مقالہ جات

کیا حماس غزہ میں داعش کو روک سکتی ہے؟

غزہ کی پٹی گذشتہ سال کے اسرائیل کے حملے کی وجہ سے پہلے ہی تباہی کا شکار ہے لیکن ابھی بھی اس کی مصیبت ختم نہیں ہوئی کیونکہ اب اسے داعش سے مرعوب انتہائی قدامت پسند جنگجوؤں کی طرف سے اندرونی خطرات کا سامنا ہے۔

جنوری میں فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں نے داعش کے کالے رنگ کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے اور وہ فرانس کے جھنڈوں کو جلا رہے تھے۔
غزہ میں حماس انتظامیہ نے انھیں مظاہرہ کرنے دیا تھا تاکہ وہ اپنے اسلام پسند ہونے کا ثبوت دے سکیں۔ لیکن گذشتہ کچھ مہینوں سے کافی سنجیدہ جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں۔
اپریل میں داعش کی طرف سے جنوبی دمشق کے یرموک پناہ گزینوں کے کیمپ میں تقریباً سو فلسطینیوں کے قتل اور دو فلسطینی رہنماؤں کے سر قلم کرنے کے بعد حماس نے داعش کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ خطے کے دوسرے علاقوں میں انتہا پسند داعش سے حوصلہ افزائی پا رہے ہیں۔
غزہ کی الظہر یونیورسٹی کے شعبۂ سیاست کے پروفیسر مخائمر ابو سادا کہتے ہیں ’یہاں غزہ میں سلفی گروہ ہیں جو داعش کی حمایت کر رہے ہیں۔‘
’وہ نظریاتی اور اسلام اور قرآن کی ریڈیکل تشریح کی وجہ سے اپنے آپ کو داعش سے ملاتے ہیں۔‘
’وہ حماس سے خوش نہیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حماس نے اسلامی قانون کو صحیح طریقے سے نافذ نہیں کیا ہے اور کیونکہ حماس نے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس کی وجہ سے 2014 کی گرمیوں میں ہونے والی لڑائی رکی تھی۔‘
حماس اپنی سکیورٹی فورسز کے خلاف کئی حملوں کا الزام ریڈیکل سلفی گروہوں پر لگاتا ہے۔ اس کے بعد کئی کارکن اور مذہبی رہنما گرفتار کیے جا چکے ہیں اور ایک سلفی مسجد بھی تباہ کی گئی ہے۔
گذشتہ ہفتے غزہ شہر میں سکیورٹی فورسز کی ایک ریڈ میں 27 سالہ داعش کا حمایتی یونس حنار ہلاک ہو گیا تھا۔
حنار کے گھر کے باہر دیوار پر گولیوں اور خون کے نشانات ہیں۔ ان کے بھائی نے مجھے بتایا کہ ان کا خاندان اس بارے میں اب کچھ بولنا بھی نہیں چاہتا۔
تاہم ان کے گھر کے باہر دیوار پر داعش کا جھنڈا بھی بنا ہوا ہے اور حماس کے خلاف ایک نعرے لکھے ہوئے ہیں اور بدلے کی بات کی گئی ہے۔ ایک گرافیٹی پر لکھا ہے کہ ’جب تک ہم زندہ ہیں تمہارا خون نہیں بھولیں گے۔‘
غزہ میں سلفی تقریباً ایک دہائی پہلے آئے تھے۔ وہ بہت سخت طرز زندگی گزارتے ہیں
ابھی تو حماس ہی انھیں روکنے میں کامیاب ہو سکی ہے جس کی اپنی نظریاتی جڑھیں اعتدال پسند اخوان المسلمین سے جڑی ہوئی ہیں۔
2009 میں جنوبی شہر رفا میں تناؤ اس وقت بڑھ گیا تھا جب سلفی رہنما عبدالطیف موسیٰ نے اسلامی امارات کا اعلان کر دیا تھا۔ اگلے دن حماس کی فورسز نے اس کی مسجد اور گھر میں گھس کر انھیں 20 ساتھوں سمیت ہلاک کر دیا۔
2011 میں فلسطینیوں کے حامی اطالوی سرگرم کارکن وٹوریو ایرجونی کے سلفیوں کے ہاتھوں اغوا اور قتل کے بعد حماس نے گروہ کے خلاف سخت کارروائی کی تھی۔
سلفی جنگجوؤں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے وہ زیادہ ایک ہزار ہوں گے یا اس سے کہیں کم۔
اس کے برعکس حماس کے پاس 35,000 سکیورٹی اہلکار ہیں۔
تاہم حالیہ واقعات اس وقت ہو رہے ہیں جب اسلامی تحریک کمزور ہو چکی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق گذشتہ برس کی 50 روزہ جنگ میں 2,200 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے زیادہ تعداد عام شہریوں کی تھی اور اسرائیل کی طرف سے 73 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
ہزاروں گھر تباہ ہو گئے اور شہر کا اہم بنیادی ڈھانچہ بھی بری طرح تباہ ہو گیا۔
غزہ میں اسرائیل اور مصر کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کے نہ اٹھائے جانے کی وجہ سے لوگ حماس سے ناخوش ہیں اور جن کی وجہ سے تعمیرِ نو کے کام میں بھی کافی مشکلات آ رہی ہیں۔
حماس کے نائب وزیرِ خارجہ غازی حماد کہتے ہیں کہ غزہ میں کوئی بھی تنظیم رسمی طور پر داعش سے منسلک نہیں اور یہ کہ ’جاہل لوگوں‘ کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آیا جائے گا۔
ابھی تو سلفی حماس پر دباؤ ڈالنے کے علاوہ کوئی بہت زیادہ نہیں کر رہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے جنگجوؤں کے پاس کوئی واضح قیادت اور تنظیم نہیں ہے اور ان کے پاس وسائل بھی بہت کم ہیں۔
تاہم یہ خدشات ضرور ہیں کہ وہ حماس سے ناخوش جنگجوؤں کو اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں اور باہر سے داعش سے فنڈز اور اسلحہ حاصل کر سکتے ہیں، خصوصاً مصر میں سینائے کے علاقے سے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک خطرناک بات ہو گی

متعلقہ مضامین

Back to top button