مقالہ جات

پاکستانی دل تو سعودی عرب کے ساتھ ہیں پر دماغ نہیں، ڈاکڑ صفدر کا یمن سعودی جنگ پر خوبصورت تبصرہ

جنگ نیوز پیپر کے کالم نویس ڈاکڑ صفدر محمود نے یمن جنگ میں سعودی عرب کے کردار اور پاکستانی پوزیش پر خوبصورت تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ بنیادی طور پر عرب جنگ کہنا چاہئے اور اسی لئے او آئی سی کا اجلاس بلانے کی زحمت نہیں کی گئی بلکہ زیادہ تر عرب ممالک پر مشتمل اتحاد ہی تشکیل دیا گیا ہے۔ پاکستان کی عسکری قوت مسلمہ ہے حالانکہ عسکری سازو سامان اور بہترین اسلحہ سعودی عرب کے پاس ہے جس نے صرف چھ بلین ڈالرز کا جنگی سازو سامان خریدا ہے۔ دولت کی فراوانی اپنی جگہ لیکن یہ عرب ممالک پاکستانی فوج پر اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہ خواب پالتے ہیں کہ مشکل وقت میں پاکستانی فوج ان کی مدد کو پہنچے گی حالانکہ ان ممالک میں عام پاکستانی اور پاکستانی لیبر کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔ یہ بھی عجیب سی بات لگتی ہے کہ بادشاہتیں یمن میں منصور الہادی کی جمہوری حکومت کی بحالی کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں لیکن جب ان کی اپنی ریاستوں میں عرب بہار رنگ لاتی ہے اور لوگ جمہوری خواہشات کا اظہار کرتے ہیں تو انہیں کچل دیا جاتا ہے۔ بحرین کی چھوٹی سی شورش کو دبانے میں عربوں کے ساتھ ساتھ ہمارا حصہ بھی شامل تھا۔ یہ بحث بھی فضول سی لگتی ہے کہ مصر میں جمہوری حکومت اور اسلامی نظام کی حامی اخوان المسلمین کا تختہ الٹ دیا گیا لیکن اس پر احتجاج تو کجا برسراقتدار آنے والی فوجی حکومت کے سر پر دست شفقت رکھ دیا گیا۔ فلسطینیوں پر بم باری میں مداخلت تو اسرائیلی انتقام کو دعوت دے کر خوفناک نتائج پیدا کرسکتی ہے لیکن اخوان کی جمہوری و عوامی حکومت تو ان سے حمایت کی توقع رکھتی تھی۔ امریکہ بہادر ہو یا اس کے ساتھی وہ اسلحہ بیچ کر ڈالرز کمائیں گے، مسلمانوں کا خون بہنے اور تفرقہ پھیلنے پر قہقہے لگائیں گے اور کبھی جمہوری اقدار اور کبھی ملکی مفادات کی آڑ میں ہلہ شیری کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
اس لئے دوستو! یاد رکھو کہ یہ نہ اسلام کی جنگ ہے، نہ جمہوریت کی جنگ ہے، نہ شیعہ سنی جنگ ہے بلکہ یہ محض اپنے اپنے مفادات کی جنگ ہے۔ اس سے نہ حرمین شریف کو خطرہ ہے اور نہ ہی سعودی ریاست کو البتہ اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے تو سعودی عرب کے لئے ویت نام بن سکتی ہے اور یہی وہ خطرہ ہے جس سے نپٹنے اور عہدہ برآ ہونے کے لئے سعودی اسے جلد ا ز جلد پایۂ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں اور جلد از جلد مطلوبہ نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے میں پاکستان کا رول بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ میں نے پہلے بھی واضح کردیا تھا کہ پاکستان نہ ثالثی کا کردار سر انجام دینے کا اہل ہے اور نہ ہی سعودی عرب کو اس کی ضرورت ہے۔رہا ایران تو اس کا دعویٰ ہے کہ وہ حوثیوں کی فوجی مدد نہیں کررہا اور وہ اس مسئلے کا پرامن حل چاہتا ہے۔

اب تک سینکڑوں تحریریں پڑھنے اور ہزاروں تجزیات سننے کے بعد آپ صورتحال کی تفصیلات، مضمرات، تضادات اور ا لجھنوں سے آگاہ ہوچکے ہیں اس لئے میں اختصار سے کام لیتے ہوئے آپ سے اپنی کیفیت شیئر کررہا ہوں۔ میری ذاتی کیفیت کچھ یوں ہے کہ مجھے عقل اور منطق ایک طرف کھینچتی ہیں تو دل اور محبت دوسری طرف ۔ عقل کا پاسبان کہتا ہے کہ پاکستان کو جنگ یمن میں عملی اور فوجی حصہ نہیں لینا چاہئے البتہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے نپٹنے کے لئے سعودی عرب کے اندر ہماری عسکری موجودگی ضروری ہے ۔ دل کہتا ہے کہ حرمین شریفین کی مقدس دھرتی سے ہمارے مذہبی، قلبی، جذباتی اور عشق کے رشتے ہیں، عشق میں نفع کیا، نقصان کیا، حرمین شریفین کے حکمران ہمارے مخلص بہی خواہ اور سچے دوست ہیں اور انہیں کسی صورت بھی ناراض یا مایوس نہیں کرنا چاہئے۔ عالمی سیاست میں قابل اعتماد دوست کم ہوتے ہیں، انہیں ضائع کرنا حماقت اور ان کے لئے تھوڑا نقصان برداشت کرنا دوستانہ ایثار کہلاتا ہے۔ ضرب عضب سے لے کر سرحدوں تک ہماری فوج بے حد مصروف ہے لیکن ہم سعودی عرب کو راضی رکھنے کے لئے محدود پیمانے پر تو خدمت کرسکتے ہیں چلئے اتنی ہی سہی کیونکہ وہ ہماری مجبوریوں سے آگاہ ہیں۔ ایک طرف دل ہے دوسری طرف دماغ……دل کی مانوں یا دماغ کی؟

متعلقہ مضامین

Back to top button