پاکستان

سعودی عرب نے اپنے وہابی نظریئے کو بندوق کے ذریعے ایکسپورٹ کرنے کی کوشش کی، میر حاصل خان بزنجو

شیعت نیوز:بلوچستان نیشنل پارٹی (مالک) کے مرکزی رہنماء‌ اور سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نےاسلام ٹائمز سے گفتگو میں کہا کہ بلوچ قوم بنیادی طور پر بہت شریف ہے۔ شروع سے ہماری عوام غریبی اور سادگی میں اپنی زندگی گزارتے تھے۔ میں ذاتی طور پر اپنی مثال آپکو دونگا کہ 1980ء میں جب میرا تعلق کراچی یونیورسٹی سے تھا تو میری پہلی کلاس اسلامی نظریات تھی۔ پہلے دن ٹیچر نے پوچھا کہ آپکے والد کا نام کیا ہے۔؟ نام بتانے کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ کلاس کے بعد میرے آفس میں آئیں۔ دفتر میں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپکے والد ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں یا ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں۔؟ مجھے انکے سوال کا مطلب سمجھ میں ہی نہیں آیا۔ کیونکہ ہمارے علاقے میں ہاتھ باندھنے یا چھوڑنے کا تصور ہی نہیں تھا۔ بعد میں انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپکے والد شیعہ ہیں۔؟ مجھے اس جوانی میں یہ بھی پتہ نہیں‌ تھا کہ شیعہ کیا ہوتا ہے۔ پھر اس نے کہا کہ تم کافر ہو۔؟ تو میں نے کہا کہ نہیں‌ سر مسلمان ہوں۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ آپ میری کلاس میں نہ آئیں۔ میں نے صرف ان سے یہ کہا کہ برائے مہربانی مجھے فیل نہ کریں۔ چھ مہینے کے بعد جب رزلٹ آیا تو انہوں نے مجھے تینتیس نمبر دیئے ہوئے تھے۔

ہمارے ہاں صوفیزم کا بہت احترام تھا۔ مگر 80ء کی دہائی میں جس طرح بلوچ سوسائٹی کو وہابیت کی طرح دھکیلا گیا اور وہاں‌ اربوں روپے خرچ کئے گئے۔ ہمارے پورے معاشرے کو انتہاء پسندی کیجانب مائل کیا گیا۔ وہ مولوی جسکا کام ہمارے ہاں‌ صرف آذان دینا تھا، اسکے ہاتھ میں بندوق دے دی گئی۔ ہماری سادہ سوسائٹی کو تباہ کیا گیا۔ جہاں‌ لوگوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ شیعہ سنی کیا ہے۔ وہاں وہابیت، شیعہ کافر، بریلوی آدھا مسلمان کے نعرے لگنے لگے۔ وہابی نظریئے کی جانب سے اربوں روپے خرچ کرکے ہمارے معاشرے کو مذہبی طور پر اتنا تقسیم کیا گیا کہ جتنا سارے پاکستان کو بنایا ہوا ہے۔ ایک ریاست اس وقت تقسیم ہوتی ہے، جب وہ خود اپنے تقسیم ہونے کا فیصلہ کرے۔ شیعہ 80ء کی دہائی سے پہلے بھی موجود تھا۔ ہم نے نہیں‌ سنا کہ مذہب کے نام پر کسی کو تنگ کیا گیا ہو۔ برصغیر میں اسلام کے پھیلانے میں سب سے زیادہ کردار صوفیوں کا ہے مگر جب ریاست خود فیصلہ کرے کہ ملک کو تقسیم ہونا ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی بدقسمت ریاست نہیں ہوتی۔ ایرانی انقلاب کے بعد سعودی عرب نے اپنے نظریئے کو بندوق کے ذریعے ایکسپورٹ کرنے کی کوشش کی۔ آج اس پورے خطے میں جو جنگ جاری ہے، اس سے ہمارا دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ یہ آگ افغانستان میں طالبان کے نام پر امریکہ کی لگائی ہوئی ہے یا سعودی عرب کی جانب سے ہے۔

 

متعلقہ مضامین

Back to top button