اپریل1984ء”)

2. ہمارا پیغام اخوت: وقت آگیا ہے کہ وحی الٰہی کے ذریعے پہنچے ہوئے ہمارے عظیم پیغام حیات اسلام کی صداقتوں پر یقین رکھنے والے تمام انسان باہم متحد ہوکر اُٹھ کھڑے ہوں، تاکہ انسانوں کو فریب دے کر لوٹنے والی استعماری اور شیطانی قوتوں پر بھرپور ضرب لگائی جاسکے اور دنیا میں عدل و انصاف، الفت و محبت اور حقیقی امن و آشتی کی فضا قائم کی جاسکے۔ بندوں پر بندوں کی حکمرانی ختم کرکے فقط مالک حقیقی کی حکمرانی کا نفاذ ہی ان شہدائے راہ حق کی تمنا ہے اور یہ انسانی کامرانیوں کی منزل ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پیغام شہداء کے امین بنیں اور ہر طرح کی قربانی دے کر اس امانت کی حفاظت کریں۔ وطن عزیز پاکستان میں حقیقی اسلامی معاشرے کا قیام ہماری اولین خواہش بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ اس مقصد کے حصول کیلئے میں ہر مسلمان محب وطن پاکستانی کو دعوت اتحاد عمل دیتا ہوں۔

3. آج اتحاد اُمت کی اشد ضرورت ہے: آج کا مسلمان بیدار ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو معلوم ہوچکا ہے کہ ہمارا مرکز اور ہماری بقاء صرف اور صرف اسلام سے ہے اور ہمیں اتحاد بین المسلمین کے جھنڈے تلے جمع ہو کر روسی اور امریکی گماشتوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ آج مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں ہے بلکہ اسلام و کفر کا مسئلہ درپیش ہے۔ مسلمان متحد ہوکر ہی قومیتوں کے بتوں کو توڑ سکتے ہیں۔ ہمیں ناصرف سازشی عناصر پر کڑی نظر رکھنا ہوگی بلکہ فسادات برپا کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنا ہوں گے۔ وہ دن دور نہیں جب بین الاقوامی استحصالی قوتوں کو امت مسلمہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوسکے گی. اسلام کے دشمنوں پر عیاں کر دینا چاہیے کہ فلسطین، لبنان، افغانستان، ہندوستان، اری ٹیریا اور دنیا کے دیگر ممالک میں مسلمانوں پر جو وحشت و بربریت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے اور اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران اور لیبیا کے خلاف جو دیدہ و دانستہ اشتعال انگیز کارروائیاں کی جا رہی ہیں، وہ اس بات کی متقاضی ہیں کہ پوری امت مسلمہ ایک جسد واحد کی طرح اپنے تمام وسائل کے ساتھ دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے، اور اگر ایسا ممکن ہوسکا اور انشاءاللہ ایک دن ضرور ایسا ہوگا تو پھر کسی بین الاقوامی استحصالی قوت کو امت مسلمہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوسکے گی۔ ہم آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ آپ امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کیلئے سرگرم عمل ہوجائیں گے اور باطل قوتوں کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل کو اپنانے کیلئے عملی اقدامات کی طرف توجہ فرمائیں گے، نہ یہ کہ بعض حکومتوں کے ایماء پر آپ اسلامی کانفرنس کی طرف سے ایسی کانفرنس کا انعقاد کروائیں جو امت مسلمہ کے مفادات کو زک پہنچانے کے درپے ہو۔

متعلقہ مضامین

Back to top button