مقالہ جات

اسرائیل کو مولانا سمیع الحق اور احمد لدھیانوی سے بڑی توقعات ہیں، اسرائیلی اخبار کا دعویٰ

صہیونی ویب سائٹ Talniri نے حال ہی میں ایک مضمون شائع کیا جس میں اس نے اسلامی ممالک کے مذہبی رہنماؤں کو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ بتاتے ہوئے دنیائے اسلام میں امام خمینی اور ایرانی سپریم لیڈر آیۃ اللہ خامہ ای کی مقبولیت کا جائزہ پیش کیا ہے۔

اس ویب سائٹ نے لکھا کہ "ہم اس بات سے خوش ہوں یا ناراض، مگر ہمیں یہ ماننا پڑیگا کہ خمینی اور خامنہ ای جیسے ملاؤں نے ہی لاکھوں مسلمانوں کو اسرائیلی حکومت سے بیزار کررکھا ہے۔ اسی بات نے ہمیں 35 سال سے لاکھوں کا نقصان جھیلنے پر مجبور کردیا ہے۔ یقینی طور پر اگر ان ملاؤں کی قیادت میں ایران کا انقلاب نہ آتا تو ہم اب تک نیل سے فرات تک قبضہ کرنے کا خواب پورا کرچکے ہوتے۔ مگر صد حیف کہ انہوں ںے اس منصوبے پر پانی پھیرتے ہوئے ہمیں پریشانیوں میں الجھا رکھا ہے”۔

مذکورہ مقالہ میں کہا گیا کہ ایران اسرائیل مخالف شخصیتوں اور تنظیموں کی حمایت کرتا ہے جن میں سب س اہم لبنان کی حزب اللہ ہے۔ یہ ایسی تنظیم ہے جس نے اسرائیل کو مخمصے میں ڈال رکھا ہے اور اسرائیل کی شمالی سرحدوں پر اس کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن گئی ہے۔

مذکورہ صہیونی ویب سائٹ نے ایرانی علماء اور مذہبی رہنماؤں کے حوالے سے لکھا کہا کہ ان کی مقبولیت کا دامن برصغیر تک پھیلا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں برصغیر میں بھی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں لوگوں کی وجہ سے ہندوستان و پاکستان کے مسلمان اسرائیل کے خلاف تحریکیں چلاتے رہتے ہیں۔

مذکورہ ویب سائٹ نے پاکستان کے مولانا سمیع الحق اور مولانا لدھیانوی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اس طرح کے روشن خیال علماء کی مدد کرنی چاہئے۔ کیونکہ یہ دونوں علماء اپنی تقاریر اور اپنے بیانات میں اسرائیل کے خلاف بیان دینے کے بجائے لوگوں کو ایران کے اسلامی انقلاب کے خطرات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔

اس سلسلے میں ویب سائٹ نے لکھا کہ "مولانا سمیع الحق نے اپنےایک کتابچے میں لکھا تھا کہ دین اسلام کا بہترین فریضہ، ایرانیون کے خلاف جنگ کرنا ہے۔ اور اس راہ میں جان دے دینا بہترین عبادت ہے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنا ہماری ترجیحات میں سے نہیں ہے کیونکہ فلسطینیوں نے اسرائیلیوں کے ساتھ صلح کرلی ہے۔ اس لیے ہمارا اسرائیل کےساتھ جنگ کرنا حرام ہے”۔

اسی طرح مولونا لدھیانوی کے حوالے سے بھی نقل کیا کہ "مولانا لدھیانوی نے پیشاور میں تقریر کرتے ہوئے 2014 میں کہا تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) کی فتوحات کے بعد یہودیوں کے خلاف جنگ کرنے کا حکم اٹھا لیا گیا ہے اس لیے اباسرائیل کے خلاف جنگ کرنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے”۔

صہیونی حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے ویب سائٹ نے لکھا کہ اسرائیل کو سعودی عرب، قطر، امارات، مصر، اردن اور مراکش کے علاوہ جنوبی ایشیائی ممالک کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہئے۔ اور اگر اسرائیل کی حکومت ہر مہینے ان ملاؤں کو ایک ٹینک کی قیمت کے برابر پیسہ ادا کرتی رہے تو یقیناً وہ ایرانی علماء کا بہتر انداز میں مقابلہ کرسکتا ہے۔ ایسی پالیسی اپنانے سے کسی قسم کا خون خرابہ بھی نہیں ہوگا اور رفتہ رفتہ مسمانوں کے دلوں سے اسرائیل کی نفرت بھی ختم ہوجائیگی۔ اور ہم پہلے سے زیادہ اپنے ملک میں پرسکون زندگی گزار سکیں گے۔

Source::: http://www.sachtimes.com/ur/analysis/3566

متعلقہ مضامین

Back to top button