مقالہ جات

اے اندھوں، بہروں، گونگوں!

ماں، باپ نے میرا نام ایلان کُردی رکھا۔ میرا وقتِ حیات ۔۔۔ صرف تین سال!

میرا قصور۔۔۔؟ صرف یہ کہ میں بے ضمیر، عیاش طبع، انسانیت سے عاری، مفادات کے کھلاڑی، سیاسی شعبدے بازوں، گُھن کھائی قوم کا معصوم سا بچہ تھا۔ ہاں میں بچہ تھا، ہاں میں اس قوم کا بچہ تھا جس نے خود کو 57 سرحدوں میں بانٹا ہوا ہے۔ جس کا ہر دوسرا شخص گفتار کا غازی، کردار سے عاری ہے۔ ہاں میں بس ایک بچہ، ان تین ہزار لوگوں میں شامل تھا جو پچھلے ایک سال میں زندگی کی اُمنگ لیے سمندر کی بے رحم موجوں کے شکار ہوئے۔ میں یہ کیوں نہ کہوں کہ زندگی پاگئے؟ میں اس قوم کا بچہ تھا جو جمعرات کی شب عیاشی کے لیے دبئی آتی ہے، پھر واپس جاکر اسلام کا نعرہ بلند کرتی ہے۔ میرا لہو اتنا ارزاں، میرا لہو اتنا بے وقعت کہ ذرا سی چکا چوند کے آگے اپنے لوگوں نے مجھے قربان کردیا؟ میرے ناتواں کاندھوں میں اتنی طاقت کہ سمندر کی لہروں سے ٹکراجاؤں اور تمہارے بے شرم رویوں سے بھی؟ میرا قصور یہ کہ میں شام میں خانہ جنگی کے دوران پیدا ہوگیا؟ کسی بھائی ملک نے میرے لیے سرحد نہ کھولی۔ زندہ آنے پر پابندی تھی نا، لو میں نے وعدہ پورا کیا۔ اب اٹھاؤ میری ننھی سی لاش کو اور اس پر کرو سیاست۔ بین الاقوامی اجلاس بلاؤ۔ سمندروں پر پابندی لگواؤ، آبی حیات کو سزا دو، ساحل پر لگنے سے پہلے ہی مجھے کیوں نوچ کھسوٹ نہ لیا؟ کیوں تمہارے ماتھے پر کلنگ کا ٹیکا بنایا مجھے؟ میں تو اس ساحل سے آلگا جس نے ماضی قریب میں آخری خلافت کو بھی نِگل لیا تھا۔ پھر کیوں اُس نے اُگلا مجھے؟ پوچھو نا۔ ہر چیز پر تمہارا زور ہے تو کیوں ہوا ایسا؟ مگر ۔۔۔ اُس سے پہلے اس مٹی میں دفنا تو دو جس پر زندہ آنے پر پابندی تھی۔ وہ مٹی اُوڑھا تو دو جو میں جیتی آنکھوں سے نہ دیکھ سکا۔

میرے ملک میں جو جنگ اسرائیل و سعودی عرب کی ایماء پر ایک منتخب حکومت کے خلاف شروع ہوئی، جس کے بعد دنیا بھر سے لائے گئے جہادیوں نے جبہۃ النصرہ، داعش،القائدہ اور فری سیرین آرمی کے نام سے مختلف دہشتگرد گروپ بنائے اور ان کے ظلم اور بربریت نے انسانی ظلم وستم کی تاریخ تک مسخ کر ڈالی، اب پانچویں سال میں داخل ہے۔ دو لاکھ پندرہ ہزار انسانی جانیں جنگ کا ایندھن بن چکیں ہیں۔ جس میں کم و بیش دس ہزار کے قریب مجھ جیسے معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ تیرہ ہزار سے زائد نفوس کو اس آمر کے خود ساختہ زندانوں نے نگل لیا ہے۔ ہماری ماؤں بہنوں کی عزت کو لوٹا گیا، ہمارے شہروں کو ان دہشتگردوں نے تباہ کیا اور ہمیں اپنا پیار وطن چھوڑنے پر مجبور کیا، مگر آفرین ہے، آفرین ہے مسلم دنیا پر جو سوتی رہی، آفرین ہے عرب دنیا پر جسے اسرئیل پر پھٹنے والے راکٹ میں دہشت گردی تو دکھائی دیتی ہے مگر میرے ننھے لاشے کو وہ ایسے صرفِ نظر کردے گی جیسے کان پر بیٹھی مکھی اڑائی جاتی ہے۔ وہ عرب دنیا جو ایک بچے کی وجہ سے پورے پورے خاندان ختم کردیتے تھے، ان کی غیرت کہاں مرگئی؟ اور آفرین ہے مسلم دنیا کے ٹھیکہ دار بنے والے ملک سعودی عرب پر جس نے مسلمانوں کے پیسوں کو میرے ملک میں دہشتگردوں پر خرچ کیا،لیکن مسلم دنیا خاموش رہی۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ ہماری منتخب حکومت ختم نا کرسکے جو اس بات کی دلیل ہے جس حکومت و حکمرانوں کے ساتھ عوام ہوتی ہے انہیں آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔

میں ایک بچہ تھا جس کی موت کا انتظار کئی لوگوں کو تھا۔ برطانیہ میں ایک آن لائن پٹیشن داخل کی کئی گئی تھی، اگر اس پر ایک لاکھ افراد اپنا اندراج کرادیں تو شام کے مہاجرین کی مزید آباد کاری پر برطانوی پارلیمنٹ بحث کرے گی۔ برطانوی پارلیمنٹیرین کو یہ کہتے ہوئے انسانیت یاد نہیں آئی کہ کیا میرے باپ نے اچھی زندگی کی لالچ میں مجھے ڈبودیا؟ اس کو میرے جسم پر اچھے کپڑے تو دکھائی دیے مگر میرے خوبصورت گھر کا ملبہ نظر نہیں آیا؟ دہشتگرد تنظیم داعش کے جلادوں کے کوبانی پر حملہ کرتے ہوئے یہ یاد نہیں آیا کہ وہ ظلم ڈھا رہے ہیں؟ مگر تمہارے سوشل میڈیا پر میری تصویر آنے کی دیر تھی۔ چوبیس گھنٹوں کے اندر وہ تعداد سولہ ہزار سے ایک لاکھ پانچ ہزار تک تجاوز کرگئی۔ ہاں مگر میرا سوال اپنے لوگوں سے ہے۔ اپنے میڈیا پر میری موت کو اچھال کر ہی اپنے باقی لوگوں کو بچالیتے۔ قلعہ اسلامی کا میڈیا جو مداریوں کی گھنٹوں گھنٹوں کوریج سے نہیں تھکتا۔ مجھے کچھ دیر ہی رو لیتا؟ تم ملالہ پر اب تک روتے ہو، وہ تو زندہ بچ گئی مگر تم تو مُردوں پر رونے کے عادی تھے۔ عادت کیوں بدل ڈالی؟

تم مجھ پر رو رہے ہو؟ مجھ پر مت رو۔ تم لوگ جھوٹے ہو، مکار ہو، تم بس جب روتے ہو جب تمہارے اپنے بچے مریں، تم صرف جب روتے ہو۔ جب تمہیں اپنی جانوں کا خوف ہو۔ تم اس وقت روتے ہو جب تمہاری عیاشیوں کا سامان ختم ہوجائے۔ تم رو مت، شرم سے ڈوب مرو۔ تم نے اپنی سرحدیں مجھ پر بند کیں تو میں نے تمہاری بے حسی کو مہر بند کردیا۔ ابھی میری تو کھیلنے کی عمر تھی، میں جنت کا پھول تھا، تم نے اس پھول کو نوچ ڈالا۔ میں نے دیکھا تھا میری ماں میری موت تک زندہ تھی، ہر ماں کی طرح اس نے مجھے اپنی سانسیں تک دینے کی کوشش کی۔ مگر ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے رب نے تمہاری بے حسی کو پوچھنے ہی مجھے بلالیا۔ گواہ رہنا، میرے لاشے پر بین کرنے والے لوگ چار دن تک مگر مچھ کے آنسو بہا کر مجھے بھلادینگے۔ تمہیں میری معصومیت پر ترس نہیں آیا؟ تمہیں میری عمر پربھی ترس نہیں آیا؟ تمہیں اپنے ننھے اَدھ کِھلے گلابوں پر بھی پیار نہیں آتا؟ آتا تو ہوگا۔ میں تمہارا اپنا ہوتا تو مجھ پر بھی آتا۔ یاد رکھنا روزِ محشر، تمہارے گریبان پر مجھ جیسے ہزاروں معصوموں کا ہاتھ ہوگا۔۔۔۔۔!

متعلقہ مضامین

Back to top button