مقالہ جات

بڈھ بیر میں ایئر فورس بیس پرطالبان کاحملہ سیکورٹی خامیوں کی وجہ سے ہوا ؟

کوئی شک نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن ضربِ عضب کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ہے، لیکن اس کے باوجود جمعرات کو سخت پہرے میں بڈھ بیر ایئر بیس پر دہشت گردوں کے حملے اور اس کے نتیجے میں 29 معصوم افراد کی ہلاکت سے سیکورٹی کی خامیوں کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا اس کے باوجود، پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ تقریباً 13 دہشت گرد کامیابی کے ساتھ پاک فضائیہ کی ایئربیس میں داخل ہوئے اور ایئربیس کی مسجد میں تقریباً 29 نمازیوں کو شہید کر دیا۔ زیادہ تر شہداء کا تعلق پاک فضائیہ سے تھا۔ تمام دہشت گرد مارے گئے۔ دہشت گردوں کے ساتھ لڑائی میں ایک کیپٹن اور ایئر فورس کے تین اہلکاروں سمیت چار سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ حملہ آور ایئر بیس میں صرف 50 میٹر اندر تک داخل ہو سکے اور انہیں مزید آگے بڑھنے سے روک دیا گیا۔ خدشہ تھا کہ اگر دہشت گردوں کو نہ روکا اور ہلاک نہ کیا جاتا تو صورتحال تباہ کن ہوتی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ دہشت گردوں نے کیا منصوبہ بنایا تھا اور وہ کتنے معصوم افراد کو ہلاک یا پھر کون سے ٹھکانوں پر حملہ کرنا چاہتے تھے اور اسے ایک بڑا سانحہ بنانا چاہتے تھے۔ حقیقتاً، یہ ایک بہت بڑا دہشت گرد حملہ تھا۔ سچ یہ ہے کہ دہشت گرد فوجی بیس میں گھسنے میں کامیاب ہوگئے، جو ایک آسان سویلین ہدف تھی۔ حملہ آوروں نے کئی معصوم افراد کی جان لے لی اور فورسز کی کارروائی میں اپنی ہلاکت سے قبل انہوں نے چار فوجیوں کو بھی شہید کیا۔ یہ سارا منظر نامہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ آیا پاک فضائیہ کی بیس بھرپور انداز سے محفوظ تھی اور اس طرح کے حملے سے بچائو کیلئے فول پروف سیکورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔ سب جانتے ہیں کہ ہر دفاعی ٹھکانے، عسکری مقامات حتیٰ کہ فوجی رہائشی علاقوں کو لاحق خطرات کی شدت کا اندازہ ہے۔ اس کے باوجود، دہشت گرد افغانستان سے آتے ہیں، ایئر بیس میں گھس جاتے ہیں اور بڈھ بیر کیمپ میں اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔ کسی بھی دہشت گرد حملےسے بچائو کیلئے ملٹری ٹھکانوں اور عسکری اڈوں کو کئی سطح کے حفاظتی حصار میں محفوظ رکھا جاتا ہے۔ جس صورتحال کا سامنا پاکستان کر رہا ہے، اس طرح کے سیکورٹی انتظامات اور تیاریاں کئی سو گنا بہتر ہونا چاہئیں۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڈھ بیر کیمپ کی سیکورٹی کچھ زیادہ کمزور تھی۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ہمیں نہ ختم ہونے والے پرتشدد واقعات دیکھنے کو ملے ہیں جن میں نہ صرف ہزاروں سویلین جانیں گئیں بلکہ ہائی پروفائل شخصیات اور ملک کے حساس اسٹریٹجک مقامات پر بھی کچھ حملے ہوئے۔ ان میں جی ایچ کیو حملہ، بحریہ بیس پر حملہ، فضائی اڈے پر حملہ، ایئرپورٹ حملہ اور انٹیلی جنس اداروں کے مقامی ہیڈکوارٹرز اور کینٹ کے علاقوں میں اسکولوں پر حملہ شامل ہیں۔ پشاور میں دسمبر 2014ء میں اسکول پر ہونے والا حملہ انتہائی خوفناک حملہ ثابت ہوا لیکن اس معاملے میں بھی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پیشگی انتباہ کے باوجود دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ گزشتہ سال دہشت گرد انتہائی محفوظ سمجھے جانے والے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کر دیا جہاں انہوں نے 28 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا، 10 دہشت گرد بھی مارے گئے۔ اس معاملے میں بھی انٹیلی جنس کی پیشگی رپورٹس موجود تھیں۔ دسمبر 2012ء میں دہشت گردوں نے باچا خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملہ کیا۔ اسی سال منہاس ایئربیس، کامرہ پر حملہ ہوا۔ 22 مئی 2011 کو دہشت گردوں نے نیول بیس مہران پر حملہ کیا اور سیکورٹی اہلکاروں سمیت 17 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مارچ 2009 میں دہشت گردوں نے جی ایچ کیو پر حملہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس حملے کے بارے میں بھی انٹیلی جنس رپورٹس موجود تھیں۔ ضربِ عضب شروع ہونے کے بعد سے، سیکورٹی فورسز کی کارکردگی شاندار رہی ہے۔ دہشت گردی کے اکا دکا واقعات ہوئے ہیں لیکن مجموعی طور پر صورتحال زیادہ بہتر ہوئی ہے۔ دہشت گردوں کا نیٹ ورک راہِ فرار اختیار کیے ہوئے ہے اور کمزور پڑ چکا ہے۔ لیکن جمعرات کو ہونے والے واقعہ سے یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ دہشت گردوں میں اب بھی کچھ جان باقی ہے کہ وہ فورسز کو بھی پریشان کر سکیں۔ حالیہ مہینوں میں کیے جانے والے اقدامات پر سیکورٹی فورسز کی تعریف کرنا چاہئے، لیکن اس کے باوجود انہیں سیکورٹی کی مجموعی حکمت عملی پر نظرثانی کرنا ہوگی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ دہشت گرد دفاعی یا اسٹریٹجک مقامات کے نزدیک بھی نہ جانے پائیں۔ یہاں یہ بھی اہم بات ہے کہ سویلین اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان رابطہ کاری کو مزید بڑھایا جائے جس کیلئے نیکٹا کے مشترکہ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کو مکمل طور پر جلد فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے معلومات کے تبادلے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور بظاہر اس کی وجہ اداروں کے مابین پایا جانے والا پیشہ ورانہ حسد اور اختلافات ہیں اور موجودہ صورتحال میں پاکستان ایسی چیزوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button