لبنان

سید حسن نصر اللہ کا پہلی بار آیت اللہ بہجت کے حوالے سے انٹرویو، پہلی قسط

پہلا سوال:مہربانی فرماکر کیا ہمارے لئے بیان فرماینگے کہ کس سال میں اور کیسے آپ آیت اللہ بہجت جیسے عارف انسان سے واقف متعارف ہوئے ؟

سید حسن نصر اللہ ـ : یہ قریب سن 8591کے بعد کی بات تھی کہ ہم اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران وفد کی شکل میں جایا کرتے تھے اور اس وقت میری عمر پچیس چھبیس سال کے قریب تھی ،ہم وہاں اسلامی جموریہ ایران کے ذمہ داروں کے ساتھ ملاقات کیا کرتے تھے کہ ان ملاقاتوں میں ہم لبنان ،خطے اور خاص کر مقاومت کے مسائل پر بات چیت کیا کرتے تھے ۔ ہم نے اپنے پہلے سفر میںحزب اللہ کے رہنماوں اور وفد میں شامل افراد سے کہا کہ ہم قم کی زیارت سے مشرف ہونا چاہتے ہیں اس وقت یہ پہلے سے طے نہیں تھاکہ ہم قم میں کس سے ملیں کس سے نہ ملیں ،قم کے بارے ہماری معلومات انتہائی کم تھیں ہمیں تاکید کے ساتھ یہ بتایا گیا تھا کہ جب آپ قم کی زیارت سے مشرف ہوں تو ضرور آیت اللہ بہجت  رحمۃ اللہ علیہ قدس سرہ شریف کے دیدار سے بھی مشرف ہوجائیں ،اور یہ وہ وقت تھا جب امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ بھی باحیات تھے،  جب ہم پہلی بار قم گئے تھے تو اس وقت میں بھی حزب اللہ کے رہنماووں کے اس وفد میں شامل تھا اور میں عمر کے اعتبار سے سب سے کم عمر تھا جب کہ سید عباس موسوی ہم سب میں بڑے تھے ۔محترم(آیت اللہ بہجت)نے ہمیں خوش آمدید کہا اور ہم انکی خدمت میں بیٹھے ،میں اپنی پہلی ملاقات میں ہی ان کی عظیم ہیبت کو محسوس کرگیا تھا ،میرے اور دیگر بھائیوں کے ذہن میں بہت سے سوالات تھے جنہیں ہم پوچھنا چاہتے تھے لیکن آپ کے حضور سب کچھ ہم فراموش کرگئے اور اس پوری ملاقات میں آیت اللہ بہجت ہمیں دیکھ رہے تھے لیکن ہم ان کی جانب نظریں اٹھانہیں پارہے تھے مجھے اچھی طرح یا دنہیں کہ اس ملاقات کے وقت سید عباس موسوی یا کسی ایک برادر نے آیت اللہ بہجت سے بعض نصیحتوں کی گذارش کی اور آیت اللہ بہجت نے جو نصحیتیں کیں وہ وہی ہیں جو کتاب ناصح میں موجود ہیں

جو کچھ جانتے ہو اس پر عمل کرو ،گناہوں سے پرہیز کرو ،نماز اول وقت میں پڑھو،محمد وآل محمد ص پر دورد پڑھتے رہو،استغٖار کیا کرو ۔

مجھے اتنا یاد ہے اور یہ وہی چیزیں ہیں جس کی بعد میں ہونے والی ملاقاتوں میں آپ تکرار کیا کرتے تھے اور یوں ہماری آیت اللہ بہجت کی معرفت کا آغازہوتا ہے ۔ہم اس ملاقات کے بعد ہر سال یا دوسال میں ایران جایا کرتے تھے اور یہ ہم نے اپنے لئے ضروری قراردیا تھا کہ جب بھی قم جائیں آیت اللہ بہجت کے حضور ضرورحاضر ی دیں ،ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ ہم ان کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکےہوں  ہوسکتا کہ کبھی آپ کی قم میں عدم موجودگی یا مشہد زیارت کے لئے جانے کے سبب ہم آپ کا دیدار نہ کرسکے ہوں لیکن جب بھی آپ قم میں تشریف فرما ہوں تو ہم آپ کے دیدار سے ضرور مشرف ہوتے تھے ۔

سوال:سید کیا آپ فرماسکتے ہیں کہ وہ کیا جذبہ تھا کہ آپ ان سے اس قدر وابستگی پیدا کرگئے ،جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ آیت اللہ بہجت شہرت اور تشہیرات سے پرہیز کرتے تھے باوجود اس کی آپ ایک علمی زخیرہ بھی تھے ۔

سید حسن نصر اللہ: میرا خیال ہے میں یہاں کچھ تاریخی اور گذرے وقتوں کی کچھ بات کرو ں ،دیکھیں عرفان معنویات اور ان جیسی چیزوں کی جانب ماسوائے کچھ افراد کے اکثر لبنانی طلاب کچھ زیادہ متوجہ نہ تھے کیونکہ ان کی زیادہ تر تعلیم نجف اشرف میں ہوتی تھی جہاں تدریس کا عمل عربی زبان میں تھا اور وہ فارسی زبان سے آشنائی نہیں رکھتے تھے،اس وقت طلاب کی زیادہ ترتوجہ علم فقہ اصول علم کلام تفسیر ان جیسے علوم پر تھی عام طور پر لبنانی طلاب عرفان سیروسلوک اور فلسفہ سے دور تھے، یہاں تک کہ ایران میں انقلاب برپا ہوتا ہے اور امام خمینی نجف کے پردوں میں چھپنے کے بجائے ایک آفتاب کی شکل میںپوری دنیا کے لئے طلوع فرماتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ہم سب امام خمینی کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اس وقت مسلمانوں خاص کر نئی نسل وجوان طبقے اور امام خمینی میں بغیر کسی واسطے کے رابطہ برقرار ہوچکا تھا میرے کہنے مطلب یہ ہے کہ لبنان میں کوئی اس قسم کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ لبنانیوں اور امام کے درمیان واسط بنا یا اس نے امام خمینی کو لبنان میں پہچنوایا ۔یہ ایک براہ راست تعلق اور معرفت تھی اس لئے میں ’’طلوع آفتاب ‘‘کہہ رہا ہوں سورج اور انسان کے درمیان کسی قسم کا کوئی زریعہ اور واسطہ نہیں ہے ، ہم یہاں دور سے امام خمینی سے واقف ہوئے اور امام خمینی اس نہج(عرفان سیروسلوک) سے تعلق رکھتے تھے امام ایک بڑے عارف تھے آپ نے عرفان ،اخلاق ،اور سیروسلوک کے بارے میں کتابیں بھی لکھیں ’’امام کے عشق میں ہم بھی اس نہج کے عاشق ہوگئے ‘‘اور جو کوئی بھی اس نہج اور اس راستے سے تعلق رکھتا تھا اس سے بھی وابستہ ہوگئے ۔

اگلی قسط انشاٗ اللہ بہت جلد۔۔۔

متعلقہ مضامین

Back to top button