مقالہ جات

لانگ مارچ ….بے حس حکمرانوں کو بیدار کرنے کا زلزلہ

ہم میں سے کون ہے جو اس حقیقت سے واقف نہیں، انسان حیوانوں سے برتر بھی ہوسکتا ہے اور بدتر بھی۔ انسان اور حیوان میں جہت افتراق عقل ہے، انسان عقل رکھتا ہے حیوان نہیں رکھتا۔ عقل بہت بڑی نعمت ہے، عقل حق اور باطل کی پہچان کا وسیلہ ہے۔ عقل سلیم ہی کا فیصلہ ہے کہ عدل حسن ہے اور ظلم، قبیح، تجاوز اور تعدی کرنا بد ہے اور مساوات و برابری کا پاس رکھنا خوب۔ ذاتی مفادات پر اجتماعی مفادات کو قربانی کرنا مذموم فعل ہے اور قومی و اجتماعی امور کے لئے تگ ودو کرکے خون پسینہ کرنا مستحسن کام۔ کمزورں کے حقوق پر ڈاکہ مارنا پست، قبیح و بری حرکت ہے اور دفاع مظلومین میں صدائے حق بلند کرنا بیدار انسان، الہی انسان، دردمند انسان اور وظیفہ شناس انسان کی علامت ہے۔ قبیح ترین و وحشی ترین درندوں کا مصداق وطن عزیز پاکستان میں فراوان پائے جاتے ہیں، جن کا محبوب مشغلہ بے گناہ لوگوں کو خون میں نہلانا ہے، ان کے لئے واحد باعث مسرت کام کمزوروں کا قتل عام اور اقلیتی گروہ کے حقوق غصب کرنا ہے۔ پاکستان کی سرزمین پر سب سے مظلوم قوم شیعہ ہے، اس ملک میں شیعہ ہونا سب سے بڑا جرم ہے۔ پاکستان میں ظالم حکمرانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اس ملک میں شیعوں کی جان اور مال کی حفاظت کرنا حکومت کے لئے ناقابل بخشش گناہ ہے، بلکہ ان کو بموں اور بندوق سے چھلنی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور ان کو مدد فراہم کرنا حکومت کی زمہ داری ہے۔ اسی ناپاک فکر کا نتیجہ ہے کہ عرصہ دراز سے ارض پاکستان شیعوں کے لئے تنگ ہوچکی ہے۔

شیعہ قوم اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی اپنے ملک کو اجنبی محسوس کرتی ہے۔ اپنے گھر کے اندر ہوتے ہوئے بھی وہ سمجھتی ہے کہ ہم دشمنوں سے چهپ کر کسی تاریک کوٹھری میں بند ہیں۔ جب وہ لوگ گھروں سے باہر نکلتے ہیں تو انہیں کوئی ایسی جگہ دکھائی نہیں دیتی، جہاں پر امن وامان یقینی ہو۔ کوئی ایسا شعبہ نظر نہیں آتا جہاں ان کی جان کے لئے خطرہ نہ ہو۔ مجالس اور محافل برپا کرنے کے لئے کوئی امام بارگاہ اور حسینہ ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا جو دہشتگردی سے محفوظ ہو۔ نوکری یا مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے کوئی ایسا شہر، علاقہ اور ادارہ نظر نہیں آتا، جہاں وہ بے خوف اپنی فعالیت سرانجام دے سکیں۔ کسی ایسے اسکول و مدرسے کا سراغ نہیں ملتا کہ جہاں وہ اطمینان سے اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کراسکیں، شیعوں کے لئے جگہ جگہ دہشتگردی کا جال بچھا ہوا ہے۔ انسانیت اور امن کے دشمن، زرخرید ناداں افراد شیعوں کے خون ناحق سے اپنے نجس ہاتهوں کو رنگین کرکے پرواز جنت کی ٹکٹ لینے کے لئے ہمہ وقت منتظر بیٹھے ہوتے ہیں۔

غرض یہ کہ پاکستان میں شیعہ قوم چاروں طرف پھیلی ہوئی ظلم وستم اور خوف ودہشتگردی کی آگ میں جل رہی ہے، مظالم کے گہرے سمندر میں ڈوبی ہوئی ہے، شیعہ قوم کی مظلومیت پر نیلگون آسمان بھی نوحہ کناں ہے، شیعہ قوم کو مظلومیت، محرومیت اور مایوسی کے سمندر سے نکال باہر کرنے کے لئے خدا نے علامہ ناصر عباس جعفری کی شکل میں مسیحا بهیجا، جنہوں نے افرادی قوت کی کمی کے باوجود اللہ کی نصرت پر اعتماد کرتے ہوئے میدان میں قدم رکھا، ظالم حکمرانوں کے کانوں تک صدائے حق پہنچانے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ شیعہ قوم کو وادی مظلومیت سے نکالنے کے لئے ہر طرح کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہ کرنے کا فیصلہ کیا – چنانچہ وہ تقاضائے حال کے مطابق حکمت عملی اپناتے رہے۔ پہلے مختلف زرائع سے حکمرانوں تک شیعہ کشی کے سلسلے کو رکوانے کا پیغام پہنچایا، لیکن کہیں پر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ظالم حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ دوسری طرف شیعوں پر ڈھائے جانے والے مظالم میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ 19 مارچ کے دن ایک شیعہ پولیس کانسٹیبل اظہر حسین کو شہید کیا گیا، اس کے بعد 22 مارچ کو ایک امام بارگاہ کے متول ایڈووکیٹ سید رضی الحسن کو دن دیہاڑے بھرے بازار میں راہ چلتے موٹر سائیکل سواروں نے سر میں گولیاں مار کر شہید کر دیا، 5 مئی کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی دو مختلف وارداتوں میں ایک پروفیسر اختر علی، ایک ٹیچر مختیار بلوچ اور دو ایڈووکیٹس عاطف علی اور علی مرتجز کو سرکلر روڈ پر نشانہ بنایا گیا۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سندھ بالخصوص کراچی میں 3 اپریل کو جامعہ کراچی سے فزکس میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے ہاشم رضوی کو نشانہ بنایا گیا۔ 8 اپریل کو دو اہل تشیع افراد شاہد حسین اور علی سجاد کو ٹارگٹ کیا گیا۔ 8 مئی کو سول سوسائٹی کے معروف قومی کارکن خرم ذکی کو نشانہ بنایا گیا۔اس کے چند روز بعد ہی پاراچنار میں معصوم اور بے گناہ اہل تشیع کو نشانہ بنایا جاتا ہے، امام حسین ؑ کے جشن ولادت کے موقع پرنادان اہلکار سڑک پر پرامن طور پہ بیٹھے عوام کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔ تین اہل تشیع شہید اور دس سے زائد زخمی ہوتے ہیں، ان زخمیوں پر بھی ایف آئی آرز کاٹی جاتی ہیں، 22 جون 20016 کو پاکستان کا معروف قوال امجد صابری کو درجہ شہادت پر پہنچا دیا جاتا ہے – یہ ظلم اور تشدد کی انتہا نہیں ہے تو کیا ہے – قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے احساس کیا کہ اب خاموش مصلحت کا شکار رہنا بالکل مناسب نہیں بلکہ وسیع پیمانے پر شیعیان حیدر کرار کے حقوق کا دفاع کرنا ضروری ہے۔ اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے 13 مئی کو پورے پاکستان کے شہروں میں شیعوں پر تسلسل سے جاری ٹارگٹ کلنگ کے خلاف اور ظالم حکمرانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال کر بیٹهے۔ یہ احتجاجی بھوک ہرتالی کیمپ تیرہ مئ سے ابھی تک جاری ہے اور ابھی وہ پوری شیعہ قوم کو لیکر اسلام آباد میں لانگ مارچ کریں گے۔ بےشک لانگ مارچ بے حس حکمرانوں کو بیدار کرنے کا زلزلہ ہے۔ عوامی حلقوں میں کچهہ مغرض افراد بھوک ہڑتال اور لانگ مارچ کے بارے میں مختلف شبہات ایجاد کررہے ہیں، وہ اس راہ سے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں، جن سے عوام کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ایک شبہ یہ ہے وہ کہتے ہیں کہ علامہ راجا ناصر عباس کا یہ اقدام درست نہیں، مصلحتوں کے خلاف ہے، اتحاد مسلمین کو پارہ کرنے والا اقدام ہے، ہمیں خاموشی سے حکمت عملی وضع کرنی چاہئے، شدت پسندی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے، یہ ہمارے مفاد میں نہیں، و…

ایسے لوگوں کے لئے میرا جواب یہ ہے کہ ایسی باتیں غیر ذمہ دارانہ ہیں، بلکہ حجت الاسلام علامہ راجا ناصر عباس جعفری صاحب کا اقدام بلکل برمحل ہے، فرامین وسیرت پیغمبر و ائمہ کے عین مطابق ہے، خوش آئندی کا حامل ان کے اس اقدام میں ایسی بڑی تین خصوصیت ہمیں دکھائی دے رہی ہیں، جو اس اقدام برمحل کی کامیابی کی نوید دے رہی ہیں۔

(اول) یہ قدم انہوں نے مستضعفین اور مظلومین کے حقوق کے دفاع میں اٹهایا گیا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص)اور آئمہ ھدی(ع) کی مسلمہ سیرت میں مستضعفین کے امور کو اہمیت دینا ہے۔ یعنی ان کے ساتهہ ہونا، ان کے محاذ پر کھڑے ہونا، ان کی کرامت اور شرافت کی حفاظت کرنا، ان کی محرومیت کو دور کرنا، ظلم وجبر کی چکی میں پسے ہوئے اور غلامی کے قید وبند میں زندگی بسر کرنے پر مجبور لوگوں کو آذاد کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔

(دوم) یہ قدم انہوں نے مستکبرین کے مقابلے میں اٹهایا ہے – اس سلسلے میں بھی آیات قرآن اور فرامین معصومین میں بڑی شدت سے تاکید ہوئی ہے۔ مستکبرین سے مقابلہ نہ کرنے کو زمین میں فسادات پھیلانے کا مترادف قرار دیا ہے۔ اگر استکبار کا مقابلہ نہ کیا جائے، مستکبروں کے تسلط کی روک تھام نہ کی جائے اور لوگ ان کی سرکشی وجارحیت کے مقابلے میں اٹهہ کهڑے نہ ہوں تو مستکبرین تمام حرمتوں کو پامال کرڈالیں گے اور تمام شرافت و کرامت کو دفن کردیں گے اور پھر ذکر خدا کے تمام مراکز منہدم کرنے کی طرف بڑھیں گے۔ الہی پیغام لانے والوں کی تحریک کا راستہ اور ان کا تاریخی کردار اس طرح تها کہ وہ ظلمتوں کے مقابلے میں قیام کرتے تھے، شرک و بت پرستی، امتیازی حیثیت، ظلم وستم، استحصال، غلامی، عدم مساوات، خود غرضی اور عدم آذادی، غرض ہر طرح کے استضعاف کے مظاہر کے مخالف تھے۔ انہوں نے کھبی مستکبروں کا ساتهہ نہیں دیا اور وہ ظلمت وظلم کے مقابلہ میں آنے کے علاوہ کسی اور راستے پر گامزن نہیں ہوئے۔

(سوم) اس اقدام میں استقامت اور صبر نمایاں طور پر نظر آرہے ہیں زندگی کی ہر کامیابی صبر اور استقامت سے جڑی ہوئی ہے۔ خداوند متعال نے قرآن مجید کی پچاس آیتوں میں صبر و استقامت کی تلقین فرمائی ہے، اس کی رغبت دلائی ہے اور اس کو سراہا ہے صبر اور استقامت انبیاء کی خصوصیات میں سے ہے۔

علامہ راجا ناصر عباس جعفری صاحب انبیاء کے نقش قدم پر چلتے ہوتے صبر اور استقامت سے اپنے بلند ہدف کی طرف بڑهہ رہے ہیں۔ ابھی وہ اسلام آباد میں پوری شیعہ قوم کو لیکر لانگ مارچ کریں گے، بےشک یہ لانگ مارچ بے حس حکمرانوں کو بیدار کرنے کا زلزلہ ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button