مقالہ جات

سعودی استعمار اور اسٹیبلشمنٹ کا حواری ایکسپریس میڈیا گروپ

پاکستان کا میڈیا گروپ ایکسپریس اس وقت آل سعود اور اسٹبلشمنٹ میں آل سعود کے غلاموں اور بلوچ ، سندھی ، پشتون ، سرائیکیوں سمیت ہر اس گروہ کو اچھوت سمجھنے والوں کے تنخواہ داروں کو پرائم ٹائم میں سب سے زیادہ وقت دینے کا ریکارڈ قائم کررہا ہے اور اس قدر بھونڈے انداز میں یہ سب پروپیگنڈا پروگرام آن ائر کررہا ہے کہ کوئی بھی آسانی سے پہچان لیتا ہے کہ ان پرگراموں کے ھدایات کہاں سے مل رہی ہیں

اس وقت اسلام آباد میں سعودی عرب ، یواے ای ، کویت ، بحرین ، سوڈان ، مصر کے سفارت خانے پاکستان لے اندر فرقہ واریت کو پھیلانے کی پوری پوری کوشش کررہے ہیں اور پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بے انتہا وسائل خرچ کئے جارہے ہیں اور آل سعود کے لئے ہمدردیاں خریدنے کی کوشیش عروج پر ہیں
احمد قریشی نام کا آدمی جس کو اس وقت ایکسپریس چینل پر پرائم ٹائم کا زیادہ حصہ دیا جارہا ہے کے نام نہاد تجزیوں کا مرکزی فوکس آل سعود کے حق میں پروپیگنڈا کرنا اور حقائق کو مسخ کرنا ہے اور احمد قریشی کا دوسرا کام پاکستان کے اندر بالعموم اور بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور ریاستی فورسز کے مظالم پر پردہ ڈالنا ہے اور ایسے نظر آتا ہے کہ ریاست یہ چاہتی ہے کہ بلوچستان کے اندر سیکورٹی فورسز کی جانب سے کئے جانے والے مظالم کا پردہ فاش نہ ہو اور مین سٹریم میڈیا میں بلوچستان کا اسٹبلشمنٹ کا بیانیہ غالب رہے جبکہ دوسرا رخ سامنے نہ آئے

ایسی ہی ایک بھونڈی کوشش احمد قریشی نے حال ہی میں کی جب اس نے لاہور یونیورسٹی مینجمنٹ لمز کے پروفیسر ڈاکٹر تیمور الرحمان کی کردار کشی کی گئی ، ڈاکڑ تیمور الرحمان بلوچستان کی صورت حال کو عیاں کرنے کے حوالے سے ایک سیمینار کروانے کا اہتمام کیا اور اس کے لئے اس وقت اسٹبلشمنٹ کے سب سے ناپسندیدہ لوگ ماما قدیر ، فرزانہ بلوچ ، علی احمد ٹالپر کو دعوت دے ڈالی بس اسی وجہ سے لمز کی انتظامیہ پر دباو ڈال کر اس سیمینار کو ملتوی کرایا گیا اور اس کے بعد جب اس حوالے سے خبریں اوپن ہونا شروع ہوئیں اور اسٹبلشمنٹ کے لمز انتظامیہ پر دباو کی پول کھلی تو اسٹبلشمنٹ نے اس پر اپنا روائتی احمقانہ طریقہ استعمال کرنا شروع کردیا

احمد قریشی نے 74ء میں بلوچوں کی مزاحمت کا ساتھ دینے والے بائیں بازو کے چند ایک کرداروں کو سامنے رکھکر ڈاکٹر تیمور الرحمان کا اسقدر خوفناک امیج بناخر دکھایا جیسے بلوچ قوم کی مرکز کی نوآبادیاتی پالیسیوں کے خلاف ساری کی ساری لڑائی ڈاکٹر تیمور الرحمان کی فیملی اور ان کے دوستوں نے ہی تیار کرکے دی تھی ، احمد قریشی نے لندن گروپ کا تذکرہ کرتے ہوئے دانستہ احمد رشید کا نام نہیں لیا اور یہ بھی بھول گئے کہ 74ء کی مزاحمتی تحریک کو تو آج کے بلوچستان کے چیف منسٹر ڈاکٹر عبدالمالک کے سیاسی گرو میر غوث بخش بزنجو کی حمائت بھی حاصل تھی اور ڈاکٹر مالک خود بھی اس زمانے میں بطور طالب علم اس مزاحمتی تحریک کے حامی تھے اگرچہ وہ لڑنے پہاڑوں پر نہیں گئے تھے

بلوچستان کی مزاحمتی تحریک کو امریکی ، بھارتی ، یا کسی اور ملک کی سازش بناکر دکھانے والے “بلوچ قومی سوال ” کے انکاری ہیں جو اسی طرح سے حقیقی ہے جس طرح سے پاکستان کے اندر سندھی ، پشتون ، سرائیکی ، گلگتی ، کشمیری سوال حقیقی ہیں ، بلوچستان اسلام آباد اور لاہور کی کالونی نہیں ہے اور یہاں کی عوام اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا چاہتی ہیں ، اسلام آباد بلوچ سوال کو بہت طریقوں سے مسخ کرتا ہے ، وہ اس سوال کے زمین پر موجود ہونے سے انکار کرتا ہے اور اسے بیرونی سازشوں کے نتیجے میں وجود پانے والا معاملہ قرار دیتا ہے

اسے ایسے صحافی اور تجزیہ کار وارہ کھاتے ہیں جو بلوچ قومی تحریک کو یا تو گلف ریاستوں کی سازش کہیں یا اسے ایرانی پلان بتلائیں یا اس کے پیچھے امریکی ، برطانوی اور اسرائیلی ھاتھ تلاش کریں ، میں کہتا ہوں کہ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کہ ایک اہم سٹرٹیجک اہمیت کے خطے میں جب کوئی قومی تحریک کھڑی ہوجاتی ہے تو علاقائی و عالمی طاقتیں جن کے اس خطے میں مفاد ہوا کرتے ہیں وہ اس میں کسی نہ کسی سطح پر ملوث ہوجایا کرتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کرتا کہ وہ پوری تحریک کسی کی کٹھ پتلی ہے ، جیسے کشمیر کی تحریک کو مینی پولیٹ کیا گیا اور اس کی قومی آزادی کی تحریک پر نقم نہاد جہادی رنگ چڑھایا گیا اور پاکستانی پراکسی نے اس کی گوریلا لڑائی کو پوری طرح سے برباد کردیا ، بلوچ قومی تحریک کو بھی یہ خطرات لاحق ہیں

اسٹبلشمنٹ بلوچ مزاحمتی تحریک کو ختم کرنے کے لئے کئی طرح کی پراکسیز کا استعمال کررہی ہے ، اس نے بلوچستان میں ایک طرف تو بلوچ مزاحمت کاروں کے سامنے دیوبندی ، سلفی اور جماعت اسلامی کی نام نہاد جہادی عسکریت پسندی کی تعمیر کی اور دوسری طرف جند اللہ ، لشکر جھنگوی سمیت کئی ایک دیوبندی دہشت گروپوں کے زریعے سے بلوچوں کے پڑوسی ہزارہ شیعہ کمیونٹی اور وہاں کی صوفی سنی ، زکری کمیونٹی کے اندر اس قدر خوف پیدا کیا اور ان کو اتنا مارا اور یہ باور کرایا کہ محض اسٹبلشمنٹ ان کو بچا سکتی ہے اور اس طرح سے ان تین کمیونٹیز کے بلوچ قومی تحریک کے ساتھ جڑت کے امکانات ختم کرنے کی کوشش کی اور پھر یہ بھی اہتمام کیا کہ خود بلوچ قومی تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ میں ڈھالنے کی راہ ہموار کرنے میں بھی کردار ادا کیا
اس امر میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ بلوچوں کے خلاف دیوبندی عسکریت پسند تنظیموں ، جماعت دعوہ اور جماعت اسلامی کے مسلح کیڈروں کو استعمال کررہی ہے اور یہ سیکورٹی فورسز کی پراکسی ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ یہ آل سعود کی پراکسی بھی ہیں

مجھے تو ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ پاکستان میں ملٹری اسٹبلشمنٹ کے اندر ایک طاقتور لابی شیعہ ، صوفی سنی ، کرسچن ، ہندو پر کچھ اس طریقے سے دباو برقرار رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ ایک طرف وہ نام نہاد اہلسنت والجماعت پر ھاتھ رکھے ہوئے ہے تو دوسری طرف وہ بعض سنی بریلوی اور شیعہ لوگوں کو بھی لالی پاپ دیتی ہے ، اہلسنت والجماعت ، جماعت دعوہ ، لشکر طیبہ ، سمیت آل سعود کی وفادار مذھبی جماعتوں کا بلوچ قومی تحریک کے بارے میں موقف یکساں ہے اور یہ موقف اسٹبلشمنٹ کی لائن سے بال برابر بھی ہٹ کر نہیں ہے بلوچ نسل کشی پر یہ متفق ہیں

یہ سوال بھی اٹھایا جانا بہت ضروری ہے کہ اگر فوج واقعی شیعہ نسل کشی ، صوفی سنی قتل و غارت گری کے خلاف یکسو ہے تو ابھی تک اس نے نیکٹا کو فعال کرنے اور کالعدم تنظیموں کی فہرست پبلک کرنے اور نام بدل کر کام کرنے والی تنظیموں پر پابندی اور ان کی گرفتاری ابتک کیوں عمل میں نہیں آئی ؟ جبکہ رینجرز نے جو معاملہ ایم کیو ایم کے ساتھ کیا اس سے مذھبی دہشت گردوں کو استثنی کیسے ملا

پاکستان کی وہ سیاسی جماعتیں جنھوں نے نیشنل ایکشن پلان اور فوجی عدالتوں کے معاملے کو مذھبی دہشت گردی سے مختص کئے جانے کی یقین دھانی کرائی تھی اور اس کو قومی مزاحمتی تحریکوں کے خلاف استعمال نہ ہونے کے دعوے کئے تھے اور یہ بھی کہا تھا کہ جنرک راحیل شریف نے ان کو یقین دھانی کرائی ہے تو وہ ان معاملات پر خاموش کیوں ہیں جبکہ فوج مکران میں پوری طاقت سے آپریشن کرنے کا پروگرام بنارہی ہے تزویراتی گہرائی کو موڈیفائی کرنے کو تزویراتی گہرائی سے دستبردار ہوجانے کا نام نہیں دیا جاسکتا آج ہی ایک امریکی تجزیہ کار کرسٹین فرئر نے اپنی وال پر کہا کہ ان کی بات لکھ لی جائے کہ یمن پر پارلیمنٹ کی قرارداد کی کوئی حثیت نہیں ہے پاکستان سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی یمن پر جارحیت کا حصہ تھا اور ہے اور یہ نہ نہ کرتے بھی وہ سب کرے گا جوآل سعود اس سے مانگ رہے ہیں

مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ نے پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد اپنا جو ماسک شیعہ ، صوفی سنی کمیونٹی کو رام کرنے کے لئے چڑھایا تھا اس کو اترنے سے کیسے بچایا جائے اور سارا الزام محض نواز شریف اینڈ کمپنی پر رکھا جائے ، اس وقت سب سے زیادہ خسارے میں وہ سب لوگ اور طاقتیں ہیں جو ایک طرف تو گلف ریاستوں کی آدمخور وھابیت و مذھبی فسطائیت کے بھی خلاف ہیں تو دوسری طرف وہ بلوچ سمیت کسی بھی قوم کی مزاحمتی تحریک کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں کچل دئے جانے کے مخالف ہیں اس ملک کے مجبور و مظلوم شیعہ ، بلوچ ، صوفی سنی ، کرسچن ، ہندو ، احمدی ، محنت کش ، شہری و دیہی غریب سب کا باہمی اتحاد پارہ پارہ کرنے والی پراکسیز اور ان کے مربیوں کی پہچان انتہائی ضروری ہے

T

متعلقہ مضامین

Back to top button