مقالہ جات

اربعین؛ عظیم ثقافتی و تہذیبی ظرفیت

دسیوں لاکھ لوگوں پر مشتمل اربعین سید الشہداء کا پیدل سفر اُن پہلے تجربات میں سے ایک ہے جو عزادار انجمنوں کے علمی و تحقیقاتی کام ہیں، یہ کام محققانہ روشوں سے انجام پا رہا ہے جس کی مثال موجود نہیں۔ اربعین کا پیدل سفر ایک ایسی رسم ہے جو دنیا کے کسی اور مکتب میں موجود نہیں اور ہمیں حقیقت سے پُر ان واقعیتوں کی قدر زیادہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ جامعات اور مدارس کو علمی بنیادوں پر اس پیدل سفر کا مطالعہ اور تحقیق کرنی چاہیے، اسے نظریات متعارف کرانے کی بنیاد قرار دینی چاہیے اور عمل محوری کا پلیٹ فارم قرار دینا چاہیے۔
ان حالات میں سے سے اہم عملی نقطہ نظر(Pragmatic Approach) موجودہ دور میں تھذیب و تمدن سازی کا مسئلہ ہے۔ اربعین کے اس پیدل سفر کے تمدن سازی کے پہلو پر نظر ڈالنے کے لئے ہمیں چند خُردبینوں کی احتیاج ہوگی، اربعین حسینی کے کم از کم ۴، ۵ ایسے پہلو ہیں جو تمدن سازی کی نظریاتی بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔
مختلف زبانوں،شہروں،حکومتوں، مذھبوں اور ثقافتوں کا امتزاج۔
چنانچہ جیسا کہ معلوں ہوا کہ اسی مرتبہ ھالینڈ سے ہزار شیعہ و غیر شیعہ مسلمانوں پر مشتمل قافلہ اربعین پر شرکت کے لئے تیار ہو چکا ہے، اسی طرح جرمنی اور اٹلی جیسے ملکوں سے بھی تقریباََ ہزار نفوس پر مشتمل قافلے اربعین حسینی میں شرکت کے لئے عراق کی جانب رخت سفر باندھ رہے ہیں۔ اربعین حسینی کا مفہوم جو پہلے پہل ایک شیعہ مفہوم ہوا کرتا تھا مگر اب ماورا شیعی بلکہ ماورا دینی مفہوم میں بدلتا جا رہا ہے۔ چنانچہ اس سال ہم ایک بار پھر دنیا میں ایک بے مثال واقعہ رونما ہوتے ہوئے دیکھیں گے۔
اربعین حسینی کا یہ پیدل سفر دنیا کا سب سے بڑا سیاسی جلوس و مظاہرہ ہے۔
اگر یہ سیاسی نہ ہوتا تو اس کا بائیکاٹ بھی نہیں کیا جاتا۔ مثلاََ اگر دس لاکھ صرف ۲۰ کلو میٹر مارچ کا اعلان کریں(دنیا کے کسی بھی حصے میں) تو دنیا کے تمام چھوٹے بڑے چینل ۲۴ گھنٹے اس کی لائیو کوریج دیں گے لیکن تقریباََ ۲ کروڑ لوگوں کا یہ پیدل مارچ جو امام حسینؑ کے چہلم کے حوالے سے ہو گا اب تک تمام ذراع ابلاغ خاموش نظر آتے ہیں، کوئی کوریج کوئی رپورٹنگ نہیں ہوئی۔
متضاد مگرباھم۔
عدالت و اختیار، عدالت و آزادی، جنسیت و عفت، عزا و فرحت، رسک لینا، ایثار کرنے کے لئے رقابت، عاشقانہ منصوبہ بندی، ریاضت و تعمیری ترقی، فائدہ محوری و عقلانیت یہ وہ جمعہ تضادات ہیں جو دنیا کے مختلف مکاتب باھم جمع ہونے کے قابل نہیں سمجھے جاتے مگر یہ تمام تضادات اربعین حسینی میں یکجا و یکساں ہو جاتے ہیں۔
رکنا نہیں، چلنا۔
جب ہم اس پیدل مارچ کے علمی و مادی پہلو پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ ایک امت کی حرکت ہے۔ ایک امت جو حالت سکون سے حالت حرکت میں آتی ہے اور بلحاظ انسانی بہت سارے مفہوم اس حرکت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جیسے مالکیت و ایثار کا مفہوم ہے۔ دو کروڑ افراد کے اس ھجوم میں کوئی بھی اپنے آپ کو کسی چیز کا مالک نہیں شمار کرتا۔ اربعین حسینیؑ کے اس پیدل مارچ میں تمام حقیقی، نسبی و نسبتی وابستگیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ رسک لینا اور خطرات میں کود پڑنا؛ ۲ کروڑ لوگوں کے مجمعے میں ایسادنیا میں اور کہیں نہیں ہوا کرتا۔ یہاں ایثار میں رقابت مشاہدہ کی جاتی ہے وہ بھی اس حد تک کہ فقیر ترین لوگ کہ جو سال میں ۲ یا ۳ سے زائد مرتبہ اپنے کھانے نہ کھا سکتے ہوں مگر اپنے تمام اثاثے زائرین حسینی کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔ اس پیدل مارچ میں بالکل الٹے طریقے سے مانگا جا رہا ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر حصے میں گدائی کی جاتی ہے کہ لوگوں سے کچھ لیا جا سکے مگر اربعین حسینی میں میں گدائی کی جاتی ہے کہ لوگ اس سے کچھ لے لیں۔ آپ کو لوگ نظر آئیں گے کہ جو چاہیں گے کہ اپنی تمام چیزیں زائرین کو التماس کر کر کے دیں۔ یہ وہ چیز ہے جسے جدید تہذیب کی بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس پیدل مارچ میں شرکت کرنے والوں کی خصوصیات میں سے ایک عاشقانہ منصوبہ بندی کا حامل ہونا ہے۔ با وجود اس کے کہ متضاد جنسیتیں اس سفر میں ہمراہ ہوتی ہیں تا ھم اس ھجوم کے ہر ہر نکتے پر عفت موجزن ہوا کرتی ہے۔عام مشاہدہ ہے کہ یہ مختلف انسان سینکڑوں کلو میٹر کا سفر پیر سے پیر ملا کر کیا کرتے ہیں لیکن غیر انسانی یا جنسی محوری کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔

اربعین کا یہ پیدل مارچ ایک قسم کا حسینی پلورلزم(pluralism) ہے۔
اس حسینی پیدل مارچ میں با وجود اس کے کہ یہ عزادار ہوتے ہیں اور عزائے حسینؑ میں شرکت کرتے ہیں جب کہ غم و افسردگی تو انسان کو زمین نشین کر دیتی ہے لیکن عزاداران حسینؑ کے لئے یہ غم زمین گیر نہیں ہوتا، یہ عزادار مسرور ہوتے ہیں؛ فرحت، تازگی اور توانائی کے حامل؛ با اردہ اور مکمل نظم و ضبط کے ساتھ سخت کام کی انجام دہی کے لیے منہمک نظر آتے ہیں؛خطرات کی پرواہ نہیں کرتے۔ مختلف ادیان اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ جب اربعین کے پیدل سفر پر نکلتے ہیں تو ان میں مکمل اتحاد، وحدت، یگانگی اور ہم آھنگی آجاتی ہے۔یہ صرف شیعہ اثنا عشری نہیں بلکہ اہل سنت کے مختلف مذاہب کے لوگ حتیٰ سلفی(کہ جو شیعہ برداشت ہی نہیں کرتے) وہ اس وجہ سے کہ امام حسینؑ نبی کریمؐ کے محبوب فرد تھے، اس پیدل مارچ میں آجاتے ہیں۔ یعنی یہ ایک قسم کا حسینی پلورلزم (pluralism)ہے جہاں مساوات اور برادری بھی ہے، اور دیگر لوگوں کی آراء، نظریات اور وابستگیوں کو رسمی طور پر قبول کرنا بھی ہے۔ یہ سفر ارادی اور شعوری ہے ساتھ ساتھ اختیاری بھی۔ چنانچہ روایت ہے ظہر عاشورا ایک فرد امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرتؑ سے دریافت کرنے لگا کہ اگر آج ۷۲ کے بجائے ۷۳ لوگ شہید ہو جائیں تو فرق پڑے گا اور کیا میں اس قابل ہوں کہ آپؑ کے اصحاب کے جوار میں شہادت کے فیض کو حاصل کر پاؤں؟ امام حسینؑ نے فرمایا: تم جا سکتے ہو اور وہ یہ سن کر واپس اپنے شہر چلا گیا۔

نظری اور عملی میدانوں میں عقلانیت:
ہر چیز کو پرکھنے کے لئے ایک کسوٹی ہوا کرتی ہے۔ اور دیکھا جاتا ہے کہ کس مقیاس(Scale) پر پرکھا جا رہا ہے۔ قیمت کا تعین اور قیمتی ہونے کی ملاک اور معیار کس چیز پر ہے؟ مادی معیارات پر ـ’’خیر‘‘ کی قیمت نہیں ہوتی۔ جہاں تک عقلانیت کے نظری ہونے کے مسائل ہیں یعنی مطابقت کا معیار درست چنا گیا ہے یا نہیں؟ ساتھ ساتھ دیکھا جائے حق و حقیقت کیا ہے؟ دنیا کو عاقلانہ انداز میں دیکھا جائے یعنی دنیا کی غلط انداز میں توصیف نہ کی جائے۔ عملی میدان میں عقلانیت یا عقل عملی کا جہاں تک تعلق ہے وہ یہ کہ ہم بالکل صحیح حساب لگائیں کہ کس چیز کی قیمت کس چیز سے ہے۔ بعض لوگ نفسانیت اور عقلانیت میں اشتباہ کر بیٹھتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دو تو کیا ہم ایسے شخص کو عاقل کہیں گے؟ ہم عقلانیت کی مادی تعریف کو قبول کرتے ہیں تا ہم ہمارے باٹ(بٹّے)فرق کرتے ہیں۔ہمارے باٹ کے مطابق انسان کا نفع ، نقصان کچھ اور طرح سے ہے۔امام حسینؑ کا ظہر عاشور کا یہ اقدام کہ اس شخص کو واپس جانے کا فرمایا عین عقلانیت ہے۔ جو کربلا میں امامؑ کے ہمراہ رک گیا اُسے فائدہ ہوا اور وہ عاقل ہے۔ اور جو فرار کر گیا وہ بے عقل اور سفیہ ہے کیونکہ ارشاد پروردگار ہے کہ جو حساب کرتے وقت خدا کو درمیان سے نکال دے وہ عاقل نہیں ہے۔
کس قسم کی تہذیب و تمدن سازی عاقلانہ اور مفید ہے؟
ایک منطق ہے جو مطلق ہدف کو فرض کرتی ہے۔ مادی منطق میں ھدف کی منطق نہیں ہوا کرتی اور اہداف مکمل طور سے نفسانی ہوا کرتے ہیں اور عقل کا کام صرف مراحل کی درست انجام دہی ہوتا ہے(خود مراحل یا سمت کے لئے عقل استعمال نہیں کی جاتی)۔دنیا کے بڑے بڑے فلسفی اس مقولے کو کہ عقل غریز ے(جبلت یا instinct) پر حاکم ہے درست نہیں سمجھتے بلکہ ان کا خیال ہے کہ عقل تو نفسانی خواہشات کے حصول کے لئے ایک خادم ہے چنانچہ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ وہ وسائل، ا وزار و آلات جو ہدف تک پہنچنے کے لئے درکار ہیں عقلانی ہیں؟ ان کا اعتقاد ہے کہ یہ وسائل لازماََ عقلانی ہونے چاہیے اور اس حوالے سے گھری اور عمیق فکر کرتے ہیں، خوب سوچتے سمجھتے ہیں۔ تا ہم ہدف کے لئے عقل لگانے کے قائل نہیں۔اسلامی منطق میں اہداف اور وسائل دونوں ہی عاقلانہ ہونا چاہیے،ان کا واجد عقلانی ہونا لازمی ہے۔ہمیں اپنے مختلف مسائل میں کم از کم خود اپنے لئے عقلی وضاحت(حجت) ضرور رکھنی چاہیے۔ اگر یہ سوال کیا جائے جیسا کہ بعض لوگ(زیادہ تر اہل سنت برادارن) معتقد ہیں کہ امام حسینؑ کا اقدام اور آپؑ کا ہدف عاقلانہ نہیں تھا، اور ظاہر ہے کہ اس میں استعمال کئے جانے والے وسائل بھی عقلانی نہیں تھے، ہم صرف یہی عرض کریں گے کہ جب ہدف کو غیر عقلانی فرض کر لیا جائے تو حق سے متعلق لازمی و مفید معلومات و اطلاعات خود اپنے برتاؤ کے حوالے سے رسک لینے والے ہو جائیں گے اور رسک لینے میں جتنا درجہ اوپر یا نیچے جایا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ہاں کیوں نہیں اس قابل ہے یا اس قابل نہیں۔ بنابرین امام حسینؑ کی حرکت اور ہدف دونوں ہی عقلانی ہیں۔
اربعین کا عظیم الشان پیدل مارچ عالم بشریت کو اسلام کی دعوت ہے اور مسلمانوں کو اسلام و قرآن کی دعوت ہے۔ جیسا کہ حق و باطل میں امتیاز کرنا آنا چاہیے۔ امام حسینؑ نے حق کو لوگوں پرٹھونسا یا لادا نہیں بلکہ ان کو حقِ اتنخاب دیا کہ خواہ وہ رُکیں خواہ وہ چلے جائیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button