مقالہ جات

طالبان کے ساتھی

امریکا نے سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے مذہبی انتہا پسندی کا ہتھیاراستعمال کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدارکو طول دینے کے لیے سی آئی اے نے افغانستان کی انقلابی حکومت کے خلاف پروجیکٹ میں شمولیت اختیارکی۔

مصرکے نابینا عالم عمر عبدالرحٰمن شیخ اور اسامہ بن لادن سمیت ہزاروں افراد کو پاکستان کے راستے افغانستان میں داخل کیا گیا، یوں اسامہ کو افغانستان میں اپنی جڑیں مستحکم کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان میں مخصوص تنظمیوں  نے  اس پروجیکٹ میں شمولیت اختیارکی، جب افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اﷲ حکومت کے خاتمے کے بعد انتشار بہت بڑھ گیا اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں وار  لارڈز کی علیحدہ علیحدہ حکومتیں قائم ہوگئیں تو بے نظیر بھٹو حکومت کے وزیر داخلہ میجر جنرل نصیر اﷲ بابر  نے طالبان کو پروان چڑھانے کی حکمت عملی اختیار کی۔ متعدد  قوتوں نے جنرل بابرکی حوصلہ افزائی کی، پھر طالبان  نے کابل پر قبضہ کیا۔

ملا عمر نے اپنی خلافت کے قیام کا اعلان کیا، یوں کابل پر طالبان کا   اقتدار شروع ہوا۔ طالبان حکومت نے سب سے پہلے خواتین پر تعلیم حاصل کرنے اور روزگار کے لیے گھر سے نکلنے پر پابندی عائدکردی گئی۔ جن خواتین نے ان احکامات کی خلاف ورزی کی انھیں کوڑے مارے گئے۔ طالبان نے مسلمانوں اپنے مخالف مسلمانوں کے ساتھ بھی بدترین سلوک کیا۔

ہزاروں افراد کو قتل کیا گیا۔ ان لوگوں کے پاس افغانستان سے ہجرت کے سوا دوسرا راستہ نہیں رہا۔طالبان کا تیسرا نشانہ غیر مسلم بنے جنھیں مخصوص لباس پہننے اور جزیہ دینے پر مجبورکیا گیا۔ طالبان نے افغانوں کی ہزاروں سال پرانی ثقافت کو نقصان پہنچانا شروع کیا۔ ریڈیو اور ٹی وی پر موسیقی پیش کرنے پر پابندی عائد کردی گئی اور سینما بند کردیے گئے۔ پاکستان میں بھی ایک گروہ نے طالبان حکومت کی مکمل حمایت کی اور اس حکومت کو آئیڈیل حکومت قرار دیا۔ اس وقت ڈاکٹر جاوید اقبال جیسے دانشور موجود تھے جنہوں نے طالبان حکومت کو اسلامی حکومت ماننے سے انکارکیا۔

جب امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد طالبان حکومت ختم ہوگئی۔ تو انتہا پسندوں نے قبائلی علاقوں کو اپنا مرکز بنایا تو یہاں بھی خواتین کے اسکولوں کو تباہ کیا جانے لگا۔ جب ملا فضل اﷲ نے سوات میں آپنی آمریت قائم کی تو خواتین نشانہ بنیں۔ سوات کی بچی ملالہ یوسفزئی نے خواتین کے تعلیم کے حق کے لیے آواز اٹھائی تو اس کی جان کے لالے پڑگئے اور وہ معتوب قرار پائی۔

گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں میں صحت کی عالمی تنظیم (W.H.O) کے ماہرین نے پاکستان کے متعلق دیگر ممالک سے آنے والی رپوٹوں کے جائزے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ بچوں کو اپاہج ہونے سے بچانے کے لیے پولیو کے قطرے پلائے جائیں۔ پولیوکے قطرے پلانے کے لیے باقاعدہ مہم چلائی جائے۔ ڈبلیو ایچ او نے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم چلانے کا فیصلہ کیا اور ان ممالک میں یہ مہم چلی۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں یہ مہم کامیاب ہوئی۔ پاکستان میں رجعت پسندوں نے اس مہم کے خلاف مزاحمت کی۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں اس مہم کے خلاف فتوے دیے گئے۔ یوں پولیو کا مرض پاکستان میں پھیلتا چلا گیا۔

بھارت اور بنگلہ دیش کو پولیو فری زون قرار دے دیا گیا۔ بلوچستان، خیبر پختون خواہ اورکراچی میں پولیوکے قطرے پلانے کی مہم میں شریک بہت سے اہلکاروں کو ہلاک کیا گیا‘ ان میں 10 سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکر شامل تھیں۔ جب 2 سال قبل بھارت، متحدہ عرب امارات اور یورپی ممالک نے یہ اعلان کیا کہ پولیوکے مرض کے پھیلاؤ کے خطرے کو روکنے کے لیے پاکستانی شہریوںکے داخلے پر پابندی لگادی جائے گی تو بعض علماء نے اس مہم کی حمایت کی۔

پیدائش کے بعد بچوں کی ہلاکت کی شرح اس خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ ماہر ڈاکٹر اس کی سب سے بڑی وجہ کمسن بچیوں کی شادی قرار دیتے ہیں۔ ان ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچیوں کو والدین کم خوراک دیتے ہیں، ان کی صحت مندانہ گروتھ نہیں ہوپاتی۔ طبی ماہرین کی یہ رائے ہے کہ کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی ہونی چاہیے۔ محمد علی جناح 20 ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں اس پابندی پر متفق تھے مگررجعت پسندوں نے اس قانون کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا۔

قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی میں اس اعتراض کی بناء پر یہ قانون قومی اسمبلی کے ایجنڈا میں شامل نہیں ہوسکا۔ نفسیاتی اور سماجی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ گھریلو تشدد سب سے خطرناک تشدد ہے۔ جنسی بد سلوکی پر تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمسن بچے اپنے خاندان میں سب سے زیادہ بدسلوکی کا شکار ہوتے ہیں۔ ملک میں ہر سال ہزار سے زائد خواتین اپنے قریبی عزیزوں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور ماہرین کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ تھا کہ گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی کی جائے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے سندھ میں یہ قانون کئی سال پہلے منظورکیا تھا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اس بارے میں ایک جامع قانون تیار کرایا۔ پنجاب اسمبلی نے 9 ماہ تک اس قانون پر غورکیا۔ اس قانون کا مقصد خواتین کو صرف تشدد سے بچانا ہے۔ ایسے قوانین تمام جمہوری ممالک میں نافذ ہیں مگر پہلے مولانا فضل الرحمن نے اس بل کے خلاف مہم شروع کی اور پنجاب اسمبلی کے منتخب اراکین کو زن مرید قرار دیا، پھر مولانا شیرانی نے بھی اس بل کی مخالفت کی۔

مذہبی انتہاپسندی اور رجعت پسندی کے بارے میں تحقیق کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ رجعت پسند دہرے معیارکا شکار ہیں۔ سیاسی مولوی حضرات ٹی وی چینلزکے کیمروں کے بغیر صحافیوں سے بات چیت نہیں کرتے اور اسی وقت کوئی بیان دیتے ہیں جب ٹی وی چینلز کے پرائم ٹائم نیوز میں اس بیان کو زیادہ جگہ ملے مگر اپنے حلقوں میں جاتے ہیں تو کیبل ٹی وی کو حرام قرار دیتے ہیں اور اپنے حامیوں کو اس سائنٹیفک ایجاد کی اہمیت سے آگاہ نہیں کرتے۔ یہ لوگ خواتین کی پارلیمنٹ میں نمایندگی کے ہمیشہ سے مخالف رہے ہیں مگر جب 2002 کے انتخابات میں خواتین کی منتخب اداروں میں نشستیں بڑھادی گئیں تو اپنی قریبی رشتے دار خواتین کو ان نشستوں پر منتخب کرانے لگے۔

اسلامی نظریاتی کونسل محض ایک مشاورتی ادارہ ہے۔ اس ادارے کو منتخب اسمبلیوں پر بالادستی کا حق نہیں۔ بدقسمتی سے اس کونسل کے اراکین میں سے کئی طالبان حکومت کو آئیڈیل حکومت قرار دیتے ہیں اور خواتین کی ترقی کے ہر معاملے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی جیسی لبرل جماعتوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ ایم کیو ایم داخلی بحران کا شکار ہے۔ اس قانون میں کسی قسم کی ترمیم نہیں ہونی چاہیے تاکہ پاکستان کا جدید اور لبرل ریاست کی طرف سفر تیز ہوا۔ دوسری صورت میں مذہبی انتہاپسندوں کو نئی زندگی ملے گی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button