پاکستان

مفتی نعیم کی بھارتی رگ جاگ اُٹھی، اعلانیہ بھارت سے محبت کا اظہار شہداء کے خون سے غداری ہے

بھارتی انتہاپسند تنظیم شیوسینا کی نفرت انگیز کارروائیوں کے باوجود بھارتیوں کی بڑی تعداد پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کرتی ہے جس کا اظہار سوشل میڈیا پر کیا گیا۔ اسی طرح پاکستانیوں کی جانب سے بھی ایسے ہی پیغام سامنے آئے، لیکن اب جامعہ بنوریہ کراچی کے سربراہ مفتی محمد نعیم بھی اس مہم میں حصہ لیتے ہوئے اپنے پیغام کیساتھ سامنے آئے ہیں اور انہوں نے اس مہم کو انتہائی قابل تحسین اقدام قرا ر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مفتی نعیم نے سوشل میڈیا پر اپنی تصویر جاری کی ہے، جس میں وہ ایک کاغذ پکڑے ہیں، جس پر درج ہے کہ "وہ جامعہ بنوریہ کے سربراہ ہیں، وہ ایک پاکستانی ہیں اور بھارت سے نفرت نہیں کرتے، یہ خیالات رکھنے والے وہ اکیلے نہیں بلکہ کئی دیگر علماء کرام بھی ان جیسے خیالات رکھتے ہیں”۔

مفتی محمد نعیم نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان گزشتہ 70 سال سے ایک ایسی فضا پید کر دی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کی آپس میں دشمنی ہے، ہندوستان میں چند انتہا پسند لوگ ہیں جنہوں نے پورے ملک کو یرغما ل بنایا ہوا ہے جبکہ ہندوستانی عوام کی اکثریت چاہتی ہے کہ وہ پاکستان آئیں کیونکہ ان کے عزیز و اقارب یہاں رہتے ہیں ان سے ملیں، اسی طرح پاکستانی بھی چاہتے ہیں کہ وہ بھارت جا سکیں لیکن دونوں ایک دوسرے کے ملک نہیں جا سکتے، اس کی بڑی وجہ ہندوستان کے چند انتہا پسند ہیں لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ ہندوستانی نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر پاکستان سے دوستی کی جو مہم شروع کی ہے، وہ نہایت قابل تحسین ہے، اسی طرح پاکستان کی جانب سے بھی نوجوانوں نے ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔

دوسری جانب مبصرین اور محب وطن حلقوں نے مفتی نعیم کے اس اقدام کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مفتی نعیم کا بنیادی گھر دیوبند چونکہ انڈیا میں ہے اور ان کے آباؤ اجداد بھی انڈین تھے اور اب بھی ان کے رشتہ دار وہاں ہیں تو یہ اپنے مرکز دیوبند اور عزیزو اقارب کے لئے بے چین ہیں اور اسی وجہ سے بھارت کیساتھ معانقہ کیلئے بے تاب ہوئے جا رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ہندو کبھی بھی مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا، ہندو اگر مسلمانوں کے دوست ہوتے تو پاکستان بنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی، پاکستان بنایا ہی اسی لئے گیا تھا کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کے حقوق سلب کر رکھے تھے، مذہبی آزادی نہیں تھی اور آج انڈیا میں گائے ذبح کرنے والوں کیساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، وہ سلوک عید قربان پر مفتی نعیم صاحب کے ساتھ بھی ہوتا۔ مبصرین نے کہا ہے کہ جو نوجوان سوشل میڈیا پر اس مہم کو زور و شور سے چلا رہے ہیں وہ صرف عیاشی کے رسیا ہیں اور بھارتی فلموں اور ڈراموں کی دنیا سے متاثر ہو کر انڈیا کیساتھ "فری بارڈر” کے خواہش مند ہیں تاکہ وہاں جا کر اپنی پسندیدہ ہیروئینز کیساتھ ملاقات کر سکیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ شراب و شباب کے رسیا دو قومی نظریہ کو پامال نہیں کر سکیں گے، پاکستان سے سچی محبت کرنے والے ان سے لاکھوں گنا زائد ہیں۔

ناقدین کا مزید بھی کہنا تھا کہ مفتی نعیم صاحب نے اتحاد بین المسلمین کی خاطر ایسی مہم کبھی کیوں نہیں چلائی ؟جسکی پاکستان میں اشد ضرورت ہے، جس ملک میں مسلمان مسلمان کو قتل کررہا ہے، اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر مسجد میں پھٹ رہا ہے وہاں پر تو علماء کی جانب سے ایسی مہم چلانے کی شدت سے ضرورت ہے شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں، تکفیریت خارج اسلام ہے و دیگر نعرہ پر مبنی تصاویر کے ہینڈ بل اُٹھائے مفتی صاحب اپنی تصویر پوسٹ کرتے تو عین اسلام ہوتا ، لیکن اس عمل سے چونکہ انکی فرقہ پرستی کی دوکانین بند ہونے کا خطرہ ہے ، انہیں عرب و بھارت سے پیسے ہی پاکستان میں شدت پسندی کو پھیلانے کے لئے دیئے جاتے ہیں، اور بھارت سے محبت کا اظہار انکے را پرست ہونے کی دلیل ہے۔

کیا مفتی نعیم کا اس طرح اعلانیہ پاک فوج سمیت ملکی دفاع کی خاطر جان دینے والے شہداء سے غداری نہیں؟

متعلقہ مضامین

Back to top button