سعودی عرب

آیت اللہ محسن الحکیم کا سعودی مفتی اعظم سے مناظرہ ،اندھا مفتی لاجواب ہوکر فرار

جب آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم طباطبائی 1968 میں حج بجا لانے کے لیے تشریف لے گئے تو وہابی مفتی عبدالعزیز بن باز [جو کہ نابینا تھے ] ملک فیصل کی محفل میں مفتی بن باز نے آیت اللہ حکیم سے مصافحہ نہیں کیا جس سے محفل کا رنگ بدل گیا شاہ فیصل نے غصے میں کہا کہ یہ ہمارے مہمان ہیں ۔۔۔ مفتی نے اعتراض کیا کہ شیعہ قران کی آیات کی تاویل کیوں کرتے ہیں؟ آیت اللہ حکیم نے فرمایا بعض صورتوں میں تو تاویل ضروری ہے ۔۔ مفتی عبدالعزیز بن باز نے جواب دیا کسی صورت میں بھی تاویل جائز نہیں ۔۔۔۔آپ نے کچہ دیر سمجھایا اور پھر سورہ الإسراء کی آیت72 ﴿ وَمَن كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلاً ۔۔۔۔ ترجمہ ۔۔ جو اس دنیا میں اندھا ہے پس وہ آخرت میں بھی اندھاہو گا اور گمراہ ترین لوگوں میں سے ہو گا .کی تلاوت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اگر اس آیت میں اندھے سے مراد دنیامیں جسمانی نابینا لیا جائے تونتیجہ یہ نکلے گا کہ جو بھی اس دنیا میں نابینا ہو تو وہ آخرت میں اندھا اور گمراہ ہو گا جبکہ اس آیت میں تاویل ضروری ہےاور اندھے سے مراد وہ شخص ہے جو جاننے کے بعد حق کا انکار کرے ۔۔ جواب سن کر شاہ فیصل اور باقی افراد نے قہقہہ لگایا ۔۔ آپ کا یہ جواب سن کر مفتی غصے میں آئے اور اٹھ کرچلے گئے ۔۔۔۔۔ ا

متعلقہ مضامین

Back to top button