مقالہ جات

کاروانِ امام حسین علیہ السّلام مدینہ سے کربلا تک

کاروانِ کربلا پیغمبر اکرمؐ  ‘ حضرت زھراء سلام اللہ علیھا اور امام حسین ؑ  سے وداع کے بعد روز اتوار ۲۸ رجب المرجب سن ۶۰ ھجری میں مکّہ  کے ارادہ سے مدینہ  کو ترک کیا ۔ امام حسین  علیہ السّلام  نے یزید ِ ملعون کی بیعت سے انکار کرکے مدینہ سے نکل پڑے اور یہ کاروان دلِ تاریکی میں بیابانوں کی اندھیری راہ میں ایک منزل سے دوسرہ منزل کو طے کرنے لگا۔
مکّہ: چندروز بیابانوں’ کوھساروں اوردرّوں سے گذرتا ہوا’ ۳  شعبان  ۶۰ ھجری کو یہ کاروان مکّہ پہونچا۔(اتفاق سے ۳شعبان امام حسین ؑ کی تاریخِ ولادت ہے)۔ محلۂ   شعبِ علی  عباس ابنِ عبدالمطلب  کے مکان میں قیام فرمایا۔اندازہ کے مطابق یہ مکان آج کی تاریخ (۲۰۱۲/۱۴۳۳) میں ولادت پیغمبر سے منسوب جگہ موجود لائبریری (مکتبہ) کے سامنے تھا۔۳/شعبان سے ۸/ذی الحجّہ ۶۰ھجری تک اسی مکان میں رہے۔
  شعبِ علی: آج کل شعبِ علی’ شعبِ عامر کہلاتا ہے۔ یہی علاقہ ہے جس میں بنی ہاشم رہا کرتے تھےاور اسی علاقے میں پیغمبر اکرمؐ کی ولادت ہوئی۔ اسی علاقہ میں حضرت زھراء  علیھا السلام کی ولادت ہوئی اور اسی علاقہ میں ملیکۃ العرب حضرتِ خدیجہ سلام اللہ علیھا کا مکان  تھا۔آج جغرافیائی اعتبار سے ایک ایک جگہ کا دقیق پتہ لگانا مشکل ہے لیکن تاریخی حیثیت سے یہ ایک امرِ مسلّم ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کے چپّہ چپّہ پر پیغمبر ِ اکرمؐ ’ حضرتِ علیؑ    اور فاطمۃالزّھراء سلام اللہ علیھا’ حضرتِ ابوطالب و بی بی خدیجہ علیھما السلام کے قدم مبارک  پڑے ہیں۔ اس لئے مکہ ّ جانے والےاس علاقہ میں ضرور جائیں اور اس سر زمین پر ان تصوّرات کے ساتھ  کہ اس پر معصومین کے قدم پڑے ہیں’ ٹہلیں اور چلیں اوران کی بارگاہ میں سلام پیش کریں۔
مکّہ سے امام حسین علیہ السّلام کی روانگی:
آٹھویں ذی الحجّہ۶۰ھجری کو امام حسین علیہ السّلام نے مکہ کو ترک کیا اور عراق کے ارادہ سے نکل پڑے۔امام ؑ نے حج کو عمرہ میں تبدیل۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ آ پ نے روز عرفہ یعنی ۹/ذی الحجہ کو آپ نے میدانِ عرفات میں جبل الرّحمت کے دامن میں دعاءِ عرفہ پڑھی جو کہ معارف کا ایک خزانہ ہے۔
 جن تاریخوں میں امام حسین علیہ السّلام جن منزلوں سے   گذرے ان کے نام نیچے درج کئے جا رہے ہیں:
پہلی منزل : ابطح۔ ۱۱/ ذی الحجّہ۶۰ھجری۔
دوسری منزل    : تنعیم۔ ۱۱/ ذی الحجّہ۶۰ھجری۔
تیسری منزل     : صفاح۔ ۱۱/ذی الحجّہ۶۰ھجری-
چوتھی منزل     : وادی  العقیق۔۱۲ /ذی الحجّہ۶۰ھجری۔ایک روایت کے مطابق عون و محمد فرزندانِ جنابِ زینب(س) کاروان سے ملحق ہوئے۔
پانچویں منزل    : وادی الصفرا۔ ۱۳/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔
چھٹی منزل       : ذاتِ عِرق۔۱۴/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔آجکل  اسکو طریقِ شرقی یا ذاتِ عرق مندثرہ  کہتے ہیں اس مقام پر بشر بن غالب  جو عراق سے آرہا تھا اورعبداللہ ریاشی نے بھی ملاقات کی۔
ساتویں  منزل   : حاجِر۔ ۱۵/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔جمعرات کا دن ’ اسی مقام سے عبداللہ بن یقظر یا قیس بن مسہرصیداوی کو ایک خط کے ہمراہ مسلم بن عقیل کے پاس بھیجا لیکن یہ لوگ قادسیہ کے مقام پرحصین بن نمیر کے ذریعہ گرفتار کرلئے گئےاور بعد میں قتل کردئے گئے۔
آٹھویں منزل      : فَید۔ ۱۶/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔
نویں منزل : اِجفَر۔ ۱۷/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔مکہ سے ۳۶ فرسخ کے فاصلہ پر ہے۔ ایک فرسخ  ساڑھے پانچ کلومیٹر سے کچھ کم ہوتاہے۔اس طرح  اجفر مکہ سے تقریباً   ۱۹۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔
دسویں منزل     : خُزَیمیّہ۔۱۸ و ۱۹/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔ایک دن اور ایک رات یہاں قیام فرمایا۔ اسی مقام پر جنابِ زینب سلام اللہ علیھا نے  شب  میں ہاتف کی ندا سنی جو یہ شعر کہ رہا تھا کہ یہ قافلہ موت کی طرف  بڑھ رہا ہے اور موت ان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ امام حسین ؑ نے فرمایا: جو کچھ خدا نے مقرر کیا ہے ہو کے رہےگا۔
گیارہویں منزل   : شقوق۔ ۲۰/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔یہیں مشہور شاعر فرزدق نے امام ؑ سے ملاقات کیا۔
بارہوںمنزل       : زورد۔۲۱/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔ یہاں زہیر بن قین بجلی نے امام ؑ سے  ملاقات کیا۔یہ بات قابلِ توجہ ہےکہ زہیر امام  حسین  اور امام علی کے چاہنے والوں میں سے نہ تھے بلکہ عثمانی  العقیدہ تھے اور حج کر کے لوٹ رہے تھے لیکن امام سے ملاقات کے بعد ہدایت پا گئے۔
تیرہویں منزل     : ثعلبیہ۔۲۲/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔یہ ایک کھنڈر دیہات تھا ۔ مکّہ کیطرف سے دو لوگ آئے جناب مسلم اور ہانی بن عروہ کی شہادت کی خبر دی اور امامؑ نے کئی مرتبہ کہا: انّ للہ وانّ الیہ راجعون اور پھر صدائے گریہ و نالہ بلند ہوئی۔اس مقام پرکئی یادگار باتیں رونما ہوئیں مثلاً امام ؑ نے یومَ ندعوا کلّ اناسٍ بامامہم  اور والشمس والضحھا اور دوسری کئی  آیتوں کی تفسیر بیان فرمائی۔اسی مقام پر آپ نے اصحاب  صلاح و مشورے کے لئے میٹنگ طلب کی اور جناب مسلم کے بچّوں کو پرسہ دیا اورلوگوں کو حالات سے آگاہ کیا اور ان سے کہا جو جانا چاہے جاسکتا ہے۔ سب نے بیک زبان کہا ہم وہی راستہ اپنائینگے جو مسلم نے اپنائی۔  (اسی  تاریخ کو ۶۰ ھجری  میں ابن زیاد کے ذریعہ میثم تمّار کی شہادت واقع ہوئی)   
چودھویں منزل  : زُبالہ۔۲۳ /ذی الحجّہ۶۰ھجری۔مرحوم شیخ مفید و علامہ مجلسی کےمطابق  اس تاریخ میں جناب مسلم وہانی کی شہادت کی  خبرپہونچی۔بعض مقاتل میں لکھا ہے کہ امام حسین ؑ نے یہاں بھی اعلان کیا کہ جو جانا چاے چلا جائے۔
پندرھویں منزل  : القاع۔ ۲۴/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔
سولھویں منزل  : بطنِ عقبہ۔ ۲۵/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔ امام صادقؑ سے روایت ہے کہ جب امام حسینؑ وادیٔ عقبہ کی بلندی پرتشریف لائے تو آپ ؑنے اصحاب سےفرمایا: میں نہیں دیکھتا خود کو مگر یہ کہ دشمن کے ہاتھوں قتل کیا جاؤں گا۔اصحاب نے پوچھا کیوں یا ابا عبداللہ؟ فرمایا:میں نے خواب دیکھا کہ کچھ کتّے مجھ پر حملہ کررہے ہیں اور ان میں سےایک  کتّاانتہائی موذی اور جُزامی (سفید داغ والا) ہے۔
سترہویں منزل   : قرعاء۔ ۲۵/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔یہ مقام ِشِراف سے  تقریباً دو  میل کے فاصلہ پراور واقصہ کے قریب ہے۔
 اٹھارویں منزل   : مغیثہ۔۲۵/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔یہ جگہ عذیب الھجانات سے  بتّیس میل کے فاصلہ پر ہے۔
 انّیسویں منزل  : شِراف یا اشراف ۔۲۶/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔اس مقام پر امام ؑ نے حکم دیا کہ جتنا ہو سکے پانی ذخیرہ کر لیں۔اس مقام پر تین بڑے کنویں تھے جن کا پانی بہت شیریں تھا۔اسی مقام پر ظہر کے قریب کوفہ سے آتے ہوئے ایک لشکر کو دیکھا  ۔ یہ حُر کا لشکر تھا۔
بیسویں منزل    : ذو حُسُم۔۲۷/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔ جب آپؑ نےلشکر کو آتے ہوئے دیکھاتو اپنے بائیں جانب ذو حسم نامی پہاڑ کے دامن میں پناہ لی۔ حُر بھی اپنے لشکر کے ساتھ اس مقام پر پہونچا۔ یہی جگہ ہے جہاں حرنے امام کی اقتداء میں نماز پڑھی۔اسی مقام پر جب حر نے امام کا راستہ روکا تو آپ ؑ نے فرمایا: تیری ماں تیرے  غم میں بیٹھے’ تم کیا چاہتے ہو؟ حرنے کہا:آپ کے علاوہ کوئی اور اگر میری ماں کا نام لیتا تو میں جواب دیتا لیکن آپؑ کی ماں کا نام میں بغیر ادب  کےلے نہیں سکتا۔
اکیسویں منزل   : البیضہ۔۲۷/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔یہ ایک وسیع میدان ہے۔یہاں امامؑ سے حر سے خطاب فرمایا۔یہاں امام نے بنی امیہ کی زیادتیوں کا تذکرہ فرمایا اور ان کے مقابلہ میں اپنے صبر کو بیان کیا۔یہ جگہ رہیمیہ سے قریب ہے۔
بائیسویں منزل  : عذیب الھجانات۔ ۲۸/ذی الحجّہ۶۰ھجری۔طرمّاح اور نافع امامؑ کے پاس آئے۔حر نے کوشس کیا کہ انہیں لوٹا دے لیکن امامؑ نے فرمایا یہ میرے اصحاب ہیں۔
تیئیسویں منزل  : قصر ِ بنی مقاتل۔ ۲۹/ذی الحجّہ۶۰ھجری اور پہلی محرّم سن ۶۱ ھجری۔ اس مقام پر امام ؑ نے حرکو دعوت نصرت دی لیکن اس نے قبول نہیں کیا البتہ بعد میں پشیمان ہوا۔
چوبیسویں منزل        : نینوا۔ ۱/محرّم۶۱ھجری۔دجلہ اور کربلا کے شمال مشرق کی طرف ہے۔ قدیم زمانے میں یہ علاقہ ‘‘طف’’ کا ایک گاؤں تھا ۔ یہ بلندی پر واقع ہے۔ اس کی حدود نہرِ علقمہ سے ملتی ہیں۔آجکل اس علاقہ کو ‘‘توریج’’ کہا جاتا ہے۔ امام حسین ؑ جب اس جگہ پہونچے تو ابنِ زیاد کا قاصد اس کا ایک خط لیکر حر کے پاس آیا۔ اس خط میں لکھا تھا کہ امام حسینؑ کو کسی ایسی جگہ پر محاصرہ کرو جو بے آب و گیاہ ہو۔حر نے جب امام کا راستہ روکنا چاہا زہیر ابنِ قین نے امامؑ سے کہا اس وقت جنگ کرنا آسان ہے’ آئندہ حالات مشکل تر ہوتے چلے جائنگے۔ حضرت نے جواب دیا: میں نہیں چاہتا کہ جنگ کا آغاز میری طرف سے ہو۔
پچیّسوی منزل   : کربلا۔۲/محرم ۶۱ ھجری۔کربلا کے حالات اگلے مضمون میں انشاءاللہ۔
حوالے:
۱۔الارشاد
۲۔اعلام الوریٰ
۳۔بحارالانوار
۴۔مصباح المتھجّد
۵۔مصباح کفعمی
۶۔کامل الزیارات
۷۔الغدیر
۸۔نفس المہموم
۹۔منتہی الاعمال
۱۰۔لھوف
۱۱۔قیامِ امام حسین ؑ کا جغرافیائی جائزہ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button