کربلا معلٰی شکارپور کے نمازی شہداء کی یاد میں
صوبہ سندھ کے ضلع شکارپور کے علاقے لکھی در میں واقع مسجد و امام بارگاہ کربلا معلٰی میں نماز جمعہ کے دوران ایک خودکش بمبار نے خود کو واصل جہنم کرتے ہوئے کئی نمازیوں کو اپنی دانست میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ لیکن شہادت کی موت نے ان نمازیوں کو جنت الفردوس کے اس مقام تک پہنچا دیا، جس کی وہ تمنا کیا کرتے تھے۔ تکفیری دہشت گرد کے حصے میں عذاب کے فرشتے، شہید شیعہ نمازیوں کے لئے حور و غلمان۔ جس چیز کے آسرے پر تکفیری دہشت گردی کرتے ہیں یعنی جنت یا حوریں، وہ ملتی شہیدوں کو ہے اور جس انجام کو انہوں نے اپنے مخالفین سے دوچار ہونے کا خواب دیکھ رکھا ہے، اس عبرت ناک انجام سے وہ خود ہی دوچار ہوتے ہیں یعنی دوزخ کی آگ کا ایندھن بننا۔ اس زاویے سے دیکھیں تو تکفیری اس دنیائے فانی میں احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ کربلا معلی لکھی در شکارپور میں کیا جانے والا خودکش حملہ سانحہ پشاور کے بعد ملک بھر میں دوسرا بڑا سانحہ تھا۔ ایک نیوز چینل کے مطابق 61 نمازی شہید ہوئے۔
ایک صحافی و تجزیہ کار کی حیثیت سے ہمیں معلوم ہے کہ ایسے سانحات کے منفی و مثبت دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ منفی یا برا پہلو نقصان اور غم کا پہلو سبھی کو نظر آتا ہے۔ بلاشبہ معصوم و بے گناہ انسانوں اور خاص طور پر مسلمانوں اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ نماز جمعہ جیسے عظیم دینی اجتماع کے دوران نمازیوں کو زندگی جیسی انمول نعمت سے محروم کرنا، بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔ مقتولین کے ورثاء کو پوری زندگی اس کے نقصانات بھگتنے ہوتے ہیں۔ خاص طور پر بچوں کی یتیمی یا والدین کے بڑھاپے کا سہارا چھن جاتا ہے۔ مالی معاوضہ بھی کب تک کام آتا ہے۔ اس پہلو سے بھی یہ نقصان ناقابل تلافی ہوتا ہے۔
لیکن ایسے سانحات کے شہیدوں کے مقدس خون کی برکت سے مردہ معاشرے میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ بے حس معاشرے میں احساس اور حرکت پیدا ہو جاتی ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ صوبہ سندھ میں لسانی قوم پرستی کی سیاست معاشرے پر حاوی رہی ہے۔ اس سیاست کے پیروکار کا مائنڈ سیٹ گویا لسانیت ہی سیاسی قبلہ و کعبہ ہے، لیکن کربلا معلٰی شکارپور کے شہیدوں کے خون نے انسانیت کی سیاست کو لسانیت کی سیاست پر غالب کر دیا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ کی دھرتی پر اتنا بڑا سانحہ کسی کو برداشت نہ ہوا اور جب شیعہ تنظیم مجلس وحدت مسلمین نے ایک دن پرامن ہڑتال اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تو وفاق پرست جماعتوں سے زیادہ سندھ کی صوبائی قوم پرست جماعتوں نے نہ صرف اس کی حمایت کا اعلان کیا بلکہ اسے کامیاب بنانے میں اپنا کردار بھی ادا کیا۔ خیر کا ایک اور پہلو یہ کہ شیعہ علماء کاؤنسل سمیت ساری شیعہ تنظیموں نے تعزیتی اجتماعات اور احتجاج میں اپنا حصہ ڈالا۔ اچھا لگا جب علامہ امین شہیدی اور علامہ باقر نجفی کو ساتھ ساتھ کھڑے دیکھا۔
اس قومی سانحہ پر حکمران جماعتیں ناکام ہوگئیں اور پاکستانی ملت نے اپنے عظیم الشان اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ حکمران چاہتے تو سانحہ پشاور کے بعد جس طرح پوری قیادت پشاور میں جمع ہوئی تھی، اسی جذبے کا مظاہرہ کرکے شکارپور میں جمع ہوتی۔ وزیراعظم، وزرائے اعلٰی صاحبان پوری پارلیمنٹ کو شکارپور میں جمع کرتے اور وہاں سے دہشت گردوں کو کچلنے کے لئے اب تک وضع کی گئی پالیسی پر فوری عمل کروانے کی یقین دہانی کرواتے۔ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ حکمرانوں کی جانب سے نماز جنازہ میں عدم شرکت، ورثاء یا شیعہ قیادت سے تعزیت نہ کرنا، رسمی مذمتی بیان اور روایتی کھوکھلے اعلانات نے حکمران طبقے کی اخلاقی پستی کو ظاہر کر دیا۔ شکارپور میں پیر پگارا کی مسلم لیگ فنکشنل کے رہنماؤں امتیاز شیخ اور شہریار مہر نے کم از کم ملاقاتیں کرکے تعزیت تو کی۔
دیر آید درست آید، ایک دن بعد ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی، حیدر آباد اور لاہور میں مجلس وحدت مسلمین کے دفاتر جاکر تعزیت کی گئی۔ خالد مقبول صدیقی شکارپور گئے۔ فاروق ستار کراچی میں علامہ باقر زیدی سے ملے اور نہ صرف غم میں شرکت کی بلکہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مشترکہ محاذ یا اتحاد کی تجویز اور شمولیت کی دعوت بھی دی۔ پاکستان کے قیام کے حق میں قرارداد پاس کرنے والی سندھ اسمبلی میں بھی سانحہ شکارپور کی مذمت میں متفقہ قراردار منظور کی گئی۔ ایم کیو ایم کے سردار احمد نے کہا کہ صوبہ بلوچستان کے بعد اب صوبہ سندھ میں شیعہ مسلمانوں کو ہدف بنا کر قتل عام کیا جا رہا ہے۔ امتیاز شیخ نے اسمبلی میں مطالبہ کیا کہ سانحہ کربلا معلٰی شکارپور کے ہر شہید کے ورثاء کو کم از کم پچاس لاکھ معاوضہ ادا کیا جائے۔
اس سانحہ کے بعد بھی الزامات کا کھیل کھیلا گیا ہے۔ اسمبلی میں کہا گیا کہ یہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے، جبکہ انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے واضح کیا گیا کہ اندرون سندھ دہشت گردی کا خدشہ انہوں نے پہلے ہی ظاہر کر دیا تھا۔ اس طرح ایک دوسرے پر الزام لگا کر ریاستی و حکومتی ادارے اور شخصیات ملک اور صوبے کی جگ ہنسائی کا سامان مہیا نہ کریں اور کھلے دل سے اپنی ناکامی کا اعتراف کریں۔ دہشت گرد حملے میں کامیاب ہوئے، اس سے بڑھ کر ناکامی کا منہ بولتا ثبوت اور کیا ہوگا۔
پاکستان بھر میں احتجاج تو ہوا ہے لیکن سانحہ پشاور کے بعد جیسا احتجاج نہیں ہو پایا ہے، اور غمزدہ خاندان سمیت بعض دردمندوں کی یہ شکایت بجا ہے، لیکن جو افراد سانحہ شکارپور کے بعد کے احتجاج کی شدت سے متاثر ہوئے، وہ یہ دیکھ لیں کہ آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں کی مائیں آج بھی انصاف کے انتظار میں ہیں اور ان کی شکایت ہے کہ جب وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کو علم تھا کہ حملہ ہوسکتا ہے تو سکیورٹی کے انتظامات کیوں نہیں کئے تھے۔ 2 فروری 2015ء کو ان عظیم ماؤں نے مطالبہ کیا کہ سانحہ پشاور کی رپورٹ مشتہر کی جائے۔ مطالبات نہ ماننے کی صورت میں انہوں نے بھی احتجاجی تحریک شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس قوم کے ہم جیسے افراد کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ اب فوج کے ساتھ بھی عوام جیسا ہی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں سانحہ پشاور جیسا سانحہ رونما نہیں ہوا، لیکن پاکستانی فوجیوں کے بچوں کا اجتماعی قتل عام کیا گیا اور تاحال حکومت نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا کہ دہشت گردوں کو فوری سزا دی جائے۔ فوجی عدالتیں بھی تاحال قائم نہیں ہوسکیں۔
سانحہ کربلا معلٰی شکارپور اور سانحہ آرمی پبلک پشاور کے شہیدوں کی ماؤں کا دکھ ایک جیسا ہے۔ شکارپور کی کربلا میں بھی کم ازکم 3 ننھے منے کمسن بچے شہید ہوئے ہیں۔ شہداء کے ورثاء کو کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر بیک وقت ملک گیر مہم چلانا چاہئے، تاکہ پوری دنیا کو اور خاص طور پر اندرونی دشمنوں کو یہ معلوم ہو کہ اس ملک میں انسانیت کی سیاست غالب آچکی ہے اور لسانیت کی سیاست دم توڑ چکی ہے۔ جو سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خلاف قومی سطح کی صف بندی کی باتیں کرتی ہیں، انہیں چاہئے کہ ان شہداء کے ورثاء کو یکجا کریں اور خود پیچھے رہ کر ان کے جائز مطالبات منوانے کے لئے کردار ادا کریں۔ حکومت کو مجبور کریں کہ دہشت گردوں کے خلاف عملی اقدامات پر فوری عمل کیا جائے۔ شہداء کے خون کا انتقام حکومت پر قرض ہے، اس لئے دہشت گردوں کے فوری خاتمے کے لئے حکومت اپنے وعدے پر عمل کرکے دکھائے۔ باتیں بہت ہوچکیں۔
تحریر: عرفان علی