پاکستان

ڈی آئی خان کی خونی عید کا احوال

رپورٹ: آئی اے خان

ڈیرہ اسماعیل خان کے شہریوں کیلئے یہ عید بھی خونی عید ثابت ہوئی۔ عید کے پہلے روز معروف قانون دان مجلس وحدت مسلمین کی شوریٰ عالی کے رکن سید شاہد عباس شیرازی کو نامعلوم دہشت گردوں نے ملتان روڈ پر واقع وینسم کالج کے نزدیک اپنے بھائیوں کے سامنے فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔ سید شاہد عباس شیرازی ایڈووکیٹ ایف آئی اے کے اعلٰی آفیسر مشتاق حسین شیرازی مرحوم کے فرزند تھے۔ سید شاہد شیرازی اپنے بھائیوں کے ہمراہ چاہ سید منور سے گھر واپس جا رہے تھے، ان کے بھائی سامان لینے کیلئے بیکری میں گئے، ابھی وہ خریداری میں مصروف تھے کہ نامعلوم دہشت گردوں نے سید شاہد شیرازی پر قریب سے فائرنگ کی۔ چہرے کے پچھلی طرف تقریباً پانچ گولیاں لگنے سے وہ شدید زخمی ہوگئے۔ ان کے بھائی فائرنگ کی آواز سن کر بیکری سے باہر آئے، مگر قاتل اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوکر فرار ہوچکے تھے۔ سید شاہد شیرازی کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا، مگر وہ جانبر نہ ہوسکے۔ ان کی شہادت ڈیرہ اسماعیل خان کے شہریوں کیلئے بالعموم اور اہل تشیع کیلئے بالخصوص قیامت ثابت ہوئی۔

اہل تشیع کی ملی تنظیموں نے شاہد شیرازی کی شہادت پر انتہائی سخت ردعمل ظاہر کیا اور شدید احتجاج کے اعلان کیساتھ حکومت اور اداروں سے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ مارچ کے آخر سے ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا جن ایک مرتبہ پھر بے قابو ہوچکا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کی اس لہر میں دو ٹیچر، سات پولیس اہلکار، چار قانون دان، دو تاجر، ایک بینک کا محافظ نشانہ بن چکے ہیں، جبکہ دہشت گردی کی اس حالیہ لہر میں ملوث افراد کی گرفتاری میں پولیس، انتظامیہ، سکیورٹی ادارے مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ سید شاہد شیرازی کی نماز جنازہ اگلے روز نو بجے کوٹلی امام حسین (ع) میں ادا کرنے کا اعلان کیا گیا۔ تاہم مجلس وحدت مسلمین، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، شیعہ علماء کونسل نے مشترکہ طور پر احتجاج کا اعلان کیا اور مطالبات کی منظوری تک سید شاہد شیرازی کی نماز جنازہ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ صبح نو بجے سے جو احتجاجی دھرنا کوٹلی امام حسین (ع) کے سامنے شروع ہوا، اس کا دائرہ چند گھنٹوں میں کئی علاقوں تک اس طرح پھیل گیا کہ پورا شہر ہی جام ہوکر رہ گیا۔

مریالی موڑ کے نزدیک اہل تشیع مستورات نے دھرنا دیکر ملتان روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کر دیا۔ جس کی وجہ سے تمام تر ٹریفک قریشی موڑ سے بائی پاس کے ذریعے رواں ہو پایا۔ دوسری جانب چشمہ روڈ پر سید علیاں کے مقام پر مظاہرین نے دھرنا دیکر ڈی آئی خان کو عملی طور پر جام کر دیا۔ مین بنوں روڈ اور چاہ سید منور روڈ بند ہونے سے شہر کے اندر ٹریفک معطل ہوگئی جبکہ چشمہ اور ملتان روڈ کی بندش سے بیرونی آمدورفت معطل ہوگئی۔ عید کے دوسرے روز جب ٹانک، کلاچی، رنگپور، پہاڑ پور، دامان کے علاقے سے لوگ تفریح کی خاطر ڈی آئی خان کا رخ کرتے ہیں، اسی دن دھرنوں کے باعث ٹریفک کی بندش سے شہریوں کو انتہائی مشکلات اور انتظامیہ بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئی۔ دھرنوں کے باعث ٹانک، بھکر، کلاچی پولیس کو باقاعدہ اطلاع دی گئی کہ وہ ٹریفک کا بہاؤ روکنے میں اپنا کردار ادا کریں اور شہریوں کو ڈی آئی خان کے حالات سے متعلق آگاہ فرمائیں۔

ابھی احتجاجی دھرنے جاری تھے کہ عید گاہ کلاں کے علاقے عثمانیہ سٹریٹ کے پاس دتہ خیل سے تعلق رکھنے والے دو قبائلی نوجوان بھائیوں نور عالم اور شیر زمان کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کر ڈالا۔ دونوں بھائی موٹر سائیکل پر سوار تھے۔ متعدد گولیاں لگنے سے دونوں موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ اس واقعہ کے ملزمان بھی ارتکاب جرم کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس نے واقعہ کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا۔ عیدگاہ کلاں روڈ بھی اس واقعہ کے باعث بند کر دیا گیا۔ ایک قتل کے خلاف جاری شدید احتجاج اور اس دوران مزید دو افراد کے قتل نے شہر میں خوف و دہشت کی فضا قائم کر دی۔ انتظامیہ نے پہلے پہل اپنے طور احتجاجی دھرنا دینے والی ملی جماعتوں سے مذاکرات کی کوشش کی، تاہم انہیں کامیابی نہیں ملی۔ پورا دن شہر سخت کشیدگی کا شکار رہا۔ اہل تشیع تنظیموں نے آٹھ افراد پر مشتمل ایک نمائندہ کمیٹی قائم کی۔ جس سے مذاکرات کیلئے پہلے سٹیشن کمانڈر اور بریگیڈئیر کوٹلی امام حسین (ع) آئے۔ مذاکرات کا دوسرا دور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اور صوبائی وزیر قانون علی امین خان گنڈہ پور کے ساتھ اس کمیٹی کا ہوا۔ جس کے بعد شہید سید شاہد شیرازی کی نماز جنازہ شام ساڑھے چھ بجے ادا کی گئی جبکہ تدفین کے بعد احتجاجی دھرنے پرامن طور پر اختتام پذیر ہوگئے۔

اہل تشیع کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ڈی پی او کو تبدیل کیا جائے۔ ڈی ایس پی کو معطل کیا جائے۔ صوبہ بھر میں ٹارگٹ کلنگ میں نشانہ بننے والوں کیلئے خصوصی امدادی پیکج کا اعلان کیا جائے۔ منتخب ایم پی اے اور صوبائی وزیر مال علی امین خان گنڈہ پور مستعفی ہوں۔ قاتلوں کو فی الفور گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب شروع کیا جائے۔ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس و انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، لہذا شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے۔ نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کیا جائے۔ گرچہ ان مطالبات پر فوری طور پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، تاہم سکیورٹی افسران، انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے یقین دھانی پر احتجاج موخر کر دیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کے دوران مختلف مقامات پر فائرنگ کے واقعات بھی پیش آئے۔ گھاس منڈی کے قریب نامعلوم افراد نے ہوائی فائرنگ کرکے بازار بند کرانے کی کوشش کی، جس کے بعد پولیس نے محلہ شاہیں میں سرچ آپریشن کرکے مختلف مقامات پر چھاپے مارے۔ اس طرح کوٹلہ سیداں کے علاقے میں ٹارگٹ کلنگ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر پولیس نے فائرنگ کی، جس میں ایک شخص زخمی ہوا، پولیس نے دو افراد کو گرفتار بھی کرلیا۔

خیبر پختونخوا خصوصاً ڈی آئی خان کے حالات کے باعث وزیراعلٰی نے ایپکس کمیٹی کا اجلاس طلب کیا، تاکہ دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے کوئی متفقہ لائحہ عمل دیا جاسکے۔ عید کے پہلے، دوسرے دن پے در پے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات، ہوائی فائرنگ، دہشت گردی، ناکے، گرفتاریوں کے باعث شہر کی مجموعی فضا سخت مکدر تھی کہ تیسرے روز یکے بعد دیگر ے پیش آنے والے حادثات نے دکھ و افسوس کی فضا کو مزید گہرا کر دیا۔ پہلے شہر کے قریب سڑک کنارے ایک شخص گرمی کی شدت سے جاں بحق ہوگیا، جبکہ کچھ دیر بعد ڈی آئی خان سے تعلق رکھنے والے تین نوجوان طالب علم دریائے سندھ میں نہاتے ہوئے ڈوب گئے، ان میں سے ایک نوجوان کو تو بچا لیا گیا جبکہ باقی دونوں کی نعشیں تک نہ مل سکیں۔ اسی دوران ایبٹ آباد کے علاقے ٹھنڈیانی روڈ پر ایک حادثہ پیش آیا۔ جس میں سیاحوں سے بھری ایک وین گہری کھائی میں جاگری، جس میں ڈی آئی خان سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے سات افراد جاں بحق ہوگئے۔ عید کے موقع پر ایک ساتھ سات جنازے جب علاقے میں پہنچے تو کہرام مچ گیا۔ پے در پے ان واقعات و سانحات کے باعث یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ڈی آئی خان کے شہریوں کیلئے یہ عید بھی خونی عید ثابت ہوئی ہے۔

ماخذ : اسلام ٹائمز

متعلقہ مضامین

Back to top button