مقالہ جات

کیاحزب اللہ آئندہ نوے دنوں میں جولان کی پہاڑیوں پر حملے کرسکتی ہے

احرار الشام نامی گروہ اور حزب اللہ لبنان کے درمیاں ہونے والے مذاکرات کی رو سے فریقین نے آئندہ چھے مہینوں کے لئے جنگ بندی پرعمل کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے۔ احرارالشام نے جیش الفتح نامی گروپ کی طرف سے حزب اللہ سے مذاکرات کئے ہیں۔ اس معاہدے کے مطابق حزب اللہ اور اسکے حامی جنوبی محاذ میں جس میں زبدانی،مضایا، بقین، سرغایا، اور اس کے قریب کے فوجی علاقوں میں جنگ بندی پر عمل کریں گے اور تحریک فتح نامی دہشتگرد گروہ شمالی محاذ میں جس میں فوعہ، کفریا، بنش، تفتاز، طعوم، معرہ، مصرین ،۔ شہر ادلب، رام حمدان، زردنا، شلخ شامل ہیں جنگ بندی پر کاربند رہے گي۔اس معاہدے کے مطابق تحریک الفتح اور اس میں شامل گروپوں کے دہشتگرد اور ان کے اھل خانہ زبدانی سے نکل جائيں گے۔ ان کو اس شہر سے نکلنے کے ایک پرپیچ و خم راستہ معین کیا گيا ہے جس سے پہلے چالیس سے پچاس گھرانے نکلیں گے اور لبنان میں داخل ہونگے اور دوبارہ شام میں داخل ہونے کے بعد ترکی چلے جائيں گے۔ اس راستے کو اپنانے کی وجہ یہ ہے کہ زبدانی ایسے علاقے میں واقع ہے کہ اس کے اطراف کے سارے علاقے حزب اللہ کے کنٹرول میں ہیں۔ البتہ سب سے ا ہم بات یہ ہے کہ اس علاقے سے دس برس سے کم عمر کے بچوں اور پچاس سال سے زیادہ عمر کے بوڑھوں کا انخلا دس ہزار افراد کو نکالنے کے برابر ہوگا۔ اس معاہدے کے مطابق ان دونوں شہروں سے مزید دس ہزار افراد کو علاج معالجے کے لئے نکالا جائے گا۔ لھذا ان شہروں سے مجموعی طور پر بیس ہزار افراد کا انخلا ہوگا۔ اس طرح ہم دیکھیں گے کہ شام میں فوعہ اور کفریا شہروں سے غیر سرکاری طورپر بیس ہزار شیعہ مسلمانوں کو دوسری جگہ آباد کیا جائے گا۔ آبادی کی اس منتقلی کے طریقہ کار سے قطع نظر مستقبل میں شام کی تقدیر کے حوالے سے یہ ایک معنی خیز اقدام لگتا ہے۔
اسٹراٹیجیک علاقے
یہ اتفاق کئي مہینوں کے مذاکرات کے بعد حاصل ہوا تھا لیکن ستائيس اگست دوہزار پندرہ کو یہ پوری طرح ناکام ہوگياتھا۔ اٹھارہ ستمبر کے دن احرارالشام، جند الاقصی اور حزب اسلامی ترکمنستان نے فوعہ اور کفریا کی دفاعی لائنوں پر سات بار شدید خود کش حملے کئے تھے جن میں تقریبا ڈھائي سو افراد شہید ہوئے تھے اور آخر کار دونون فریقوں نے محصور علاقوں کا محاصرہ ختم کرنے پر اتفاق کرلیا۔ البتہ ایسا لگتا ہےکہ چھے مہینے کےلئے جو جنگ بندی کا معاہدہ کیا گيا ہے اس سے شامی حکومت کی فوجی اسٹراٹیجی اور سیاسی جغرافیا کا ماڈل ظاہر ہوتا ہے۔واضح رہے کہ لاذقیہ، طرطوس، کے پورے صوبے، صوبہ حماۃ، حمص اور دمشق کے بڑے علاقے اور قنیطرہ درعا اور سویدا کے بعض علاقے شام کی فوج اور حزب اللہ کے کنٹرول میں ہیں۔ اور یہ علاقے مغربی حصے میں شامل ہیں اس کےعلاوہ کچھ علاقے ساحلی ہیں اور کجھ لبنان کی سرحد سے ملتے ہیں۔ یہ علاقے نیشنل ہائي وے ایم فائيو اور اس کو ملانے والی سڑکوں سے متصل ہیں، لھذا ایسا لگتا ہے کہ شام کی حکومت ان علاقوں کو کسی بھی قیمت پر دہشتگردوں سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے اور یہ اس کی فوجی اسٹراٹیجی ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس مفروضے کو تقویت ملتی ہے کہ شام کی حکومت نے مذکورہ علاقوں کے تحفظ پر اپنی فوجی اسٹراٹیجی کی بنیاد رکھی ہے۔ اس جغرافیائي علاقے میں علویوں اور شیعہ مسلمانوں اور دروزیوں کی اکثریت ہوگي۔ اس تجزیے کا یہ مقصد ہےکہ غیر سرکاری طور پر شام کے ٹکڑے کرنے کے عمل کو تسلیم کیا جارہا ہے۔ اس عمل کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے میں صرف ایک رکاوٹ ہے اور وہ مندرجہ ذیل علاقوں میں شام کے کچھ فوجیوں کی موجودگي ہے۔
قامشلی ایر پورٹ، شہر حسکہ کا ایک چھوٹا سا علاقہ، دیرالزور کا فوجی ایرپورٹ، نبل اور الزھرا شہر، بشکوئي اور حندرات، کویرس نیرب اور حلب کے ہوائي اڈوں، اور صوبہ حلب کے سفیرہ علاقے میں فوجی کارخانے ۔ان علاقوں سے اگر بچی کھچی شام کی فوج نکل جائے تو ان پر مکمل طرح سے دہشتگردوں کا قبضہ ہوجائے گا۔
اس کے علاوہ آزاد سمندر سے متصل ہونا اور لبنان کے ساتھ سرحدوں کے ملنے کے علاوہ ایک اور اہم مسئلہ جو استقامت کے لئے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ مسئلہ اس بات سے عبارت ہے کہ جو علاقے شام کی حکومت کے کنٹرول میں ہیں ان میں اور مقبوضہ فلسطین کے ساتھ مشترکہ سرحد ہونی چاہیے لیکن وہ علاقہ جو اگست دوہزار چودہ سے استقامت کے ہاتھوں سے نکل گيا تھا اور اٹھائيس جنوری دوہزار پندرہ سے آٹھ فروری دوہزار پندرہ تک کئے جانے والے وسیع حملوں کے باوجود اس علاقے کے بڑے حصوں پر اب بھی دہشتگردوں کا قبضہ ہے اور یہ علاقہ شام کی سرزمین اور مقبوضہ فلسطین کے درمیان ایک حائل علاقہ بناہوا ہے لھذا شام کی فوج حزب اللہ کے ساتھ اپنی اسٹراٹیجی کو ممکنہ طور پر چار حصوں میں تقسیم کرے گي۔ چار حصوں پر مشتمل پلان کے مطابق شام کی فوج اور حزب اللہ مشترکہ طور پر تین حصوں پر عمل کریں گے اور حملے کریں گے جبکہ حزب اللہ چوتھے حصے پر اکیلے عمل کرے گی۔ اس پلان کے پہلے تیسرے حصوں میں مندرجہ ذیل اھداف ممکنہ طور پر نشانہ بنائے جائيں گے۔
١: لاذقیہ کے لئے سیکورٹی فراہم کی جا ئے گي اوراس غرض سے صوبہ حماۃ کے شمال مغربی حصے شہل الغاب پرحملہ کیا جائے گا، اس علاقے میں مسلسل اور بغیر ھدف معین کئے فوجی کاروائیاں کی جائيں گي۔ اس کے علاوہ لاذقیہ کے شمال مشرقی علاقے میں بھی فوجی آپریشن انجام دئے جائيں گے۔
٢: شام کے مرکز میں پرامن علاقہ قائم کیا جائے گا جس کا ھدف حمص اور تدمر کے درمیاں گيس کے ذخائر کی حفاظت ہوگا۔ اس کے علاوہ تدمر کے اطراف میں دفاعی غرض سے محدود حملے کئے جائيں گے۔
طیاس اور شیرات کے اسٹراٹجیک ہوائي اڈوں کی تقویت کی جائے گي تا کہ مرکزی محاذوں پر فضائي حملے کئے جاسکیں۔ یہ فوجی آپریشن بھی مسلسل جاری رہیں گے اور ان میں کوئي خاص ھدف مد نظر نہیں رہے گا۔
٣: دمشق کے مضافات کو دہشتگردوں سے مکمل طرح سے پاک کردیا جائے گا نیز مغربی اور مشرقی غوطہ پر محدود حملے جاری رکھے جائيں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ دمشق کے جنوب میں بھی مسلسل حملے جاری رکھے جائيں گے۔
٤: چوتھے حصے میں حزب اللہ کی فورس حملے کرے گي اور یہ حملے جولان کی پہاڑیوں پر کئے جائيں گے۔ شامی فوج کی اسٹراٹیجی کا یہ حصہ جس میں صرف حزب اللہ کے جوان شرکت کریں گے لگتا ہے اکیس ستمبر کو نیتن یاھو اور صدر پوتین کی ملاقات کا نتیجہ ہے۔ اس ملاقات کے بعد صیہونی حکومت نے اعتراف کیا تھا کہ اسرائيل اور روس نے سرزمین شام میں فوجی آپریشنوں کے سلسلے میں سمجھوتہ کرلیا ہے۔ صیہونی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ شام میں روس کی فوجی موجودگي کو ختم نہیں کرسکتی اور نہ اس سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اتنا ضرور کرسکتی ہےکہ روس کے ساتھ اسکی جھڑپیں نہ ہوں۔ لھذا اس اساس پر یہ بات قابل فہم ہے کہ چھوتھے حصے میں صرف حزب اللہ کے جوان شرکت کریں گے اس میں نہ شام کی فوج ہوگی نہ روس کی فوج شامل ہوگي۔ فوجی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ آئندہ نوے دنوں میں جولان کی پہاڑیوں پر حملے کرسکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button