مقبوضہ فلسطین

دنیا کی کم سن اسیرہ ۔۔۔ ملاک الخطیب اسرائیلی عقوبت خانوں میں پابند سلاسل

شیعیت نیوز{مانٹرنگ ڈیسک} اسرائیل کی جیلوں میں ویسے تو سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں معصوم فلسطینی طویل قیدو بند کی صعوبتیں جھیلتے چلے آ رہے ہیں جس پرعالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز بھی اٹھاتی ہیں لیکن صہیونی دشمن کی فلسطینیوں سے نفرت کا اندازہ اس امرسے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں چودہ سال کی بچی کو بغیر کسی سنگین جرم کے جیل کی سلاخلوں میں بند نہیں کیا جاسکتا لیکن اسرائیل میں ایسا بھی ہو رہا ہے۔

جی ہاں!۔ یہ فلسطینی نونہالہ ملاک الخطیب ہے جسے اسرائیل کی فوجی عدالت کی جانب سے”دہشت گرد” قرار دے کر دو ماہ کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔
العالم ٹی وی رپورٹ نے ملاک الخطیب کی گرفتاری، مقدمے اور اس کیس کی سماعت کے تمام مراحل پر مبنی ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ملاک کو اسرائیلی فوج نے گرفتار کیا اور یہ دعویٰ‌کیا گیا کہ اس نے اپنے پاس ایک خنجر چھپا رکھا تھا جس کے ذریعے اس نے یہودیوں پرحملہ کرنا تھا۔ تاہم صہیونی فوج اپنے اس دعوے کو کہیں بھی ثابت نہیں کرسکی ہے۔ اس کے باوجود اسرائیلی عدالت نے ملاک کو دو ماہ قید بامشقت کی سزا سنا کریہ ثابت کردیا کہ صہیونی ریاست، اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے، سیاست دان، حکومت حتیٰ کہ عدالتیں بھی انصاف کے بجائے ظلم بانٹنے میں مصروف عمل ہیں۔

ننھی ملاک کو جب اسرائیل کے ایک باوردی فوجی جج کے سامنے ایک مجرم کےطورپر پیش کرکے بین الاقوامی انسانی حقوق کا خوب مضحکہ اڑایا گیا۔ جج کے روبرو پیشی کے وقت مسلح اسرائیلی فوجیوں نے ایک حصارقائم کررکھا تھا۔ ایسے لگ رہاتھا کہ کسی عالمی دہشت گرد اور نہایت خطرناک شخص کے مقدمہ کی سماعت ہونے جا رہی ہے۔ ملاک پُرسکون مگر دل گرفتہ تھی۔ جج کا فیصلہ سن کراس کی معصوم سی آنکھوں میں آنسو کی ایک لڑی سی ٹوٹ پڑی۔ دنیا کے اس منفرد مقدمہ کی کارروائی دیکھ کرآسمان بھی رو دیا ہوگا۔ کئی قدم دور کھڑے ملاک کے امی ابا اس منظر کوکیسے برداشت کرسکتے۔

وہ خواہش کے باوجود اپنی لخت جگر سے بات کرنے سے محروم تھے لیکن ان کے دل ملاک کے دھڑکن کے ساتھ ہی دھڑک رہے تھے۔ والدین تو یہ توقع لے کرآئے تھے کہ اس بار اسرائیلی عدالت انصاف پر فیصلہ کرتے ہوئے ان کی دختر نیک اخترکو بے قصور قرار دے کررہا کرنے کا حکم دے گی اور وہ لپک کراپنی شہزادی کو گود میں اٹھا لیں‌ گے۔ لیکن ملاک کو دو ماہ قید اور چھ ہزار شیکل جرمانہ کی سزا کوئی غیرمتوقع اس لیے بھی نہیں تھی کہ اسرائیلی عدلیہ کی تاریخ اس طرح کے ظالمانہ اور غیر منصفانہ واقعات سے بھری پڑی ہے۔

خیال رہے کہ اسرائیلی فوجیوں‌نے ملاک الخطیب کو 31 دسمبر کو اس کے گھرسے اٹھایا اور کئی دن تک خفیہ حراستی مرکز میں ڈال کروحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے والدین نے انسانی حقوق کے اداروں کے ذریعے اپنی بیٹی کا کھوج لگانے کی کوشش کی تو صہیونی فوج اسے منظرعام پرلے آئی۔ جس کے بعد اس پراپنے کپڑوں میں خنجر چھپا کر رکھنے اوریہودی آباد کاروں پر سنگ باری کرنے کے دو الزامات عاید کیے گئے اور انہی الزامات کے تحت اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ چند روز کی مقدمہ کی کارروائی کے بعد اسرائیلی جج نے اسے دو ماہ قید اور چھ ہزار شیکل جرمانہ کی سزا سنا دی۔

ملاک الخطیب اسرائیل ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں لاکھوں قیدیوں میں کم عمر اسیرہ ہے۔ اسے جب عدالت میں پیش کیا گیا تو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں تھیں۔ یہ طرز عمل کسی وحشی قبیلے کے ہاں بھی نہیں دیکھا جاتا چہ جائے کہ انسانی حقوق کاپرچارک کرنے والی دنیا کے سامنے ایک ریاست اس طرح کے مظالم ڈنکے چوٹ پر ڈھاتی چلی جائے۔

چشم نم کے ساتھ ملال کے والدین نے اسرائیلی عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ وہ اسی کی توقع رکھتے تھے اور ان کا کام صبر کرنا ہے۔ تاہم انہوں نے انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں اور عالمی حقوق کے علم برداروں سے یہ سوال ضرور پوچھا کہ آیا ملاک الخطیب ان کے ہاں بھی ایک جنگی مجرم اور دہشت گرد ہے۔ اگر نہیں اور واقعی نہیں تو عالمی اداروں کی خاموشی چہ معنی داردِ؟۔

دوسری جانب فلسطین میں انسانی حقوق اور اسیران کی بہبود کے لیے سرگرم مرکز کے ڈائریکٹر فواد الخفش نے کہا کہ اسرائیل کی کسی فوج عدالت کی جانب سے کم عمربچوں کو دہشت گرد قراردے کرانہیں سنگین سزائیں سنانا کوئی نئی بات نہیں بلکہ اسرائیلی عدلیہ کی تاریخ اس طرح کے سیاہ واقعات سے بھری پڑی ہے۔ انہوں‌نے کہا کہ ملاک الخطیب پہلی اسیرہ نہیں جسے کم عمری میں سزا دی گئی ہے تاہم اس کا کیس اپنی نوعیت کا پوری دنیا کا منفرد کیس ہے کیونکہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اس کی عمر کی کسی بچی کو دہشت گرد قراردے کر سزا نہیں دی گئی ہے۔

فواد نے بتایا کہ اسرائیل کی جیلوں میں اس وقت بھی 18سال سے کم عمر کے 280 بچے مختلف جعلی کیسز کے تحت پابند سلاسل ہیں۔ جنہیں غیرانسانی سلوک کا سامنا ہے۔ انہوں نے اسرائیلی جیلوں میں کم سن فلسطینیوں کو ڈالے جانے کے طرز عمل پرعالمی برادری کی خاموشی کو کھلا جرم قرار دے اس کی بھی مذمت کی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button