مقالہ جات

انقلاب سیدالشہداء (ع) کا محور

قال سیدالشہداء علیہ السلام: اني لَم أَخرُج أَشِراً وَ لابَطراً وَ لامُفسِداً وَ لاظالِماً و اِنَّما خَرَجتُ لِطَلَبِ الإصلاحِ فِي امّة جدّي أُرِيدُ أَن آمُر بِالمَعرُوفِ وَ أَنهي عَنِ المُنكَرِ وَ أَسيرَ بِسيرَةِ جَدّي وَ أبي علي بن ابي طالب
آج سے 1376 سال قبل سرزمین کربلا پر رونما ہونے والا عظیم واقعہ و سانحہ دین اسلام کی بقا اور اس کی حفاظت کے لئے نہضت، تحریک و انقلاب سیدالشہداء امام حسین کے عروج کی بے مثال و بے مصداق مظہر تھا۔ یہ ان الہی اہداف کی تکمیل اور تحریک کی اعلٰی منزل تھی، جس کا آغاز فرزند رسول خدا (ع) نے 28 رجب المرجب سن 60ھ ق کو مدینہ الرسول (ص) سے کیا تھا۔ صدیوں کی رفت لیل و نہار کی گذشت اور زمانہ کی فرسودگی کے باوجود آج بھی نام کربلا و یاد سیدالشہداء (ع) اپنی طراوت و تازگی و حلاوت کے ساتھ زندہ و پائندہ ہے۔ تاریخ کے اوراق اور گنجینہ زمان میں اقوام عالم کے بڑے بڑے واقعات و دلخراش سانحات مندرج ہیں۔ سالوں پر محیط عالمی جنگیں اور ان میں لاکھوں انسانوں کا لقمہ اجل بن جانا، فقط ایک سانحہ کی حد تک ثبت و درج ضرور ہیں، مگر وہ مٹھاس و حلاوت، طراوت و تازگی و افسردگی و رنج و الم جو انقلاب و قیام سیدالشہداؑ میں مضمر ہے، وہ تاقیام قیامت کسی اور نہضت و انقلاب میں میسر نہیں۔ یہ مختصر اور چند گھنٹوں پر محیط جنگ اور قلیل تعداد میں افراد کی شہادت کی یاد صدیاں بیت جانے کے باجود احرار جہان کی دلوں میں آج بھی بلا تفریق مذہب، رنگ و نسل شمع روشن کی طرح فروزاں ہے۔

سوال یہ ہے کہ وجہ کیا ہے، سبب کیا ہے اور کیا علل و موجبات ہیں، جن کی وجہ سے کربلا زندہ اور نام و یاد امام حسین علیہ السلام کو سرمدیت حاصل ہے۔ دوام اور بقاء کربلا و یاد سیدالشہداءؑ کا راز کس چیز میں نہفتہ ہے۔ کربلا میں بظاہر مارا جانے والا، شہید کیا جانے والا اور اسکی آل کو اسیر بنا کے بازاروں اور درباروں میں پھرائے جانے کے باوجود، لوگوں کے دلوں اور باشعور انسانوں کے اذہان پر حکومت آج بھی حسین ؑابن علی کی کیوں ہے۔ بقول شاعر
تن سے کٹا تو شمر کے نیزے پر آگیا
کوئی بھی اس کے سر سے بلندی نہ لے سکا
قاتلوں نے شہادت امام حسین ؑ کے بعد درجنوں سال حکومت کی، آل امیہ کے بعد بنی عباس بھی صدیوں تک مسند اقتدار پر براجمان رہے اور انہوں نے آل نبی پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے، بنی عباس کے حکمران متوکل کے زمانہ میں مرقد و روضہ امام حسین ؑ پر ہل تک چلائے گئے اور روضہ اقدس کو مسمار کیا گیا۔ زیارت کے لئے آنے والے زائرین پر ہر قسم کا تشدد روا رکھا گیا، لیکن جو ملجا و مرجع خلائق ہے، وہ آج بھی سید الشہداء کا روضہ ہے۔ باشعور افراد کے اذہان پر حکومت آج بھی حسینؑ کی ہے۔ نام حسین ؑ، فکر حسین ؑ مینار ہدایت، شمع سعادت و عَلم استقامت ہے۔ حسین سنبُل مقاومت و نماد شجاعت، مظہر صدق و صداقت و عدالت و مظلومیت کے تاجدار بن گئے جبکہ یزید و یزیدیت ہر انسان ذی شعور و ہر بشر ذی العقل کے لئے نمونہ عبرت ہے۔

سالکان راہ خدا و پاکان در خدا کے لئے حسین ؑ رہنماء، مظلومان جہان کے لئے پیشوا اور احرار جہان کے لئے مقتدیٰ۔ وہ امر و سبب، وہ وجہ و وجوہات کہ جن کی بنا پر حسین ؑ حر انسانوں کے پیشوا ہیں، آزاد انسانون کے رہنما ہیں اور زمین و زمان کے روٹھ جانے کے باجود ذات حسینؑ و فکر حسینؑ مرجع خلائق ہے، وہ ہے انقلاب و قیام حسین کا مقصد و محور، وہ ہے ہدف کی تقدیس و تنزیہ اور وہ مقصد و محور کہ جس کے لئے امام حسین نے مختصر مگر بے مثال و فداکار یار و اعوان کے ساتھ قربانی دی، وہ ہے رضائے الٰہی، خوشنودی خداوندی، ذاتی حسب و نسب کی بلندی، کردار کی منزلت کے علاوہ امام حسین ؑ کی نظروں میں ہدف قیام و انقلاب آغاز سے انتہا تک رضائے الہی ہے اور یہی وہ راز ہے، جس نے قیام و یاد امام حسین ؑ کو تاقیام قیامت دوام دیا ہے۔ آغاز تحریک کربلا و راہ کربلا میں امام حسین کے کلمات سے ہدف و غرض قیام روشن و عیاں ہے۔ امام کے ارشادات و فرمودات میں اس خونی انقلاب کا محور ذات و رضائے خدا ہے۔

سیدالشہداء (ع) نے مدینہ منورہ میں انقلاب کے آغاز میں اپنا منشور پیش کرتے ہوئے فرمایا
اَنَّ الْحُسَیْنَ یَشْھَدُ اَنْ لاٰ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاٰ شَریکَ لَہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ
حسین علیہ السلام گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ وحدہ لاشریک ہے اور محمد ﷺاللہ کے عبد اور اس کے رسول ہیں، جنت و جہنم و قیامت پر حسین (ع) کا ایمان ہے اور اس امر کا معترف ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالٰی انسانوں کو قبروں سے اٹھا کر محشور فرمائے گا۔ میرا یہ قیام ہوا و ہوس، ظلم و ستم و سرکشی کا نتیجہ نہیں بلکہ میرے قیام کا مقصد بابا رسول خدا (ص) کی امت کی اصلاح ہے۔ میں لوگوں کو اچھائی کی تلقین اور برائی سے روکنے کا خواہاں ہوں۔ میں نانا رسول اللہ خدا (ص) بابا علی ابن ابی طالب کے راہ کا راہی ہوں۔ خدائے عزوجل کی ذات ہی توفیق دہندہ اور اسی کے ذات پر توکل ہے۔ امام کے ان ارشادات و فرمودات سے ہدف و غرض انقلاب کربلا کی بہترین عکاسی ہوتی ہے اور ان کلمات سے واضح و عیاں ہے کہ امام کے کربلا جانے اور اس عظیم قربانی کا مقصد کسی سلطنت کا حصول نہیں بلکہ ہدف و غرض رضائے خداوند متعال ہے۔

مدینہ منورہ میں بیعت یزید سے انکار کے بعد جب امام (ع) نے یثرب کو چھوڑ کے مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ فرمایا تو نانا رسول خدا (ص) کے روضہ اقدس پہ آکے اپنے خالق سے مناجات کرتے ہوئے فرمایا، پالنے والے یہ ترے نبی (ص) کی قبر انور ہے اور میں نبی (ص) کی بیٹی (سیدۃ النساءالعالمین فاطمۃ الزہرا) کا بیٹا ہوں، میری حالت سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ اے اللہ میں نیکی کا خواہاں ہوں اور برائی سے برائت کا اظہار کرتا ہوں اور تیری بارگاہ سے سوالی ہوں کہ میرے لئے وہ مقدر فرمائیں جس میں تیری رضا ہو۔ امام حسین (ع) کے ان دعائیہ کلمات و مناجات کا محور بھی رضائے خدا ہے۔ یعنی آنے والے حالات جو بھی ہوں اور جس طرح بھی ہوں لیکن نتیجہ صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی رضا ہو۔ جان و مال و عزت و ناموس کی قربانی ہو یا ترک وطن کی اُداسی، غرض ہر آن و ہر حالت میں حسین (ع) تسلیم بارگاہ خداوندی ہے اور اسی کے خوشنودی کا طالب۔

28 رجب سن 60 ھ ق کو جب فرزند رسول (ص) مدینہ رسول کو وداع کہتے ہیں تو امام (ع) کی ملکوتی زبان پر وہی ورد قرآنی ہے۔ امام اُس آیہ مجیدہ کی تلاوت فرماتے ہیں، جس کی تلاوت حضرت موسیٰ (ع) نے مصر سے نکلتے وقت کی تھی فرمایا تھا،
فخرج منھا خائفا یترقب قال رب نجنی من القوم الظالمین، سورۃ القصص آیت21
امام (ع) اس مجیدہ کی تلاوت فرما کر دنیا و اہل دنیا کو بتاتے ہیں کہ اس سفر پرخطر اور بامقصد میں ملجا و پناہ ذات کبریا و خداوندی ہے اور امام کا سہار و امدن فقط اللہ تعالٰی ہے۔ آغاز انقلاب میں عبداللہ بن مطبع بدوی نے جب امام ؑ کے حضور اظہار عقیدت کیا اور سفر کے بارے میں استفسار کیا تو امام نے جواب دیتے ہوئے فرمایا فی الحال مکہ جانے کا ارادہ ہے اور وہاں پہنچنے کے بعد، بعد کے امور میں بھی اللہ کی نصرت کا طالب ہوں۔ واقعہ کربلا پر نظر رکھنے والی ہر بابصارت و بابصیرت آنکھ یہ واضح و آشکار ہے کہ امام کا تکیہ گاہ ذات خدا ہے۔

5 شعبان المعظم سن 60 ھ ق جمعہ کی رات امام حسین (ع) کا قافلہ جب مکہ مکرمہ پہنچا تو امام کی زبان اقدس پر بھی کلام خدا جاری تھا اور وہ اس آیہ مجیدہ کی تلاوت فرما رہے تھے، جس کی تلاوت حضرت موسٰیؑ نے مدین پہنچ کے فرمائی تھی
وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاء مَدْيَنَ قَالَ عَسَى رَبِّي أَن يَهْدِيَنِي سَوَاء السَّبِيلِ، سورۃ القصص آیت 22
مذکورہ آیہ مجیدہ کی تلاوت مشن حسینی کی عکاس ہے اور اس امر کا مظہر ہے کہ امام (ع) اپنے ہدف و مقصد قیام میں ذات خدائے عزوجل سے الہام لینے کے خواہاں ہیں۔ سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام نے مدینۃ الرسول سے مکہ مکرمہ آنے کے بعد اپنے قیام و انقلاب کے تمہیداتی امور میں اشراف بصرہ کے نام جو خط تحریر فرمایا تھا، اس میں بھی امام کے کلمات کا محور و مقصد اللہ تعالٰی کی مکرم ذات ہے۔ امامؑ نے اشراف بصرہ کے نام اس مبارک خط میں لوگوں کو کتاب خدا اور سنت نبی اکرم کے احیاء کی دعوت دی۔

مکہ مکرمہ میں چار ماہ اور کچھ دن قیام کے بعد فرزند رسول خدا جب اس شہر پاکان سے رخصت ہو رہے تھے تو امام کے فصیح و بلیغ خطبہ کا آغاز و انتہا بھی اللہ عزوجل کے بابرکت نام سے ہے۔ امام فرماتے ہیں
الحمد للہ و ماشاء اللہ ولاقوۃ الا باللہ
اللہ تعالٰی کی رضا ہم اہل بیت کی رضا ہے اور ہم اللہ کی آزمائش و امتحان میں صبر کا دامن تھامتے رہیں گے اور وہی ہمیں صابرین کا اجر و پاداش دے گا۔ اللہ تعالٰی سے ملاقات کا جو بھی خواہاں ہے، وہ ہمارے ساتھ چلے۔ سفر کربلا میں صفاح نامی منزل پہ امامؑ کی ملاقات فرزدق نامی شاعر سے ہوتی ہے، امام حسین فرزدق کے خیر خواہی کے جواب میں بھی اپنے الٰہی منشور و ہدف مقدس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہوئے اپنے سخن حق میں خدا عزوجل کے ذاکر ہیں اور فرماتے ہیں، ان فاسقوں اور فاجروں کے مقابلہ میں دین خدا کی نصرت اور اس کی شریعت کی پاسبانی نیز اللہ تعالٰی کی راہ میں جہاد میرا طرہ امتیاز ہے، تاکہ اللہ تعالٰی کا نام سربلند ہو۔

ثعلبہ نامی منزل یہ پہنچنے کے بعد امام کو اپنے سفیر مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملتی ہے تو سیدالشہداء کی زبان اقدس یہ کلمہ استرجاع جاری ہوتا ہے، فرماتے ہیں
انا للہ و انا الیہ راجعون
ہر حال میں اللہ کی رضا اور ذات کی خوشنودی اور اسی کی جانب بازگشت ہے۔ امام کا قافلہ مکہ مکرمہ سے کربلا و مقتل کی جانب رواں دواں تھا اور عراق و کوفہ کے نامساعد حالات سے وقتاً فوقتاً آگاہی حاصل ہوتی تھی تو امام ؑواپسی کا سوچے بغیر اپنے الٰہی مشن کی تکمیل کی جانب گامزن تھے اور فرماتے تھے
ان الامر للہ یفعل ما شیاء ۔۔۔۔ و ربنا تبارک کل یوم
سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے، اگر اللہ تعالٰی کی تقدیر ہمارے حق میں ہوئی تو ہم اسی کی نعمتوں کے شکر گزار ہیں اور اللہ سے اس کا شکر بجا لانے کے توفیق کے خواہاں اور اگر اللہ کی تقدیر ایسی نہ ہو تو خالص و پاک نیت والا ہر حال میں حق سے جدا نہیں۔

لشکر ابن زیاد کے سپہ سالار حر بن یزید ریاحی سے ذوحسم نامی مقام پر ملاقات کے بعد جب حر نے امام کو موت و قتل سے ڈرانے کی کوشش کی تو امام نے بھرپور انداز میں جواب دیتے ہوئے فرمایا
"میں موت سے ڈرنے والا نہیں تم مجھے صرف قتل ہی کرسکتے ہو، میں اللہ کی راہ میں قتل ہونے کو مرحبا کہتا ہوں۔”
لشکر اعدا نے 9 محرم الحرام کو خیام حسین ؑ کی جانب پیش قدمی کی تو امامؑ نے اپنے بھائی تاجدار وفا حضرت ابوالفضل العباس (ع) سے فرمایا کہ دشمن سے کہہ دیجئے کہ وہ ہمیں ایک رات کی مہلت دے، اس لئے کہ حسین ؑ کے رب جانتے ہیں کہ میں نماز سے محبت اور کثرت دعا و استغفار کو پسند کرتا ہوں۔ سیدالشہداء امام حسین کے الٰہی فرمودات میں کچھ ان کے اشعار ہیں، جن سے مقصد امام کی بھرپور وضاحت ہوتی ہے اور وجدان کے احرار کو امام کا الٰہی ہونا اور انقلاب کے محور کا خدائی ہونا مزید اجلا و روشن ہو جاتا ہے۔

امام نے فرمایا
تركت الخلق طرا في هواك و أيتمت العيال لكي أراك
فلو قطعتني في الحب إربا لما مال الفؤاد إلى سواك
فخذ ما شئت يا مولاي مني أنا القربان وجهني نداك
أتيتك يا إلهي عند وعدي منيبا علني أحظى رضاك
أنا المشتاق للقيا فخذني وهل لي منية إلا لقاك
أقدم كل ما عندي فداء و مالي رغبة إلافداك
سلكت الكرب و الأهوال دربا و جئت ملبيا أخطو خطاك
وطلقت الحياة بساكنيها وعفت الأهل ملتمسا قراك
اگر تو اپنی محبت میں مجھ حسین (ع) کو ریزہ ریزہ بھی کر دے، پھر بھی میرے دل میں تیری ذات کی محبت کے علاوہ کسی اور کی محبت نہیں بسے گی۔ دس محرم جب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے گھوڑے سے زمین پر آئے تو امام (ع) کی زبان اقدس پر پھر بھی اللہ تھا اور وہ اپنی مناجات میں فرماتے تھے۔
لأمرک لامعبود سواک… مالی سواک ولا معبود غیرک یا غیاث من لاغیاث له
اے کریم پروردگار، تیری ذات اقدس کے علاوہ کوئی الہ نہیں اور نہ کوئی معبود، مجھے تیری تقدیر پر صبر ۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

Back to top button