پاکستان

فاٹا میں فوجی آپریشن، دہشتگرد افغانستان فرار

تقریباً ایک سال پہلے پاک فوج نے افغان سرحد پر واقع قبائلی علاقہ جات میں سے شمالی وزیرستان میں ضرب عضب جبکہ خیبر ایجنسی میں خیبر اول اور خیبر ٹو کے نام سے ایک گرینڈ آپریشن کا آغاز کیا۔ پاک فوج کے مطابق اس آپریشن کے دوران انہیں 90 فیصد کامیابی حاصل ہوچکی ہے، جبکہ فرانسیسی نیوز ایجنسی نے بعض فوجی ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستانی فوج نے اس وقت اپنی پوری توجہ وزیرستان کے علاقے شوال کی طرف مبذول کرلی ہے۔ جسے اس وقت کالعدم تحریک طالبان کا گڑھ خیال کیا جا رہا ہے۔ پاک فوج کے مطابق گذشتہ سال جون سے لیکر آج تک 2700 سے کچھ زیادہ دہشتگرد ہلاک کئے جاچکے ہیں۔ نیز اس دوران دہشتگردوں کے تقریباً 800 ٹھکانے بھی تباہ کئے جاچکے ہیں، جبکہ دہشتگردوں کے خلاف اس آپریشن میں پاک فوج کے تقریباً 300 اہلکار بھی کام آچکے ہیں۔

درہ شوال کی طرف پیشقدمی:
پاک فوج اپنے آپریشن کا دائرہ بڑھا کر نئی تیاریوں میں لگی ہوئی ہے۔ فرانسیسی نیوز ایجنسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے آپریشن ضرب عضب میں شریک ایک فوجی اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ اس وقت فوجی دستے زمینی کارروائیوں کے لئے بڑی تیزی سے تیاریوں میں مصروف ہیں۔ تاہم زمینی کارروائیوں سے پہلے اس علاقے میں فضائی کارروائیاں ہونگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہوائی بمباری کے ذریعے بعض نہایت مشکل اھداف کو پیشگی حاصل کرکے اپنی مشکلات کو آسان بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ زمینی کارروائی کے دوران فوج کو سنگین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب عینی شاہدین بھی شوال کے علاقے میں پاک فوج کی موجودگی اور بڑے پیمانے پر انکی نقل و حرکت کا اعتراف کر رہے ہیں۔ تاہم بعض علاقائی عمائدین نے اس حوالے سے اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ اپنی پسپائی کے دوران دہشتگرد آسانی سے افغانستان میں پناہ حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بارڈر کے دونوں جانب دہشتگردوں پر فتح حاصل کرنا بڑا مشکل کام ہے، کیونکہ یقینی شکست کے دوران یہ لوگ فوراً سرحد پار ہمسایہ ملک میں پناہ لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ایک قبائلی مشر عجب خان نے کہا کہ اس وقت روزانہ بیسیوں دہشتگرد متاثرہ علاقے سے افغانستان کی طرف بھاگ کر پناہ حاصل کر رہے ہیں۔ ابھی صرف چند ہی دنوں میں 200 کے لگ بھگ جنگجو سرحد پار کرکے افغانستان منتقل ہوچکے ہیں۔ عجب خان نے مزید کہا کہ ایک بڑی تعداد میں دہشتگردوں نے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں اپنے مورچے اور ٹھکانے تشکیل دیئے ہیں۔ جنکی بنا پر وہ فوجی آپریشن کے خلاف سخت مزاحمت کرنے کے قابل ہونگے۔

آپریشن میں کامیابی کیلئے انتظامی اصلاحات کی ضرورت
سکیورٹی پلانز کے ماہرین کا کہنا ہے کہ فوجی آپریشن سے علاقے میں ممکنہ اہداف اس وقت تک حاصل نہیں کئے جاسکتے، جب تک اس نیم خود مختار علاقے کی کمزور معاشی صورتحال کو ٹھیک نیز انتظامی اصلاحات کرنے کا آغاز نہیں کیا جاتا، کیونکہ قبائلی علاقوں میں اس وقت پاکستان کا آئین لاگو نہیں، ماورائے آئین فیصلے اور وہ بھی حکومت کے زیر نگرانی کئے جاتے ہیں۔ کسی کو قانون پاکستان کے تحت فریاد کرنے کا حق تک نہیں دیا جاتا۔ خیال رہے کہ فاٹا پاکستان کے غریب ترین اور پسماندہ ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جس میں آج بھی وہی قانون (ایف سی آر) نافذ ہے جسے انگریز حکومت نے تقریباً ایک سو بیس سال قبل تشکیل دیا تھا۔ متاثرہ علاقوں میں اگرچہ فوج کا سخت کنٹرول ہے اور کسی بھی آزاد ذریعے سے اہم معلومات حاصل کرنا کچھ آسان نہیں۔ تاہم اسکے ساتھ ساتھ ایسی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں کہ پاک فوج کی طرف سے شروع کئے گئے اس آپریشن کے دوران دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی مر رہے ہیں۔

اپنے ملک میں مہاجرت کی زندگی
چند سال پہلے درہ سوات میں لانچ کئے جانے والے آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر دور دراز علاقوں میں پناہ لینی پڑی تھی۔ بالکل اسی طرح یا اس سے بھی سخت حالت آج وزیرستان کے عوام پر آچکی ہے۔ اس وقت لاکھوں افراد گھر بار چھوڑ کر قریبی علاقوں بنوں، ٹانک، کرک کے علاوہ پشاور اور ملک کے دیگر دور دراز علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں اور ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا کہ وہ اپنے ملک میں مہاجرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

آپریشن میں کون لوگ مر رہے ہیں؟؟؟
پاکستان میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کمیشن کے ایک اعلٰی عہدیدار آئی اے رحمان نے ایک غیر ملکی نیوز ایجنسی کو بتایا ہے کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ فوجی آپریشن کے نام پر فوج کس قسم کے لوگوں کو مار رہی ہے۔ ان خبروں کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی معلومات نہیں کہ روزانہ کتنے افراد مارے جا رہے ہیں۔ ان میں کتنے دہشتگرد ہیں اور کتنے عام لوگ۔ اس بارے ہمارے پاس کوئی اطلاعات نہیں۔ رحمان کا مزید کہنا ہے کہ ان علاقوں کی خبروں اور حالات کے متعلق لوگوں کو معلومات ہونی چاہیں، فوجی آپریشن شفاف طریقے سے ہو اور اسکے متعلق لوگوں کو پوری طرح آگاہی حاصل ہونی چاہیئے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button