سعودی عرب

سعودی نوجوانوں میں نکاح مسیار کا رحجان بڑھ رہا ہے

سعودی سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق ماہرین کے مطابق سعودی شہریوں کی بڑی تعداد ناقابل برداشت مصاریف زندگی کے ہاتھوں مجبور ہو کر نکاح مسیار کو باقاعدہ شادی پر ترجیح دینے لگے ہیں۔

کثیر الاشاعت عرب روزنامہ کے مطابق نکاح مسیار کا معاہدہ بھی اسلامی روایات کے مطابق ہوتا ہے تاہم اس میں جوڑے باہمی رضا مندی سے عمومی شادی کے تحت حاصل ہونے والے بعض حقوق جن میں ایک ساتھ رہنا، خاوند کا گھریلو اخراجات کی ذمہ داری اور بیوی کا نان نفقہ جیسے حقوق سے صرف نظر کر لیتے ہیں۔

عائلی مشیر ناصر الثبيتی نے بتایا کہ متعدد نوجوان مردوں کے پاس شادی کے اخراجات نہیں ہوتے جبکہ سعودی دوشیزاؤں کی خانگی زندگی سے متعلق امیدیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔

الثبيتی کا مزید کہنا تھا کہ "طلاق کی شرح میں اضافہ اور تعدد ازواج میں کمی ہو رہی ہے۔ کثیر تعداد میں نکاح خواں اب نکاح مسیار پر تیار ہو جاتے ہیں۔ اس میں مردوں کو مہر اور خاندان کے نان نفقہ کی ذمہ داری کے بغیر شادی کرنے کا موقع ہوتا ہے۔”

نکاح خواں سلطان السلیم نے بتایا کہ منگنیاں ٹوٹنے کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ میسار نکاح متعہ کے نام کو تبدیل کرکے سعودی مفتیوں کی جانب سے اسی صدی میں متعارف کروایا گیا ہے، نکاح متعہ  حضر ت عمر کے دور خلافت میں حرام قرار دیا گیا تھا جبکہ عہد پیغمبر سے اور اول خلیفہ کے دور تک اسکی اسلام میں اجازت تھی۔ لہذا سعودی مفتیوں نے نکاح متعہ کا نام تبدیل کرکے اسے میسار کا نام دیدیا۔

دوسری جانب دنیا بھر میں نکاح متعہ کو بنیاد بناکر وہابی مکتب اہلیبت علیہ سلام کے خلاف پروپگنڈا کرتے تھے، لیکن نکاح میسار اور جہاد النکاح جیسے فتویٰ کے بعد یہ خود کہیں پر بھی اپنا منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button