مقالہ جات

کیا تکفیری دہشتگرد ملعون اورنگزیب فاروقی کی رہائی نیشنل ایکشن پلان کے مطابق ہے ؟

بعض اخباری اطلاعات کے مطابق اور سوشل میڈیا پر دیوبندی تنطیم اہل سنت والجماعت / سپاہ صحابہ پاکستان کے بنے کئی ایک سوشل پیجز اور گروپس پر موجود پوسٹوں کے مطابق اہلسنت والجماعت پاکستان کے مرکزی صدر اورنگ زیب فاروقی کو اڈیالہ جیل راولپنڈی سے پنجاب حکومت نے رہا کردیا ہے اور اورنگ زیب فاروقی آخری اطلاعات آنے تک کراچی پہنچ گئے ہیں ، ان زرایع سے یہ بھی خبریں موصول ہوئی ہیں کہ اہلسنت والجماعت دیوبندی کے مرکزی صدر کی رہائی میں پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے

ہمارے لئے اورنگ زیب فاروقی کی رہائی کی خبر کچھ زیادہ حیرانی کا سبب نہیں بنی ہے کیونکہ ایسی اطلاعات موجود تھیں کہ پنجاب حکومت نے اہلسنت والجماعت کے ایک اور دھڑے ملک اسحاق گروپ کے خلاف کاروائی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر یہ محسوس کرلیا تھا کہ ملک اسحاق گروپ کی جانب سے انتقامی کاروائی کے طور پر اہلسنت والجماعت کے مرکزی صدر اورنگ زیب فاروقی کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہوسکتا ہے کیونکہ اورنگ زیب ، محمد احمد لدھیانوی ، قاری خادم ڈھلوں سمیت اہلسنت والجماعت کی قیادت کے لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق سے اختلافات انتہائی شدید ہوگئے تھے

اور نوبت مار دھاڑ تک آن پہنچی تھی ، روزنامہ ڈان کے رپورٹر کلب علی نے اپنی خصوصی رپورٹ میں ایک انٹیلی جنس آفیشل کے حوالے سے انکشاف کیا تھا کہ پنجاب میں روالپنڈی ، اسلام آباد اور لاہور سمیت کئی شہروں میں لدھیانوی گروپ سے تعلق رکھنے والے اہلسنت والجماعت کے کارکنوں اور لیڈروں کے قتل میں ملک اسحاق گروپ ملوث تھا جبکہ اہلسنت والجماعت کا لدھیانوی گروپ اس حوالے سے آن دی ریکارڑ کوئی بات کہنے سے گریز کرتا رہا ہے – اورنگ زیب فاروقی کی گرفتاری بارے سب سے گرم خبر یہ تھی کہ ان کو پنجاب میں اصل میں حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے جبکہ ان کی ” انسداد دھشت گردی ” کی عدالتوں میں پیشیاں پہلے سے لکھے سکرپٹ کا حصّہ ہیں

اہلسنت والجماعت کی مرکزی و صوبائی اور اکثر ڈویژنل و ضلعی قیادت آزاد ہے اور اس کے دفاتر پورے ملک میں کام کررہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں وفاقی وزرات داخلہ نے جو کالعدم تںظیموں کی فہرست داخل کرائی ان میں اس تنظیم کا نام شامل ہے اور یہ تنظیم حکومت کے کاغذوں مین 2012ء سے کالعدم ہے

آگر ایک کالعدم تنظیم کا سربراہ ، جنرل سیکرٹری ، سرپرست اعلی اور دیگر قومی و علاقائی لیڈرشپ آزادی سے نفرت انگیزی ، فرقہ پرستانہ خیالات کا پرچار کرتی رہے اور ان کا کوئی احتساب نہ ہو تو پھر اس تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا مطلب کیا ہے ؟
نیشنل ایکشن پلان میں یہ وعدہ موجود ہے کہ کسی بھی کالعدم تنظیم کو کالعدم نام تو کیا کسی نئے نام سے کام کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوگی پھر اہلسنت والجماعت کیسے کام کررہی ہے ؟

اہلسنت والجماعت کے بارے میں ملک کے کئی موقر صحافی اور تجزیہ نگار یہ بات کرچکے ہیں کہ یہ پاکستان کے اندر تکفیری ، خارجی دیوبندی دھشت گرد تںطیموں کے لئے افرادی قوت ، ان کے لئے نظریہ سازی اور سہولت کاری کرنے والی تںطیم ہے اور اس تنظیم ہی کا ایک کور دھشت گرد ونگ لشکر جھنگوی ہے اور پاکستان کے اندر کام کرنے والے تکفیری ، خوارجی دھشت گردوں کے لئے یہ تنظیم رابطہ کاری کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے اور سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خاںزادہ سمیت متعدد افراد کے خلاف لشکر جھنگوی کے خود کش حملے میں لاجسٹک سپورٹ اور سہولت کار کا کردار اہلسنت والجماعت کے ساتھ گاؤں میں بنے ایک مدرسہ نے ہی ادا کیا اور اس حوالے سے کئی گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں تو ان سب حقائق کے باوجود اورنگ زیب فاروقی اور ان کی جماعت کے لوگ آبتک آزاد کیوں ہیں ، ان کے خلاف ریاست کاروائی کرنے سے گريزاں کیوں ہے ؟ کیا پنجاب حکومت اپنے وزیر داخلہ کا خون یونہی رائیگاں جانے دے گی

ہماری اطلاعات کے مطابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ ڈیفیکٹو وزیر داخلہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور ایک مرتبہ پھر ہوم ڈیپارٹمنٹ ان کو سونپ دیا گیا ہے اور اس طرح سے کرنل شجاع خانزادہ نے جو اقدامات اٹھائے جانے کا سلسلہ شروع کیا تھا ان کی واپسی کا عمل شروع ہوگیا ہے اور اس طرح سے تو خود محکمہ انسداد دھشت گردی کا مستقبل بھی تاریک نظر آرہا ہے
ہم سمجھتے ہیں کہ اورنگ زیب فاروقی جیسے لیڈروں کی رہائی سے پاکستان کے اندر پہلے سے دگرگوں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا مزید خراب ہوجائے گی اور خاص طور پر سندھ میں اورنگ زیب فاروقی کی تقریریں اور بیانات اور دیگر سرگرمیاں مزید فرقہ واریت کو فروغ دیں گی

سندھ کی سرزمین جہاں پر اولیائے کرام و صوفیائے عظام نے ہمیشہ ” محبت ” اور امن آتشی کا درس دیا وہاں پر اورنگ زیب فاروقی جیسے تکفیری و انتہا پسند ملّا نفرتوں اور مذھبی منافرتوں کا بیج بونے میں مصروف ہیں اور سندھ میں ان جیسے مولویوں کے سبب مزارات ، امام بارگاہیں ، اور مذھبی اقلیتوں کی عبادت گاہیں تک محفوظ نہیں ہیں

وفاقی اور صوبائی حکومتیں اگر دھشت گردی اور مذھبی انتہا پسندی کے عفریت سے واقعی نجات پانے کی خواہش مند ہیں تو ان کو آئیں و قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی سعی کرنی ہوگی – اگر اہلسنت والجماعت / سپاہ صحابہ پر لگی پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا تو پھر پی پی پی ، اے این پی ، ایم کیو ایم کی اس بات میں وزن نظر آئے گا کہ وفاقی سیکورٹی ادارے اور پنجاب کی
سیکورٹی فورسز ” مذھبی دھشت ” گردی کا قلع قمع کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں

متعلقہ مضامین

Back to top button