مقالہ جات

وطن کی خاطرجان قربان کرنے والے راشد منہاس کو جام شہادت نوش کئے 44 برس ہوگئے

کراچی: مادر وطن کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے پاک فضائیہ کے پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید نشان حیدر کا آج 44 واں یوم شہادت منایا جارہا ہے۔

17 فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہونے والے راشد منہاس نے سینٹ پیٹرک کالج سے سینئیر کمیبرج پاس کیا۔ ان کے خاندان کے متعدد افراد پاکستان کی مسلح افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے جس نے ان کے دل میں موجود مادر وطن کے دفاع کے جذبے کو مزید تقویت دی اور اپنے ماموں ونگ کمانڈر سعید سے جذباتی وابستگی کی بنا پر 1968 میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔

راشد منہاس نے اپنی ابتدائی تعلیم جیس اسکول اور کوئین میری اسکول سے حاصل کی۔

اس کے بعد والد راولپنڈی شفٹ ہوئے تو راشد منہاس کو سینٹ میری اکیڈمی رائل آرٹلر بازار راولپنڈی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ مگر کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ کراچی منتقل ہوئے تو ان کو سینٹ پیٹرک کالج میں داخل کرا دیا گیا جہاں سے انہوں نے سینیر کیمبرج کا امتحان نمایاں پوزیشن لے کر پاس کیا۔ کامیابی کے بعد انہوں نے پاکستان ایئرفورس میں شمولیت اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔

راشد منہاس کا شوق رنگ لایا اور ان کو پاک فضائیہ میں سلیکٹ ہونے کے بعد ٹریننگ کیلئے کوہاٹ اور کچھ عرصہ بعد رسالپور بھیج دیا گیا۔ رسالپور میں راشد منہاس نے پاکستان ایئرفورس اکیڈمی سے فلائٹ کیڈٹ کی تربیت حاصل کی۔ ایئر فورس اکیڈمی کے طالب علم کی حیثیت سے انہوں نے جون 1970 میں پشاور یونیورسٹی سے بی ایس سی فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔

14 سالہ راشد منہاس کے ليے وہ لمحات باعث فخر تھے جب 6 ستمبر 1965 کے معرکوں میں پاک فضائيہ نے اپنی روايت کو برقرار رکھتے ہوئے شجاعت اور عسکری مہارت کا مظاہرہ کیا۔ 1965 کی جنگ نے تاريخ تو رقم کی مگر پاک فضائيہ کو ايک عظيم، پرجوش پائلٹ آفيسر بھی دے گئی۔

دراصل جنگ ستمبر کے کا رناموں نے 14سالہ راشد منہاس کی زندگی کا مقصد متعين کيا راشد منہاس نے ٹھان لی کہ ایک دن وہ بھی اقبال کے شاہین کی طرح فضاؤں کے شہسوار بن کر دشمن کو سبق سکھائيں گے۔

اسی شوق اور جذبہ حب الوطنی کا اعجاز تھا کہ راشد منہاس نے ناتجربے کاری اور کم عمری کے باوجود اپنے غدار انسٹرکٹر کے سازشی عزائم کو ناکام بنايا اور 20 اگست 1971 کوغدار کے ہاتھوں بے بس ہونے کے بجائے وطن کی خاک پہ جامِ شہادت نوش کرنے کو ترجيح دی۔

20اگست 1971 کو ٹرینر کی پرواز میں فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان بھی ان کے ساتھ سوار ہوا۔ مطیع نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے نوجوان پائلٹ راشد منہاس پر ضرب لگائی اور طیارے کا رخ بھارت کی جانب موڑ دیا-
طیارہ بھارت کی جانب پرواز کر رہا تھا کہ اسی اثناء میں راشد منہاس شہید کو ہوش آگیا اور انہیں نازک حالت کا علم ہوا کہ طیارہ اغواء کرلیا گیا ہے۔ راشد منہاس نے اس موقع پرپی اے ایف مسرور بیس میں صبح11:30 کے قریب رابطہ کیااور طیارے کے اغواء ہونے سے متعلق آگاہ کیا۔

راشداور غدار مطیع الرحمان کے درمیان جھڑپ شروع ہوگئی اور شہید پائلٹ نے مطیع الرحمان کو اس کے ناپاک و مذموم مقصد میں کامیاب نہ ہونے دیا اور طیارہ بھارت کی سرحد سے 32 کلومیٹر کے فاصلے پر زمین بوس ہوا ۔

راشد منہاس کا جذبہ ایمانی اور آتش حب الوطنی تھی جس نے راشد منہاس کو وہ بے مثال جرات بخشی جس کے تحت انہوں نے ایک غدار انسٹرکٹر کے ناپاک منصوبے کو ناکام بناتے ہوئے 20 اگست 1971 کو جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کے اس لازوال کارنامے پر انہیں نشانِ حیدر دیا گیا۔

راشد منہاس شہید کا احساسِ تفاخر، جذبہ شجاعت اور حسن حب وطن ہے جس نے ان کو آخری لمحات میں بھی جنگ جیت لینے کا فیصلہ کرنے کا حوصلہ بخشا اور آج اس کی تصویر اور نام دشمن کیلئے تازیانہ عبرت بن چکا ہے۔ راشد منہاس شہید نے اپنی بے مثال قربانی سے اس قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔

قوم وطن کے اس جیالے سپوت کو سلام اور سلوٹ پیش کرتی ہے۔ جب تک اس ملک میں راشد منہاس شہید جیسے بہادر اور نڈر نوجوان موجود ہیں، دشمن اس ملک کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button