مقالہ جات

65 سال قبل سعودی عرب کیلئے امریکی خفیہ مشن

کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کہی بات کبھی بھی حرف آخر نہیں ہوتی۔ یہی تو وجہ ہے کہ دنیا میں سیاسی لوگوں کی پالیسیاں روز افزوں بدلتی رہتی ہیں، یہی نہیں بلکہ اسی طرح ممالک اور حکومتوں کی پالیسیوں میں بھی اتار چڑھاو ہوتا رہتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ کوئی مخصوص ملک، سیاسی جماعت یا کوئی شخصیت کسی زمانے میں کسی کا دشمن ہوتا ہے، تو وہی شخص یا ملک کچھ عرصہ بعد اپنے سابقہ اسی دشمن کا قابل اعتماد دوست بن جاتا ہے۔ کبھی تو انکے بہادری کے گن گنائے جاتے ہیں، تو کچھ ہی عرصہ بعد وہی شخص بہادری کا لباس مع زرہ و خود کے اتار پھینکتا ہے۔ اسی طرح آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ کسی مخصوص ملک کی خارجہ یا داخلہ پالیسی کسی خاص زمانے میں کچھ ہوتی ہے جبکہ زمانے کے نشیب و فراز کے بعد اسی ملک کی پالیسی تبدیل ہو کر رہ جاتی ہے۔

آپ نے دیکھا نہیں تو سنا ضرور ہوگا کہ 1979ء سے قبل ایران کی خارجہ اور داخلہ پالیسی تقریباً امریکہ اور اسرائیل کے ماتحت تھی، بلکہ ایران علاقے میں امریکن پولیس مین کا کردار ادا کر رہا تھا، لیکن وہی ملک اب علاقے میں امریکہ کا سب سے بڑا مخالف اور انکے مفادات کے لئے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوکر امریکہ کی راہ کا کانٹا ثابت ہو رہا ہے۔ 1967ء کی عرب اور اسرائیل جنگ تک اکثر عرب خصوصاً مصر اسرائیل کا سب سے بڑا مدمقابل ثابت ہو رہا تھا، لیکن آج وہی مصر اپنے تمام ہمزبان عربوں سمیت اس علاقے میں اسرائیل کے مفادات کا بہترین محافظ ثابت ہو رہا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ممالک کی پالیسیوں میں وقتاً فوقتاً تبدیلی میں کچھ عوامل کارفرما ہوتے ہیں، جن میں سے ایک ملک کی اندرونی یا بیرونی صورتحال اور مجبوریاں ہوتی ہیں، اسکے علاوہ کسی مخصوص ملک کی اس مجوزہ ملک کے معاملات میں دلچسپی بھی ایک اہم عامل ہوسکتا ہے۔ یعنی اگر ایک دشمن ملک اپنی پالیسی کو ایک خاص سمت دے، اور اس مخصوص ملک میں اور اسکے رائل فیمیلی میں دلچسپی لینا شروع کرے تو کچھ ناممکن نہیں کہ اسکی پالیسی تبدیل ہو۔

سعودی عرب کی پالیسی:
آپکے علم میں ہوگا کہ کوئی چھ دہائیاں پہلے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں تیل اور علاقائی سکیورٹی کے حوالے سے کشیدگی پائی جاتی تھی، لیکن امریکی صدر ہیری ٹرومین کے ذاتی ڈاکٹر کے سعودی بادشاہ کا علاج کرنے کے بعد دونوں ممالک کشیدگی کے باوجود قریب آگئے۔ ان تعلقات میں تبدیلی کا قصہ کچھ اسطرح شروع ہوتا ہے کہ فروری 1950ء میں سعودی عرب میں امریکی سفیر نے امریکی وزارتِ خارجہ کو ایک عجیب سی درخواست بھیجی۔ جس میں کچھ یوں کہا گیا تھا۔ ’’ایچ ایم نے ہم سے درخواست کی ہے کہ انھیں فوری طور پر ایک بہترین سپیشلسٹ مہیا کیا جائے، جو کہ ایک نائب کے ہمراہ سعودی عرب جاسکتے ہوں، تاکہ وہ ان کے جوڑوں کے مرض کا علاج کرسکیں، جس کی وجہ سے انھیں بہت تکلیف ہوتی ہے اور وہ تیزی سے کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔” "ایچ ایم” دراصل سعودی عرب کے بادشاہ عبدالعزيز بن عبد الرحمن آل سعود تھے، جنھیں مغرب میں ابن سعود کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ درخواست امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کے بڑے پیچیدہ دور میں کی گئی تھی۔ امریکہ ظہران کی ایئر فیلڈ لیز پر لینے کی کوششوں میں مصروف تھا اور بہت سے سعودی باشندے، جن میں قدامت پسند مذہبی رہنما بھی شامل تھے، وہاں امریکی فوجی موجودگی کے خلاف تھے۔

ابن سعود خود بھی امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے خوش نہیں تھے۔ اس بات پر بھی مذاکرات ہو رہے تھے کہ سعودی عرب اور امریکی کمپنیوں کی مشترکہ ملکیت کی تیل کی کمپنی آرامکو کا منافع کس طرح تقسیم کیا جائے گا۔ شاہ ابنِ سعود اس لحاظ سے ایک طاقتور رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے، جنھوں نے سعودی عرب کو ایک جھنڈے تلے اکٹھا کیا تھا۔ لیکن وہ بوڑھے ہو رہے تھے اور جوڑوں کے مرض کی وجہ سے ان کی ٹانگوں میں سوجن اور درد رہتا تھا اور اس وجہ سے وہ زیادہ وقت وہیل چیئر پر ہی گزارتے تھے۔ اس سے پہلے بھی امریکی ایئر فورس کا ایک ڈاکٹر ولی عہد سعود کی آنکھ کا علاج کرچکا تھا جسکی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ بادشاہ کو بھی امریکی ڈاکٹروں سے علاج کروانے کا خیال آیا ہو۔ بہرحال امریکی وزارتِ دفاع نے دو سپیشلسٹ، سابق فوجی اور باقی ساز و سامان بھیجا۔ لیکن صدر ٹرومین نے انکے ہمراہ اپنے ذاتی معالج بریگیڈیئر جنرل والس ایچ گریم کو بھی بھیج دیا۔

امریکی خفیہ مشن:
وزیرِ خارجہ ڈین ایچی سن نے جدہ میں امریکی سفارخانے کو بتایا کہ صدر چاہتے ہیں کہ جنرل گریم "ان کے بہترین دوست” کی دیکھ بھال کریں اور ڈیفنس میڈیکل ٹیم کی سربراہی کریں۔ یہ بات انھوں نے ایک خفیہ ٹیلیگرام میں لکھی، جو اب امریکی نیشنل آرکائیو کے پاس ہے۔ یہ چھوٹا اور خفیہ مشن 15 اپریل 1950ء کو واشنگٹن سے سعودی عرب کے لیے روانہ ہوا۔

مشن کو منظر عام پر نہ آنے دینا:
جب اس کی تیاریاں ہو رہی تھیں تو سعودی حکومت نے واشنگٹن میں اپنے سفارتخانے کو ایک ہنگامی ٹیلیگرام بھیجا کہ وہ صدر ٹرومین کو کہیں کہ طبی ٹیم کے سعودی عرب آنے کے متعلق پریس یا ریڈیو میں کوئی خبر نہ آئے۔ خیال رہے کہ سعودیوں کو یہ خدشہ تھا کہ اس فوری دورے کی وجہ سے یہ افواہیں گردش کرنا شروع نہ کر دیں کہ ابن سعود بہت بیمار ہیں اور وہ تخت چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو ان کا بالکل ارادہ نہیں تھا۔ نیز یہ بھی کہ وقت سے پہلے امریکہ اور سعودی تعلقات کا پول نہ کھول جائے۔ تاہم ٹرومین کی دلچسپی اس مشن کو خفیہ رکھنے میں کسی اور وجہ سے بھی تھی۔ وہ یہ تھی کہ سعودی عرب آرامکو کے تیل اور سخت کمیونزم مخالف جذبات کی وجہ سے ایک ایسا اتحادی تھا جسکی بہت ضرورت تھی، لیکن اس پر اعتماد کرنا بھی مشکل تھا۔ اس طرح کے اتحادی کی امریکہ میں حمایت ذرا مشکل تھی۔

امریکی مہمان ریاض میں
تین دن کے سفر کے بعد یہ پارٹی سعودی عرب پہنچی اور بادشاہ سے ملاقات کی، جو کہ بقول امریکی سفارتخانے کے قونصلر ہیورڈ ہل کے، بڑی بیتابی اور جوش سے ڈاکٹروں کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہل نے واشنگٹن کو بھیجے جانے والے ایک میمو میں لکھا کہ جنرل گریم نے بادشاہ کو بتایا کہ صدر ٹرومین نے انھیں بادشاہ کے لئے تحفے کے طور پر بھیجا ہے۔ بادشاہ ہنس دیئے اور کہا کہ یہ یقیناً بہت ہی قیمتی تحفہ ہے۔ 1989ء میں جنرل گریم نے ایک تاریخ داں کو بتایا تھا کہ ابن سعود بہت زیادہ تکلیف میں تھے۔ ان کے گھٹنوں کے جوڑوں میں ڈھیلی ہڈیاں تھیں اور وہاں ڈھیلی، سخت اور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے ٹکڑے بھی تھے۔ انھوں نے ابن سعود کو کہا کہ وہ سرجری کے لئے امریکہ چلے جائیں لیکن شاہ نے انکار کر دیا۔ اس سفر سے وزاتِ خارجہ کو بھی سعودی عرب میں روز مرہ کی زندگی کے متعلق معلومات حاصل ہوئیں۔

اپنے امریکی مہمانوں کی خاطر سخت قوانین میں نرمی:
سعودی عرب کے امور پر ماہر فریڈ اوالٹ وزارتِ خارجہ کے میمو میں لکھتے ہیں کہ ’اس بات میں گہری دلچسپی لی گئی کہ سعودی عرب میں موسیقی، کھیلوں، کھلونوں اور دیگر غیر مذہبی تفریح کے ذرائع پر لگی پابندیوں کو اٹھا لیا گیا تھا۔ انھوں نے اس تبدیلی کا زیادہ تر کریڈٹ ولی عہد سعود کو دیا۔ اگرچہ انھوں نے سرجری سے انکار کیا، لیکن امریکی ڈاکٹروں کے علاج سے ابن سعود کی تکلیف میں ذرا کمی ضرور ہوئی۔ اوالٹ نے مئی میں بھیجے گئے ایک ٹیلیگرام میں لکھا کہ اب بادشاہ مستقل طور پر وہیل چیئر استعمال کرنے کی بجائے آسانی سے چلنا پھرنا شروع ہوگئے ہیں اور ان کے گھٹنے پوری طرح سیدھے ہوگئے ہیں۔

مشن کی کامیابی:
اس دورے نے امریکہ اور سعودی عرب کو قریب کر دیا۔ اگلے سال اگست میں ابن سعود پھر بیمار پڑ گئے۔ صدر کو بھیجے گئے ایک میمو میں ایچی سن نے سفارش کی کہ جنرل گریم کو فوری طور پر دوبارہ سعودی عرب بھیجا جائے۔ ڈین ایچی سن نے لکھا ہے کہ جنرل گریم کو بھیجے جانے سے نہ صرف ابن سعود خوش ہوئے بلکہ وہ ایک ایسی سفارتی حکمتِ عملی بھی ثابت ہوئے جس کی وجہ سے امریکہ اور سعودی عرب کا مفید معاہدہ ہوسکا۔ یہی وہ باہمی دفاعی معاہدہ تھا جو دونوں ممالک میں آج تک جاری تعاون کی بنیاد بنا۔ جب جنرل گریم، اوالٹ اور دوسرا طبی عملہ 1951ء میں وائٹ ہاؤس میں میٹنگ کر رہا تھا تو صدر ٹرومین بھی وہاں آئے اور انھیں بتایا کہ ابن سعود اور سعودی عرب، امریکہ کے لئے کتنے اہم ہیں۔ اوالٹ لکھتے ہیں کہ صدر نے گروپ کو بتایا کہ وہ ایک اہم مشن پر ایک اہم شخصیت سے ملنے جا رہے ہیں۔

انجام:
امریکی اور انگریز جب ایک منصوبہ بنا رہے ہوتے ہیں تو انکے پیش نظر صرف مستقبل قریب نہیں ہوا کرتا، بلکہ مستقبل قریب سے کچھ زیادہ مستقبل بعید انکے پیش نظر ہوتا ہے، لہذا علاج کے حوالے سے امریکیوں کی نظر صرف 1960ء کے عشرے پر مرکوز نہیں تھی، بلکہ انکی نظریں اکسویں صدی پر بھی تھیں۔ آج کی صورتحال کو اگر دیکھا جائے کہ سعودی عرب اسلامی دنیا کے مفادات کے خلاف امریکہ کی کس فراخدلی سے خدمت کرتا رہا ہے، تو سمجھ آجائے گی کہ اس پر ساٹھ پینستھ سال قبل کتنا کام ہوچکا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button